دنیا اور بالخصوص پاکستان کو اس وقت متعدد مسائل درپیش ہیں ۔ان تمام کا احاطہ کرنا تو یقینا ناممکن ہے ۔اگرحالات بہتر رہے تو مرحلہ وار ان کا حل ضرور پیش کروں گا۔غربت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کے پاس غربت کے خاتمہ کا فوری علاج آبادی کو کنڑول کرنے میں ہے ۔اپنی تقریر کا آغاز” چنگیری دے چار چوفیرے کتے” سے کیا ۔اس شعر سے وطن عزیز کے غیور غریبوں کی حوصلہ مندی ہوئی یا حوصلہ شکنی یہ بات وزیراعظم صاحب سے پوچھنی چاہیے ۔منصوبہ بندی کی شرعی حیثیت پر یقینا بحث ہونی چاہیے ۔بغیر مکالموں اورمباحث کے اسے وطن عزیز میں نافذالعمل کرنا کوئی درست اقدام نہیں ہے۔بحثیت مسلمان میں سمجھتا ہوں ہمارے ہر مسئلہ کا حل کتاب وسنت یعنی رسالت مآب ۖکی تعلیمات میں موجود ہے اوررسالت مآبۖ کی زندگی ہمارے لیے عمدہ نمونہ ہے۔جبکہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖکی زندگی میں ہمارے لیے ہرمسئلہ کا حل موجود ہے پھر کیوں نہ سیرت النبوی ۖسے غربت کا حل تلاش کیا جائے ۔بقول حالی :
سکھائے معیشت کے آداب ان کو پڑھائے تمدن کے باس سب ان کو
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر فرمایا ہے اوراللہ تعالیٰ بہترین رزق دینے والا ہے۔رزق کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے ۔پھر حضر ت انسان کے لیے زمین کے اندر اتنے زیادہ رزق کے خزانے رکھے گئے ہیں کہ قیامت آنے تک لوگ ان خزانو ں کو ختم نہیں کرسکتے ۔انسان محدود سوچ کا مالک ہے اس لیے ہرروز اپنی عقل سے پیمانہ بناتا رہتاہے کہ رزق ناپید ہوجائے گا۔ارے بھائی رزق ناپید نہیں ہوگا دنیا خوراک کی قلت سے ختم نہیںہوگی بلکہ دنیا باہمی لڑائیوں جنگ وجدل کی وجہ سے ختم ہوگی ۔غربت بڑھنے کی بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں ۔ ١:وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم ۔ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم غربت کی سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ وسائل کی تقسیم کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے سپر د کردیا ہے اورانسان اپنے فرض کو جب احسن طریقے سے ادا نہیں کرتا تب گڑبڑہوتی ہے۔ذرا بتائیے اگردودھ کی حفاظت کے لیے بلی کو محافظ مقرر کردیا جائے تو دودھ کی خیر ہوگی ؟ ہرگز نہیں!یہی وجہ ہمارے وسائل کی ہے۔
چند گنے چنے خاندانوں نے ہمارے وسائل پرقبضہ کیا ہوا ہے ۔بعض کے پاس ایک لاکھ ایکڑزمین ہے توبعض کے پاس پچاس ہزار ایکٹر بعض کے پاس پانچ پانچ سو کروڑ کے متعدد بنگلے ہیں توبعض کے پاس دبئی اورلندن میں فلیٹ ۔بعض وطن عزیز کے پولٹری صنعت پر قابض ہیں توبعض شوگر ملوں کے مالکان ۔جی ٹونٹی کیا ہے دنیا کے بیس امیر ترین ممالک ۔بینکوں کے مالکان کون ہیں ؟بین الاقوامی بینک مافیہ کے اصل مالکان آٹھ یہودی خاندان ہیں۔بحثیت نقاد غربت کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہے مگر بنیادی وجہ وسائل کی غیرمساویانہ تقسیم ہے۔معیشت کے رکھوالے ایسے ظالم بے رحم لٹیرے ہیں کہ جن کی مال جمع کرنے کی حرص ختم ہی نہیں ہوپاتی ۔رسالت مآب ۖکو معراج کی رات دکھایا گیا کہ اک حریص آدمی اپنے کپڑے میں دنیاوی مال واسباب ڈال رہا ہے جب جی بھرجاتاہے تو وہ گٹھر باندھتا ہے اوراپنے کاندھوں پر اٹھانا چاہتا ہے بڑی ہمت کرتاہے اپنی تمام قوت لگاتاہے گرجاتاہے ناکام رہتاہے۔پھر اپنا گٹھر کھولتا ہے اورمزید مال واسباب ڈالتا ہے پھر باندھتا ہے بڑی ہمت اورطاقت سے اٹھانا چاہتا ہے گرجاتاہے ناکام رہتا ہے پھر کھولتا ہے مال ڈالتا ہے اٹھاتا ہے ناکم رہتا ہے یہ حزیمت جاری وساری ہے پوچھنے پر بتایا گیا کہ یہ وہ شخص ہے جو دنیاوی مال واسباب جمع کرتارہامگر اس کی حرص پوری نہ ہوئی قیامت کے وقوع پذیر ہونے تک یہ مال کا حریص اسی اذیت میں مبتلارہے گے۔آبادی مسئلہ نہیں ہے مسئلہ ہے وسائل کی منصفانہ تقسیم کا ۔میں صرف اتناہی کہنا چاہتا ہوں :
اک طرز تغافل ہے سووہ ان کومبارک اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
٢۔ صدقات وزکوة کانظام : اللہ تعالیٰ نے اہل ثروت پر ان کے مالوں میں معاشرے کے فقراء ومساکین کی معاشی حاجات پورا کرنے کا حصہ رکھا ہے۔اگر کوئی خداکا بندہ بھوکاسوجاتاہے تو صاحب مال سے پوچھ ہوگی ۔اللہ اہل زر سے کہے گا تمہاری موجودگی میرا بندہ بھوکا سوگیاکیونکہ تم لوگوں نے اس حصے کے رزق پر قبضہ کرلیا ۔اللہ ایسے ظالموں کو سخت سے سخت سزادے گا۔دنیا کا کوئی ماہراقتصادیات بتاسکتا ہے کہ دنیا میں آج وسائل آبادی سے کم ہیں ۔حلانکہ ہم جانتے ہیں دنیا میں پچاس ایسے افراد ہیں جو پچاس سال تک دنیا کو فری تمام سہولیات فراہم کرسکتے ہیں ۔حافظ سعداللہ نے معروف مصری ادیب مصطفی لطفی منفوظی کا واقعہ بیان کی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے مالدار دوست کوملنے گیا اوروہ قیمتی پلنگ پر پڑا پیٹ کے شدید درد میں مبتلا کروٹیں لے رہا تھا ۔میں نے وجہ پوچھی تواس نے بتایا کہ آج لذیذکھانا پکا ہوا تھا ضرورت سے زیادہ کھالیا اس لیے شدید درد میں مبتلا ہوں ۔میں جھٹ ڈاکٹر کے پاس گیا اوردوائی لایا جس سے اسے آرام آگیا تھا۔واپسی پر میںایک غریب دوست کے گھر گیا تووہ بھی پیٹ کے درد میں مبتلا تھا وجہ پوچھی تو بتایا کہ کئی دن سے بھوکا ہوں اوردرد بھوک کی وجہ سے ہے۔جھٹ میں تندور سے روٹی لایا جسے کھاکروہ ٹھیک ہوگیا اس کے بعد منفوظی صاحب لکھتے ہیں کہ کاش میرے مالدار دوست نے اپنے ضرورت سے زیادہ کھانا غریب دوست کودیا ہوتا تو دونوں کے شکم کا علاج ہوجاتا۔
مزید فرماتے ہیں کہ آسمان بارش برسانے میں بخل نہیں کرتا نہ زمین غلہ اگانے میں بخل کرتی ہے۔جبکہ طاقتور کمزورں کے یہ چیزیں دیکھ کرجلتے ہیںاورغریبوں کی وسائل تک رسائی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں ۔اس رکاوٹ سے غرباء کا ایک طبقہ وجود میں آجاتاہے ۔جاننا چاہیے کہ غریب کا حق دبانے والے سرمایادار ہیں زمین وآسمان نہیں۔
٣۔ نااہل نکمے حکمران : غربت کی تیسری بنیادی وجہ نااہل چور نکمے لٹیرے حکمران ہیں جو یہاں حکمرانی کی لبادہ میں پیسے بٹورتے ہیں لوگوں کے منہ سے نوالے چھینتے ہیں اورسرمایہ بیرون ملک منتقل کردیتے ہیںیہی وجہ ہے کہ ایشیاء کے تیس فیصد افراد کی کل آمدنی ایک ڈالر یومیہ سے بھی کم ہے۔وجہ حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ عیاشیاں اوراللے تللے غریبوں کے ٹیکس کا پیسہ ایسے چھپاتے اور اڑاتے ہیں جسے ان کے باپ کی پراپرٹی ہو۔ایسے بے ایمانوں کو موت کی گھاٹ اتارنا چاہیے ۔نئی حکومت کرپشن پر سزائے موت کا بل لانا چاہتی ہے جوخوش آئند امر ہے۔غربت کے خاتمے کے لیے وسائل کی منصفانہ تقسیم ،عشرصدقات زکوة کانظام ،کرپٹ حکمرانوں کا احتساب ناگزیر ہے ۔اگر ہم اس پر مزید تفصیلی بحث کریں تو ہمیں مزید وجوہات بھی غربت کے خاتمہ میں معاون ہوسکتی ہیں۔