تحریر: نعیم الرحمان شائق ان دنوں سندھ اور پنجاب حکومت کے درمیان ‘مک مکا ‘ کا میچ جاری ہے۔ جب کہ خیبر پختون خوا کی حکومت اس میچ کے انجام کی بڑی شدت سے منتظر ہے۔ ہمارے وفاقی وزیر ِ داخلہ پچھلے کچھ دنوں سے بیمار تھے۔ جب وہ صحت یاب ہوئے تو انھوں نے اس بات کا بر ملا اظہار کر دیا کہ قائد ِ حزب اختلاف خورشید شاہ نے وفاقی حکومت سے مک مکا کیا تھا۔ دوسری طرف ہمارے قائد ِ حزب اختلاف بھی بڑی جوشیلی طبیعت کے مالک ہیں۔ انھوں نے چوہدری صاحب کو وزیر ِ اعظم کے آستینوں کے سانپوں میں سے ایک سانپ کہہ دیا۔
تیسری طرف خان صاحب کو موقع مل گیا۔ انھوں نے مک مکا کی قیمت کی بابت دریافت کر لیا۔ انھوں نے سوال کر دیا کہ حکومت نے خورشید شاہ کو خریدنے کے لیے کتنی قیمت ادا کی ؟بہر حال ایک عجیب تناؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ یہ تناؤ دو طرفہ نہیں ، سہ طرفہ ہے۔ ‘مک مکا’ فی الوقت پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ ہے۔ کالم نگار کی حیثیت سے مجھے بھی حالات ِ حاظرہ کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے ‘مک مکا’ پر لکھنا چاہیے۔ لیکن اس ساری صورت حال کے باوجود میں جان بوجھ کر آج کے کالم میں کوئی اور موضوع اٹھا رہا ہوں۔ جو یقینا اس موضوع سے کم اہم ہے۔
پچھلے دنوں بی بی سی اردو کی آفیشیل سائٹ پر ایک خبر شائع ہوئی تھی ۔ جس کا عنوان یہ تھا ،’ایک فیصد افراد کی دولت ، 99 فیصد کے برابر’۔ اس خبر سے معلوم ہو ا کی بین الاقوامی شہرت یافتہ فلاحی ادارے اوکسفیم کے مطابق دنیا کے امیر ترین ایک فیصد افراد کی دولت اب دنیا کے باقی 99 فیصد افراد کی دولت کے برابر ہے۔ اس ادارے نے اپنی رپورٹ کے لیے کریڈٹ سوئس کے اکتوبر کے اعداد و شمار کو بنیاد بنایا ہے ۔ اس ادارے نے ڈیوس میں ہونے والی کانفرنس ، جو اب ہو چکی ہے ، میں عالمی رہنماؤں سے اس عدم مساوات کے خلاف اقدامات کرنے کی اپیل کی ہے۔
World’s Richest Peoples
اس ادارے کی مذکورہ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ دنیا کے امیر ترین 62 افراد کے پاس عالمی سطح پر موجود 50 فیصد غریبوں جتنی دولت ہے۔ ادارے کی رپورٹ کے مطابق جس کے پاس 6880 امریکی ڈالر نقدی یا اتنی مالیت کے اثاثے ہیں وہ دنیا کے دس فیصد امیر ترین لوگوں میں شامل ہے۔
دنیا کے سر ِ فہرست ایک فیصد امیر افراد کی صف میں شامل ہونے کے لیے سات لاکھ سا ٹھ ہزار امریکی ڈالر کے اثاثے یا نقدی در کا ر ہے ۔یہاں یہ بات واضح کر دی جائے کہ 2010 ء میں 50 فیصد غریبوں جتنی دولت 388 افراد کی مجموعی دولت کے برابر تھی ۔ “تمام لوگوں کی خوش حالی ، آنے والی نسلوں اور کرہ ِ کے لیے معیشت بنانے کے بجائے ہم نے ایک ایسی معیشت بنائی ہے جو صرف ایک فیصد کے لیے کام کرتی ہے ۔”یہ الفاظ ہیں اوکسفیم کے ۔
اوکسفیم نے امیر اور غریب کے درمیان اس ظالمانہ فرق کے سد ِ باب کے لیے چندتجاویز بھی دیں ۔ اس بین الاقوامی فلاحی ادارے کے مطابق مزدوروں کی اجرت اور ایگزیکٹو افسران نے انعامات کے درمیان کی خلیج کو کم کیا جائے ۔ اس ادار ے نے جنس پر مبنی تنخواہ کے فرق کو بھی کم کرنے ، بے اجرت خدمات کا بدلہ دینے اور وراثت میں خواتین کے مساوی حق کی بات کی ہے ۔ اس کے علاوہ اس ادارے نے ادویہ کی قیمتیں کم کرنے اور عدم مساوات سے نمٹنے کے لیے دولت پر ٹیکس لگانے کی بات کی ہے۔
Poor Peoples
غربت کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ تاہم جس نکتے کی طرف اس بین الاقوامی فلاحی ادارے نے لوگوں کی توجہ مرکوز کی ہے ،وہ واقعی غربت کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک ہے ۔ یہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی ہی شاخسانہ ہے کہ دنیا میں غربت روز بروز بڑھتی جار ہی ہے۔
دولت کی یہ نا جائز تقسیم کس وقت وقو ع پذیر ہوتی ہے ؟اس وقت جب ، امیر اپنی دولتوں میں سے غریب کے لیے کوئی حصہ مختص نہیں کرتے ۔ جب سود اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ سود کو یوں ہی اللہ اور رسول ﷺسے جنگ کے مساوی قرار نہیں دیا گیا ، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قبیح عمل کی وجہ سے امیر ، بغیر کوئی محنت کیے غریب کی دولت ہتھیا لیتا ہے۔
یوں امیر ہمیشہ امیر رہتا ہے ، اور غریب ہمیشہ غریب ۔ یہ حقیقت ہے کہ غربت کا کلی طور پر سد ِ باب کیا جا سکتا ہے ۔ مگر یہ اسی صورت ممکن ہے ، جب امیروں سے اس معاملے میں سختی سے نمٹا جائے کہ انھوں نے کیوں کر اتنی ساری دولت جمع کر لی ۔ وہ تمام راستے بند کرنے پڑیں گے ، جن کے ذریعے امیر بے جاچارے غریب کی دولت پر قبضہ کر لیتا ہے ۔ اگر ان تمام راستوں کو بند کر دیا جائے تو غربت خود بہ خود تھم جائے گی ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں پوری اسلامی دنیا میں کوئی غریب نہیں تھا۔
یہ بات بڑی عجیب ہے ۔ لیکن حقیقت ہے ۔ مولانا ابو الحسن علی ندوی اپنی کتاب تاریخ ِ دعوت و عزیمت میں لکھتے ہیں :”عمر بن عبد العزیز کی مختصر مدت ِ خلافت میں یہ حال ہو گیا تھا کہ لوگ بڑی بڑی رقمیں زکوٰۃ کی لے کر آتے تھے کہ جس کو مناسب سمجھا جائے دے دیا جائے ، لیکن مجبوراََ واپس کرنی پڑتی تھیں کہ کوئی لینے والا نہیں ملتا ۔ عمر کے زمانے میں سب مسلمان غنی ہوگئے اور زکوٰ ۃ کا کوئی مستحق نہیں رہا۔ ”
حضرت عمر بن عبدا لعزیز نے دراصل وہ تمام راستے بند کردیے ، جن کے باعث غریبوں کی دولت امیروں کے پاس چلی جاتی تھی اور غریب اس ضمن میں خود کو مطلق العنان سمجھتے تھے۔انھوں نے امیروں کی طرف سے غریبوں پر لگائے گئے تمام ٹیکس معاف کر دیے۔ انھوں نے بیگار کو قانونا ََ ممنوع قراردے دیا۔ ان سے پہلی امراء اور شاہی خاندان کے افراد نے سلطنت کی زمین کا خاصا حصہ شکار گاہ یا چراگاہ کے لیے گھیر رکھا تھا۔ خلیفہ نے اس کو عوام کی ملکیت قرار دے دیا۔
Poverty
حکام کو تحفے تحائف لینے سے منع کر دیا اور حکم دیا کہ اگر وہ کبھی تمھارے لیے تحفے تھے تو اب رشوت کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ یہی وہ انقلابی اصلاحات تھیں ، جن کی وجہ سے انھوں نے کلی طور پر غربت کا خاتمہ کر دیا۔ دراصل آج دنیا کو غربت کے کلی خاتمے کے لیے عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کی اصلاحات کی ضرورت ہے۔