غریب عوام وطن عزیز میں لگا ”سیاسی تماشہ ” دیکھ رہے ہیں کسی لیڈرنے بنی گالہ کے مقام پر سینکڑوں ایکڑ رقبے پر پھیلے اپنے وسیع و عریض خوبصورت مرسع و مسجح محل کے ٹھنڈے ٹھار ماحول سے چند گھنٹوں کے لیے باہر نکل کر کیپیٹل ، فیصل آباد پھر سیالکوٹ میں سیاسی سرکس لگائی تو کسی نے ”کیپیٹل ٹاک ” کے ذریعے وطن عزیز کے اہم ریاستی اداروں کو اپنی ہوس ِ شہرت کا نشانہ بنایا ۔۔۔۔۔۔نتیجہ وہی ”ڈھاک کے تین پات ” والی بات ۔۔۔۔ہر ایک نے ہمیشہ غریب ہی کو اپنے ہدف پر رکھا ہے ۔۔۔۔۔وہی گھسے پٹے الفاظ اور غریب عوام کے جذبات سے کھیلنے والے نعرے ۔۔۔۔میں نے جب کیپیٹل، فیصل آباد اور سیالکوٹ کی شاہراہ پر گاڑیوں کے ہجوم میں غریب ورکرز کو بے خودی کے عالم میں اخلاص کے ساتھ نعرے لگاتے دیکھا تو مجھے ہنسی کے ساتھ ساتھ افسوس بھی ہوا کہ اِن نادانوں اور مخلصین کو معلوم نہیں ہے کہ ”ہمارے ساتھ اب کی بار بھی ہاتھ ہونے والا ہے ”جو لیڈر اپنی پارٹی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں ورکرز کو ”انصاف ” نہیں دے سکا وہ غریب عوام کو کیا انصاف مہیا کرے گا ؟ذرا سوچیے گا ضرور۔۔۔۔۔۔۔۔۔پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم پر سجے سیاسی میلے کے سٹیج پر جب اِنہی لیڈرز کو براجمان دیکھا جنہوں نے ہر دور میں عوام کو دھوکے اور فریب میں مبتلا کیے رکھا تو ایک عام آدمی طرح راقم بھی سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کپتان کا نعرہ ہے ”نیا پاکستان ”مگر ٹیم ساری کی ساری وہی گھسی پٹی پرانی ہے ، پرانی ”بوڑھی ” ٹیم کے ساتھ نئے پاکستان کا صرف خواب تو دیکھا جا سکتا ہے مگر عملاََکچھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔
انصاف کی علمبردار جماعت کے پنجاب کے اپوزیشن لیڈر اور لینڈ مافیا کے ماسٹر مائنڈ نے اپوزیشن لیڈر کے حلف اُٹھانے کے ساتھ ہی اگلے دن ”جاتی اُمراء ” کا طواف کر کے ناشتہ کی ٹیبل پر ”خادم اعلیٰ ” سے ڈیل کر کے اپنے بھائی کو ایل ڈی اے میں اعلیٰ عہدے پر تعینات کرا کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چُپ سادھ لی اگر واقعی لہلہاتے کھیتوں کی سر زمین پنجاب میں انصاف کی علمبردار جماعت اپوزیشن کا حقیقی رول ادا کرتی تو آج غریب عوام کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتے ، مرکز میں بھی زوالفقار علی بھٹو کی جماعت کے اپوزیشن لیڈر ”شاہ جی ”حکومت کے ساتھ گُڈی گُڈے کا کھیل ۔۔۔کھیل رہے ہیں کیونکہ اِن کا بھی شریفین والبریفین برادرز سے ”میثاق ِ جمہو ریت ” کے نام پر باری باری کے کھیل کا معاہدہ ہو چکا ہے اپنی لندن کی جماعت کا سیاسی کردار بھی دیکھ لیجئے کہ وہ بھی محض اقتدار کی خاطر سب کچھ کر رہی ہے جب یہ اقتدار سے باہر ہوتو اِ نہیں کراچی کا امن ڈولتا ہوا نظر آتا ہے مگر جب اقتدار کی ہڈی اِن کے منہ میں ڈالی جاتی ہے تو اِنہیں ہر طرف امن ہی امن کی بہاریں نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں پھر بڑھکیں بھی ختم اور احتجاج بھی بند،یہ کیاطُرفہ تماشہ ہے ؟۔۔۔۔۔کیا کوئی اُصول نہیں ہے محض اقتدار ہی اپنی منزل ہے اگر مل گیا تو بھلے بھلے نہ ملے تو گِلے ہی گِلے ۔۔۔۔واہ بھائی واہ ۔۔۔۔وطن عزیز میں اپنے ”مولانا ” جی اور ”الطاف بھائی ”دو ایسی ”عظیم البرکات ” شخصیات ہیں جن کا کسی بھی دور میں اقتدار کے بغیر گزارہ ہی نہیں ہے۔
یہ سیاسی مچھلیاں اقتدار کے بغیر ایک پل بھی زندہ نہیں رہ سکتیں ، اقتدار کے پانی کے بغیرمُرغِ بسمِل کی طرح اِن کا تڑپنا اور پھڑکنا دیکھنے والا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔اگر یہ لیڈرز اپنی غریب عوام سے واقعی مخلص ہوتے تو اِن کا مرنا جینا عوام کے ساتھ ہوتا ۔۔۔۔۔۔کسی نے اسلام کے نام پر ۔۔۔۔۔۔کسی نے انقلاب کے نعرے کی بنیاد پر ۔۔۔۔۔کسی نے روٹی کپڑے اور مکان کے منشور پر ۔۔۔۔۔۔۔ڈھونگ رچا رکھا ہے ، اگر اِن کے دامن نچوڑے جائیں تو ہوس زر کی میل بر آمد ہوگی اور دستاروں کو نچوڑا جائے تو دستار کے ہر پیچ سے گناہوں اور انا پرستی کی دھول نکلے گی اِن لیڈرز نے اپنے ایک چہرے پر کئی چہرے سجا رکھے ہیں جس ملک میں علماء کی نمائندگی طاہر محمود اشرفی جیسے بھاری بھر کم جسم اور موٹی تونداور موٹی عقل و چوڑی گردن کے مالک کر رہے ہوں اُس وطن کا اللہ ہی حافظ ہے ۔۔۔۔۔۔۔ہماری سیاست کا رویہ تشد آمیز اور ہنگامہ خیز ہے۔
Pakistan
ہمارے مذہبی رویوں میں آتشیں اور زلزلہ آفریں جراثیم پائے جاتے ہیں، ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم آج تک اپنی سیاست میں استقلال، مذہب میں استدلال اور سو سائٹی میں اعتدال پیدا نہیں کر سکے ہمارے سیاسی اکابرین کی اگر فہرست پیش کی جائے کہ جنہوں نے قیام ِ پاکستان کی جدو جہد میں عملاََ حصہ لیا تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ایسے اُجلے اور نکھرے کردار کے لوگ بھی پاکستان کی سرزمین پر موجود تھے ؟ ان لوگوں کو بلا شبہ پہاڑی کا چراغ اور زمین کا نمک کہا جا سکتا ہے ، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ آج ہماری سیاسی قیادتیں دماغ ، فکر ، کردار ، اوریجنیلٹی ، بیدار مغزی اور کشادہ نگہی سے یکسر کیوں محروم ہیں ؟ ”راہنمایان ِ قوم ” اپنا سارا زور اور توانائی دولت ، عصبیت ، طاقت ، جہالت ، خوشامد ، ذاتی وفاداری اور بونے پن پر کیوں صرف کر رہے ہیں ؟برملا کہا جا سکتا ہے کہ سرزمین پاک نہ تو فکری لحاظ سے بانجھ پن کا شکار ہے اور نہ ہی ذہنی طور پر بنجر ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے سینے میں ایسے ایسے خزانے چھپا دیے ہیں اگر اُن کو صحیح جگہوں پر استعمال کیا جائے تو آج دنیا ہماری دہلیز کی محتاج ہو اور کاسہ لے کر ہمارے دروازے پر کھڑی اپنی سانسوں کو باقی رکھنے کے لیے بھیک مانگ رہی ہو ،مجھے اس موقع پر آبروئے صحافت جناب ِ مجید نظامی کی وہ بات شدت سے یاد آرہی ہے جو آپ نے کئی سال پہلے ”پاکستان تھنکرز فورم ” کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی کہ ”اسلام آباد میں امریکی سفیر مسٹر مونجو کا پاکستان میں مقام بر طانوی عہد کے وائسرائے سے کم نہیں ، آج دنیا ”گلوبل ویلیج ” ہے تو امریکہ اس کا چو ہدری !وہ جاپان ، فرانس ، بر طانیہ اور جرمنی تک پر اپنی چوہدراہٹ چلانا چاہتا ہے تو پاکستان کس باغ کی مولی ہے ، اپنی حفاظت اور اپنی فوج کی مضبوطی کے لیے ہم نے لیاقت علی خان کے دور سے چکر لگانے شروع کیے مرحوم آصف نواز بھی امریکہ گئے ، جنرل وحید بھی چکر لگا آئے۔
ہم اتنے اہتمام کے ساتھ حج اور عمرہ کرنے کے لیے نہیں جاتے جتنے اہتمام کے ساتھ واشنگٹن جاتے ہیں ، ہم یا تو اس حقیقت کو تسلیم کر لیں کہ امریکہ ہی ہمارا ملجیٰ و ماویٰ ہے یا پھر خود میں قوت بازو پیدا کریں اپنی عزت ، خودداری اور آزادی و خو د مختاری کی حفاظت کریں ”یہ خطبہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم نے سیاست کو تجارت بنادیا ہے اور ہم نے امریکہ کی غلامی کو کائنات کی عظیم ترین متاع تصور کر لیا ہے اس کا واضع ثبوت آج بھی آپ کو نظر آئے گا کہ کس طریقے سے ہمارے ”با اختیار ” حکمران امریکی سفیر کے سامنے دست بستہ نظر آتے ہیں اور معمولی درجے کے سفیر کو وہ پروٹوکول دیا جاتا ہے جو خود اُنہیں اس ”نا ہنجار ” سفیر کے ملک میں بطور چیف ایگزیکٹو نصیب نہیں ہوتا اور جس طریقے سے ہماری ایئر پورٹ پر لائنوںمیں لگ کر ”عزت افزائی ” ہو تی ہے ساری دنیا اس انوکھے ”اعزاز ” کا مشاہدہ اپنی کھلی آنکھوں سے کرتی ہے ہمارے اسلاف اور حقیقی غریب پرور حکمران عوام کو جوابدہ ہوتے تھے مگر آج کے حکمران امریکہ کو جوابدہ ہیں۔
لوگوں کے ذہن زرخیز ہیں مگر سیاسی جماعتوں نے برادریوں میں جو ٹائوٹ پال رکھے ہیں اُن کے ذہن بنجر اور سوچیں کھردری ہیں اُن کے پیش ِ نظر نظریہ یا مقصد کوئی اہمیت نہیں رکھتا چند ٹکے ہی اُن کا مطمع نظر ہوتے ہیں جن کی خاطر وہ اپنا ایمان اور ضمیر تک اِ ن سیاسی لٹیروں اور فصلی بٹیروں کے پاس گروی رکھ دیتے ہیں اور اِنہی کے اشاروں پر بندروں کی طرح ناچتے رہتے ہیں اور پھر جب الیکشن کا موسم آتا ہے تو یہی ٹائوٹس اپنے ”سیاسی گروں ” کی حُب الوطنی کی یوں قسمیں کھاتے ہیں جیسے بیت المال کا پیسہ ہمارے نمائندگان ”بیت ِ مال ” یعنی گھر کا مال سمجھ کر کھاتے ہیں اور ڈکار تک بھی نہیں لیتے، جا پانیوں نے جنگ عظیم دوم کے بعد یہ فارمولہ عام کیا تھا کہ ”گھر بنائو کچا اور کاروبار کرو پکا ” مگر آج ہمارے سیاستدان گھر بھی پکا اور کاروبار بھی ”پکا ” کرنے کی فکر میں سرگرداں رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ہم سب لوگ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کے مقروض ہیں، کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر بن عبد العزیز کا سیب کھانے کو جی چاہا آپ کے رشتہ داروں میں سے کسی عزیز نے ہدیہ کے طور پر آپ کے پاس سیب بھیج دیا ، آپ نے اس سیب کی بہت تعریف کی کہ اس کی خوشبو بہت اچھی ہے اور رنگ بھی خوب ہے پھر آپ نے غلام سے کہا کہ جس شخص نے یہ سیب بھیجا ہے اس سے میرا شکریہ اور سلام کہنا اور کہنا کہ آپ کا ہدیہ بہت اچھا ہے اور سیب واپس کیا ہے کسی نے عرض کیا کہ اے میر المومنین یہ ہدیہ بھیجنے والا تو آپ کا برادر عم زاد ہے اور وہ آپ کے اہل بیت سے ہے نیز یہ کہ رسول ِ رحمت ۖ بھی ہدیہ قبول فر مایا کرتے تھے یہ سن کر آپ نے فر مایا تم پر حیف ہے !ہدیہ تو رسول ِ رحمت ۖ کے لیے ہدیہ تھایہ تو ہمارے لیے رشوت ہے ”آج پورے باغ کے باغ تک ڈکار لیے جاتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
Allah
”راہنمایان ِ قوم ” اپنی جماعت اور لیڈر سے مخلص نہیں ہیں وہ غریب عوام کے ساتھ کتنا مخلص ہوں گے ؟پاک سر زمین ، کشور حسین ، مرکزِ یقین اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سرزمین ابھی اتنی بانجھ نہیں ہوئی کہ اس کی کوکھ سے کچھ پیدا نہ ہو سکے اللہ تعالی ٰ نے اپنی انقلابی اور آفاقی کتاب قرآن مجیدمیں سورة رحمنٰ میں ستائیس نعمتوں کا ذکر فر مایا ہے اور یہ ستائیس کی ستائیس نعمتیں رب تعالیٰ نے کشور حسین ، پاک سرزمین اسلامی جمہوریہ پاکستان کو عطا کر رکھی ہیں اس لیے لُٹیروں اور فصلی بٹیروں کی تمام تر لُوٹ مار کے با وجوروشن مستقبل کی اُمید ابھی باقی ہے۔
اُمید ابھی کچھ باقی ہے اِک بستی بسنے والی ہے جس بستی میں کوئی ظلم نہ ہو اور جینا کوئی جرم نہ ہو وہاں پھول خوشی کے کھِلتے ہوں اور موسم سارے ملتے ہوں بس رنگ اور نور برستے ہوں اور سارے ہنستے بستے ہوں اُمید ہے ایسی بستی کی جہاںجھوٹ کا کاروبار نہ ہو دہشت کا بازار نہ ہو جینا بھی دشوار نہ ہو مرنا بھی آزار نہ ہو یہ بستی کاش تمہاری ہو یہ بستی کاش ہماری ہو وہاں خون کی ہولی عام نہ ہو اُس آنگن میں غم کی شام نہ ہو جہاں منصف سے انصاف ملے دل سب کا سب سے صاف ملے اِک آس ہے ایسی بستی ہو جہاں روٹی زہر سے سستی ہو
غریب کے منہ سے روٹی ، سر سے چھت اور جسم سے لباس اُتار نے والے ہمارے موجودہ ”راہنمایانِ قوم ”سے یہ اُمید عبث ہے کہ وہ سوسائٹی میں کچھ ایسا انقلاب لا سکتے ہیں جہاں حالات اِس سٹیج پر پہنچ جائیں کہ
جب باپ کی عزت کھو جائے جب قوم کی غیرت سو جائے جب بھائی کلب میں جاتے ہوں اور بہن کا حق کھاتے ہوں جب ماں کی نظریں جھُک جائیں الفاظ لبوں تک رُک جائیں جب گھر گھرمیں سُر تال چلے اور عورت ننگے بال چلے جب رشوت سر چڑھ کے بولے اور تاجر جان کے کم تولے پھر جب یہ سب کچھ ہوتا ہے رب غافل ہے نہ سوتا ہے جب اُس کا قہر برستا ہے قارون زمین میں دھنستا ہے پھر جب وہ پکڑ میں آتا ہے فرعون بھی جوتے کھاتا ہے قوم ِ عاد بھی زیرو زبر ہوئی قرآن میں اُس کی خبر ہوئی یہ سب عبرت کو ہیں کافی اب مانگ لو اللہ سے معافی اب مانگ لو اللہ سے معافی
جس ملک میں ایک طرف ایک کرکٹر اپنی ”نیک کمائی ”سے بارات والے دن صرف 6لاکھ کی شیروانی زیبِ تن فرمائے اور لڑکی والے مہندی ،مایوں ودیگر بیہودہ قسم کی رسومات پر لاکھوں روپے اُڑادیں (آج پتہ چلا ہے کہ اُسی کرکٹر کے چار بینک اکائونٹس بھی منجمد کر دیے گئے ہیں کیونکہ وہ 36لاکھ کے نا دہندہ نکلے ہیں )جبکہ دوسری طرف غریب اور یتیم گھرانے سے تعلق رکھنے والی ہزاروں بچیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے ” بابل ” کی دہلیز سے ”پیا گھر ”جانے کی خواہش دل میں سجائے بوڑھی ہورہی ہوں وطن کی اشرافیہ کی ایسی ”سوچ ” پر ماتم کیا جا سکتا ہے۔
ہمارے معاشرے کے جو حالات ہیں درج ذیل ایک اور نظم پڑھ کر سب کچھ آشکار ہو جائے گا کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے آفاقی اور کائناتی نظریے کی بنیاد پر معرض ِ وجود مملکت میں جاگیر دار ، سرمایہ دار، زردار اور زور دار کے پالتو کُتوں اور گھوڑوں کو توٹھنڈے مخملیں بیڈ اور مُربے”نصیب ” ہو رہے ہیں مگر دوسری طرف اُسی جاگیر دار کے ووٹرز کا بچہ دودھ کے چند قطروں کو ترس رہا ہے نظم ملاحظہ کیجئے۔
بھوک افلاس کے عفریتوں کو دیکھتے ہیں اور ڈر جاتے ہیں کتنے قاسم ، کتنے ٹیپو بچپن ہی میں مر جاتے ہیں ماں کی جھولی خالی کر کے قبروں کے منہ بھر جاتے ہیں فاقوں کی اِک نائو بنا کر دریا پار اُتر جاتے ہیں یہاں کُتوں کو ملتا ہے سب کچھ بچے بھوک سے مر جاتے ہیں
Nouman Qadir
تحریر: صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی فون نمبر: 03314403420