تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی میرا تجسس پورے جوبن پر تھا ‘میری حسیات بیدار ہو چکی تھیں اور میں حیرت سے چاروں طرف ہزاروں قیدیوں کو دیکھ رہا تھا ‘انسان اور اُس کی نفسیات اور رحجانات بچپن سے میرے پسندیدہ موضوعات رہے ہیں ‘انسا ن اِس دنیا میں آنے کے بعد اپنی پرورش مزاج اور ما حول کے تحت مختلف قسم کے اظہار کر تا ہے ‘نیکی کر ے تو فرشتے وضو کریں ‘برائی کر ے تو شیطان بھی پنا ہ مانگے ‘اگر آپ حضرت انسان کے رنگوں کا مطا لعہ کر یں تو یقینا حیرت میں ڈوب جا ئیں گے کہ انسان یہ بھی کر سکتا ہے کہ میرے چاروں طرف مختلف انسانوں کا سیلاب آیا ہو اتھا میں خو ش تھا کہ آج اونچی دیواروں کے پیچھے بیرکوں میں بسنے والی قیدی مخلوق کے مشاہدے کا مو قع ملا ہے مختلف عمروں اور جسموں کے قیدی چاروں طرف تھے ‘سپرنٹنڈنٹ صاحب میرے چاہنے والے تھے اب میں اُن سے قیدیوں کی معلومات لے رہا تھا کہ کس علاقے ذات کے لوگ زیا دہ جرائم کر تے ہیں اُن جرائم کے اسباب کیا ہیں۔
جیل میں آکر اِن مجرموں پر کیا اثرات پڑتے ہیں ‘اپنی متجسس فطرت کے ہا تھوں مجبور ہو کر میں نے بہت سارے قیدیوں سے با ت چیت بھی کی ‘میری با ت چیت اور جیل کے عملے کی معلو مات کے بعد جو حیران کن انکشاف ہوا وہ یہ کہ زیا دہ تر قیدی چھوٹے مو ٹے جرائم میں عرصہ دراز سے جیل میں پڑے ہو ئے تھے بے شما ر قیدیوں کی سزا ئیں ختم ہو چکی تھیں بے شمار غربت کی وجہ سے قانونی مشاورت اور مدد نہ لینے کی وجہ سے قیدی تھے’ قیدیوں میں اکثریت کمی کمین انسانوں کی تھی ‘مو چی ‘تر کھان ‘جو لا ہے ‘مصلی ‘تیلی ‘مزارع ‘ان قیدیوں میں بڑی ذاتوں کے لو گ بہت کم تھے ‘مل اونر سیاستدان بڑے مذہبی راہنما اعلی سرکاری افسران کیا یہ لو گ جرائم نہیں کر تے کیا پاکستان کی عدالتیں اور پو لیس ان لوگوں پر گرفت نہیں کر تی کیا یہ لو گ کسی عدالت سے سزا یا فتہ ہو کر جیل نہیں آتے کیا اپر کلاس طبقے میں جرائم نہیں ہو تے کیا وہ لڑائی جھگڑے نہیں کر تے کیا وہ دوسروں پر ظلم نہیں کر تے میں نے شدید حیرت کا اظہا ر کیا تو سپرٹنڈنٹ صاحب نے کمرے میں چائے کا کپ میرے ہا تھ میں تھما یا’ بسکٹ کی پلیٹ میری طرف سرکاتے ہو ئے زور دار قہقہہ لگا یا اور میری آنکھوں میں جھا نکتے ہو ئے کہا پرو فیسر صاحب یہ حال صرف اِس جیل کا نہیں ہے آپ پاکستان کی کسی بھی جیل کا وزٹ کر لیں آپ کو ایسے ہی اعداد و شما رملیں گے پاکستان کی تمام جیلوں کا حال ایسا ہی ہے آپ پاکستان کی کسی بھی جیل میں چلے جائیں آپ کو اپر کلا س کا مجرم نہیں ملے گا۔
میں نے چائے کا کپ میز پر رکھا اور اُس کی طرف سوالیہ نظروں سے گھو رنا شروع کر دیا اُس نے گرم چائے کا گھو نٹ اپنے حلق میں انڈھیلا اور بو لا جنا ب وجہ صاف ہے کہ پاکستان میں با اثر اوردولت مند لوگ تھا نیدار اور تھانے کو خرید کر بر ی ہو جا تے ہیں وہ علاقے کے تھا نیدار کو اپنا ذاتی چوکیدار سمجھتے ہیں جو تھانیدار اُن کے ٹکڑوں پر پلے گا وہ اُن کو کیسے پکڑے گا اور اگر کو ئی ایسا جرم ہو جا ئے جو تھانیدار ہضم نہ کر سکتا ہو تو یہ اپنی جگہ اپنا کو ئی ملازم پو لیس کو پیش کر کے اپنا دامن چھڑا لیتے ہیں ‘ججوں سے اپنی مرضی کے فیصلے لیتے ہیں اگر جج اِن کی بات نہ ما نے تو یہ لاکھوں روپے دے کر چوٹی کا وکیل کر تے ہیں یا ایسے وکیل جو ججوں کے قریبی ہو تے ہیں اگر یہ فارمولا بھی کام نہ کر ے تو گواہوں کوخرید لیتے ہیں یا گواہوں کو اغوا اور ما رنے کی دھمکیاں دے کر اپنی مرضی کی شہا دتیں دلاتے ہیں مجھے آج بھی ایک وکیل صاحب یاد ہیں جب میرے جاننے والے نے اُن سے کہا کہ وہ کرا ئے کے مکان میں رہتے ہیں مالک مکان مجھے گھر سے نکالنا چاہتا ہے میں صرف چھ ماہ مزید رہنا چاہتا ہوں تو وکیل صاحب نے کہا کہ آپ چھ ماہ نہیں 6سال بلکہ بیس سال رہیں اور پھر یہی ہو ا چند سال بعد ہی مالک مکان نے آکر ہا تھ جو ڑ دئیے تو کرا ئے دار پیسے لے کر گھر سے نکلا ‘پاکستان میں با اثر لو گ اگر تمام چالاکیوں کے باوجود قا بو آجائیں ان کو سزا ہو جا ئے تو یہ جیل کو ہی فائیو سٹار ہو ٹل میں تبدیل کرا لیتے ہیں پھانسی کو عمر قید اور عمر قید کوقبل از وقت رہائی میں بد ل لیتے ہیں اپنے اِن ہتھکنڈوں کی بد ولت یہ جیلوں سے دور رہتے ہیں جرم کر نے کے با وجود آپ کو جیلوں میں اپر کلاس کے لو گ نظر نہیں آئیں گے۔
جیلوں میں بھرے ہو ئے قیدیوں کی اکثریت ایسی ہے جو اپنی غربت کی وجہ سے چھو ٹے خاندان کا فرد ہو نے کی وجہ سے کسی بڑے بندے سے تعلقات نہ ہو نے کی وجہ سے اِن اونچی دیواروں کے پیچھے ٹھنڈی بیرکوں اور کال کو ٹھریوں میں قید ہیں اِن کا جرم گنا ہ صرف غربت ہے ہم مان لیتے ہیں کہ اِن جیلوں میں موجود قیدیوں نے چھوٹے مو ٹے جرائم کئے ہیں مثلاً مسجد سے جو تے چرائے کسی دوکان سے کو ئی عام چیز چرائی کسی کی جیب کاٹتے ہو ئے آپ ان کو سزائیں ضروردیں تا کہ صحت مند جرائم سے پاک ‘صحت مند معاشرے کی تشکیل ہو سکے لیکن وطن عزیز میں با اثر اورطاقت ور لوگوں کو کیوں نہیں پکڑتے جو انسانوں کو اپنے ڈیروں پر جانوروں اورکتوں کی طرح باندھتے ہیں غلاموں کی طرح ہانکتے ہیں نسل در نسل اِن بیچاروں کو قیدی بنا کررکھتے ہیں’ اگر کبھی بھول کر اِن بیچاروں سے کو ئی غلطی ہو جا ئے تو اِن کو چمنیوں میں زندہ جلا دیا جاتاہے زمین میں زندہ دفن کر دیا جاتاہے پتھر باندھ کر نہروں میں زندہ بہا دیا جا تا ہے ان انسانوں کو بول برازپینے پر مجبور کر دیا جا تا ہے اِ ن کی نوجوان لڑکیوں کو اپنے حرم میں کس لیا جاتا ہے جامعہ ہو نے پر سانسیں قبض کر لی جاتی ہیں ہما رے معا شرے کے طاقتور عیا ش لوگ اربوں روپے کی غیر ملکی شراب پی جا تے ہیں اربوں روپے جو ئے میں ہا ر جا تے ہیں جن کے منشیا ت کے اڈے نوجوانوں میں مو ت کا زہر اتا رتے ہیں جو شریف کا روباری لوگوں سے جگا ٹیکس وصول کر تے ہیں جو سر عام اجتما عی آبرو ریزی کے تما شے لگا تے ہیں جو یتیموں بیوائوں کی جائیدادوں پر قبضے کر تے ہیں جو تھانوں چوکیوں میں اپنے نوکروں کو بھرتی کروا کر چوکیداری پر مجبو ر کر تے ہیں جو نوجوان لڑکیوں کو ننگا نا چ کر نے پر مجبو ر کر تے ہیں جو اربوں ڈالر ما ڈلوں کے ذریعے ملک سے با ہر بھیجتے ہیں۔
لوگوں کی ٹانگوں پر بم باندھ کر جگا ٹیکس لیتے ہیں جو اپنے حلقے اور شہر میں اپنی مرضی کے غلام افسر لگوا کر ہلا کو خان بنتے ہیں خو اتین ملا زموں کو دور دراز ٹراانسفر کرواتے ہیں تا کہ وہ اُن کے بیڈ روم تک آئیں تو تبا دلہ واپس ہو ‘جو بنکوں کے بنک ڈکار گئے جن کی رگوں میں خو ن کی بجا ئے منشیا ت کا رنگ ہو تھانے عدالتیں جن کے گھر کی لو نڈیاں ہوں ایسے تما م مجرم تو آزاد ہیں اور جو مسجدوں سے جو تے چوری کر یں کسی دوکان سے یا گھر سے عام سستی چیز چرالیں ان کو کال کوٹھڑیوں میں بند کر کے چکی پیسنے پر مجبور کر دیں ‘کو ڑے لگوائیں ‘پھانسیاں چڑھیائیں انصاف کے نعرے ما ریں اپنے زر خرید بھکار ی دربا ری کالم نویسوں سے اپنی شان میں کالم لکھوائیں کیا ہما ری عدالتیں صرف ان غریبوںکے لئے ہی رہ گئی ہیں جو ان کے بیلنے میں آکر پھنس گئے ہیں کیا پاکستان میں کو ئی ایسی عدالت ہے جو نسل در نسل پاکستان کو لو ٹنے والوں کو پکڑ سکے جو غریبوں کو پکڑنے کی بجا ئے کسی طا قت ور کو بھی پکڑ ے کیا پاکستان صرف با اثر دولت مندوں کا ملک ہے اور یہاں پر غربت کے قیدی ہی قابل گرفت ہیں جو غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر چھو ٹا مو ٹا جرم کر کے جیلوں میں بھر دیے جا تے ہیں کا ش یہ سلوک با اثر لوگوں کے ساتھ بھی ہو۔