تاریخ میں طاقتور کے لئے ہمیشہ چٹ بھی میری پٹ بھی میری کی رسم رہی ہے۔طاقتور جب بھی چاہے اور جس پہلو سے بھی چاہے واقعات و حادثات اسی کی منشاء اور مرضی سے ترتیب پاتے ہیں۔پہلی جنگِ عظیم کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا اورعربو ں کے درمیان نئی لکیریں کھینچ کر کئی نئے ممالک قیام کی پالیسی اپنائی گئی جبکہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سرائیلی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ عربوں کو قابو میں رکھا جا سکے۔کوئی تھا جو یہ سوال کرتا کہ آپ عربوں کے ساتھ نا انصافی کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔طاقتور کو کوئی پوچھنے والاا نہیں ہوتا لہذا وہ طاقت کے نشہ میں جو چاہتا ہے کرتا چلا جاتا ہے۔نائین الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کی اور دھشت گردی کے نام پر لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔عراق کے صدام حسین نے امریکہ سے اختلاف کرنے کی کوشش کی تو اسے سرِ عام پھانسی دے دی گئی۔لیبیا کے کرنل قذافی نے لب کشائی کی جرات کی تو اسے سرِ عام بلوائیوں سے موت کت گھاٹ اتروا دیا گیا۔اور کل کا خوشحال لیبیا آج کا لہو لہان لیبیا ہے جس میں کسی کی جان و مال کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔
افغانستان پر چڑھائی کرنے کے لئے القائدہ کے قائد اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کا بہانہ تراشا گیا اور یوں ملا عمر کی طالبان حکومت کا خا تمہ کیا گیا ۔ ٹینکوں اور توپوں کے زور پر حامد کرزئی حکو مت قائم کی گئی جس نے امریکہ کو افغانستان میں اڈے قائم کرنے کی کھلی چھٹی دے دی ۔ حامد کرزئی کا ساتھ پاکستان کے آمر جنرل پرویز مشرف نے دیا اور یوں انے ہی حواریوں پر چڑھائی کر دی کیونکہ یہی امریکہ بہادر کی منشاء تھی۔ حامد کرزئی سے دل بھر گیا تو پھر اشرف غنی کو عنانِ اقتدار سونپ دی گئی جو بھارت نوازی کا جیتا جاگتا پیکر ہے۔ دو عشرے گزر جانے کے بعد امریکہ نے افغانستان سے رخصتی کا فیصلہ کیا تو پھر کل کے دھشت گردگروپ طالبان سے معاملات طے کر نے کا فیصلہ کر لیا۔کسی کو اس بات پر حیرانگی نہیں ہونی چائیے کہ امریکہ وقت کے ساتھ رنگ کیوں بدلتا ہے؟ یہ صرف امریکہ کے ساتھ ہی نہیں ہے بلکہ وقت پڑنے پر ہر طاقتور ایسے ہی رویوں کا اظہار کرتا ہے۔ پرنس کے خالق میکاولی اسی طرح کی سیاست کے علمبردار تھے جہاں وقت پڑ نے پر گدھے کو باپ کہنا ضروری ہوتا ہے۔امریکہ کو افغانستان سے نکلنا تھا تو پھر طالبان کو امن پسند ٹھہرانا ضروری تھا لیکن جب ضرورت پوری ہو جائے گی تو پھر یہی طالبان ایک دفعہ پھر دھشت گرد قرار پائیں گے ۔ اصل شہ مفادات ہوتے ہیں لہذا وہ جس انداز سے بھی پورے ہوتے ہوں ان کے حصول میں کسی شرمند گی کا احساس جنم نہیں لیتا۔،۔
نائین الیون کے بعد امریکہ طالبان کو دھشت گرد سمجھتا تھا جبکہ طالبان امریکہ کو جارح قرار دیتا تھا ۔یہ دو بنیادی نکات دونوں اقوام کی پالیسی کے بنیادی پتھر تھے ۔طالبان افغانستان سے امریکی افواج کی رخصتی چاہتے تھے جبکہ امریکہ طالبان کو دھشت گرد کہہ کر ان کا قتلِ عام کرتا تھا لیکن دو عشروں کے تصادم نے دونوں اقوام کو اپنے نظریات بدلنے پر مجبور کر دیا۔امریکی صد ر ڈولند ٹرمپ کو ٢٠٢٠ کے انتخا بات کا مرحلہ در پیش ہے جسے ڈولند ٹرمپ کسی بھی حالت میں اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے ۔انھوں نے عوام سے بے شمار وعدے کر رکھے تھے لیکن ان میں سب سے اہم افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی تھی۔۔امریکی تابوت امریکی عوام کو مشتعل کرنے کے لئے کافی تھے اور امریکی تابوت افغانستان سے آتے تھے اورتابوت بھیجنے والوں کوطالبان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔امریکہ کے لئے عافیت اسی میں تھی کہ وہ تابوت بھیجنے والوں سے صلح صفائی کر ے تا کہ امریکی فوجیوں کے تابوتوں کا سلسلہ رک جائے۔طالبان سے یہ معاہدہ انہیں تابوتوں کو روکنے کی ایک شعوری کوشش ہے۔
امریکہ نے طالبان کو امن پسند تسلیم کرلیا تو پھر طالبان نے بھی امریکہ بہادر کو سپر پاور تسلیم کرلیا۔امریکی افواج کچھ دنوں کے بعد افغانستان سے اپنا انخلاء شروع کر دیں گی لیکن ٨٤٠٠ کے قریب فوجی افغانستان میں مقیم رہیں گے اور وہ اس وقت تک مقیم رہیں گے جب تک افغانستان میں امن و امان کی صورتِ حال تسلی بخش نہیں ہو جاتی اور اس بات کا سرٹیفکیٹ بھی امریکہ نے ہی جاری کرنا ہے۔سوال یہ ہے کہ وہ امریکہ جس نے افغانستان پر اربوں ڈالر خرچ کئے ہیں کیا وہ افغانستان کو یونہی بے یارو مدد گار چھوڑ کر نکل جائے گا؟افغانستان کا معاملہ ویت نام سے مشابہ نہیں ہے جہاں سے امریکی افواج مکمل طور پر نکل گئی تھیں ۔افغانستان جغرافیائی اہمیت کا حامل ملک ہے جسے امریکہ کیلئے نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے ۔ ابھی تو طالبان اور امریکہ میں ایک معاہدہ عمل میں آیا ہے جبکہ اس کے سب سے اہم فریق افغانستان کے موجودہ صدر اشرف غنی ہیں جھنوں نے طالبان قیدیوں کی رہائی سے معذرت کر لی ہے۔شمالی اتحاد کے جنرل دوستم،حکمت یار اور دوسرے بہت سے گروہ اسی انتظا ر میں ہیں کہ وہ اقتدار کے کھیل میں اپنا حصہ وصول کریں۔ان کی طالبان سے مخا صمت سے پوری دنیا آگاہ ہے۔
ابھی تو طالبان نے اشرف غنی کی حکومت سے مذاکرات کا آغاز کرنا ہے اور یہ طے ہونا باقی ہے کہ طالبان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا ؟ طالبان افغانستان کے ساٹھ فیصد حصہ پر قابض ہیں اور وہ اشرف غنی کی حکومت کو کٹھ پتلی قرار دیتے تھے اور اس حکومت کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرتے تھے لیکن موجودہ معاہدے کی رو سے انھیں اشرف غنی کی حکومت سے بحالتِ مجبوری مذاکرات کرنے پڑ رہے ہیں جو کہ طالبان کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے اور ایسا امریکی دبائو کے تحت ہوا ہے۔امریکہ کو ا فغانستان سے نکلنا ہے لہذا اس نے ایک معاہدہ کا سہارا لیا تا کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک اس کے انخلاء میں کسی قسم کی رخنہ اندازی نہ کر سکیں۔موجودہ معاہدہ دو ایسے فریقین کے درمیان ہے جھنیں ایک دوسرے پر اعتماد نہیں ہے۔امریکہ طالبان پر بھروسہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہے جبکہ طالبان امریکہ پر بھروسہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔یہ معاہدہ ایک ایسی شطرنج ہے جس میں ہر قدم پر مات کے خدشا ت موجود ہیں ۔افغان تنازعہ نے پاکستانی سیاست پر جو منفی اثرات مرتب کے ہیں اس کے تناظر میں پاکستان کی حواہش ہے کہ یہ معاہدہ اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔
پاکستان کو افغانستان سے ہمیشہ دبائو کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ظاہر شاہ سے شروع ہونے والا دبائو آج بھی قائم ہے۔اشرف غنی کی موجودہ حکومت پاکستان پر الزام تراشی سے باز نہیں آتی ۔وہ بھارت نوازی میں پاکستان کو موردِ الزام ٹھہراتی رہتی ہے کیونکہ طالبان پر پاکستان کے اثرو رسوخ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ پاکستان نے افغان مہاجر ین کی شکل میں جو بوجھ سالہا سال سے اٹھا یا ہوا ہے اب وہ اس سے نجات چاہتا ہے لہذا پاکستان نے طالبان پر دبائو ڈال کر انھیں مذاکرات پر مجبور کیا۔معاہدہ تو ہو گیا لیکن اس کے دیرپا ہونے پر بے شمار سوالات ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ افغانستان کی داخلی سیاست ہے جس میں کئی متخارب گروہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ان گروہوں کی طاقت اور اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔روس کی پسپائی کے بعد بھی یہی متخارب گروہ ایک دوسرے کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں نکل پڑے تھے جس سے افغانستان جنگ و جدل کی آماجگاہ بن گیا تھا۔امریکی انخلاء کے نتیجہ میں بھی ایسا ہونے کے امکانات ہیں لہذا امریکہ افغانستان سے مکمل انخلاء پر کبھی بھی عمل پیرا نہیں ہو گا۔وہ افغانستان میں قیام کیلئے اسی معاہدہ کا سہارا لیتا رہے گا۔وہ جیسا چاہے گا معاہدہ کرے گا کیونک دنیاوی معاملات کی بھاگیں اس کے ہاتھ میں ہیں۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال