بجلی کے خلاف کون دھرنا دیگا

Pervez Musharraf

Pervez Musharraf

سابق صدر پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ دائر ہوأ …. بڑے اخبارکے بڑے کالم نگار نے حق نمک ادا کرتے ہوئے لکھا”جنرل پرویز مشرف پر غداری کا مقدہ چلانے کے لئے خصوصی عدالت قائم کر دی گئی جنرل صاحب پاکستان کی تاریخ کا افسوس ناک باب ہیں ہر فوجی آمر کی طرح انہوں نے بھی پاکستان میں تعمیر و ترقی کی رفتار کو ریورس گیئر لگایا ….” موصوف ،آج بھی کسی سرکاری منصب کے لئے …..کہ بہلے بھی ن لیگ حکومت میں سفارت کے منصب پر رہے….واہ صحافت تیرے رنگ ایک وقت تھا جب اخبار کے کسی بھی کارکن کے لئے غیر جانبدار ہونا پہلی شرط تھی اور آج …. معزز قارئین فیصلہ آپ کو کرنا، عورت کی عصمت اور قلم کی عصمت…..مشرف دور میں تعمیر و ترقی ریورس ہوئی یا آج ریورس گیئر لگا، تب بجلی دو، سے تین روپئے یونٹ، آج ١٢ سے ١٦، روپئے، ڈالر کو ٦٨ روپئے سے آگے ہلنے نہیں دیا۔

آج ڈالر١٠٨،روپئے، آٹا ١٣،روپئے آج ….جو لوگ کلو ،دو خریدنے پر مجبور وہ جانتے ہیں ،یہ فہرست بہت طویل ہے آج کا وہ کالم نگار بھی اِس کے اثرات سے لاعلم ہے انہیں کیا پتہ آٹے اور ساگ پات کا کیا بھاؤ ہے ،یہ تجربہ کا علم صرف اور صرف غریب خریدار کو ہے مجھے علم ہے کہ اِس تحریرکا بھی کوئی نتیجہ نہیں ہوگا ماسوئے اخبار کا صفحہ سیاہ کرنے اور اپنے زہن کا بوجھ ہلکا کرنے کہ ان ظالم حکمرانوں تک ایسی تحریریں نہیں پہنچتی جن میں غریب کی چیخیں ہوں، کہ اندھے مفاد پرستوں کا ٹولہ غریب عوام کی قسمت کا مالک بن گیا ہے اور اِس سچ سے مفر نہیں کہ یہ ہمارے ناکردہ گناہوں کی سزا ہے اور اس کے زمہ دار وہ نہیں بلکہ ہم خود ہیں کہ ہم نے اُنہیں خود پر مسلط کیا ہے۔

ظلم خدا کا کہ بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافو ں سے جو اِس وقت ١٢،روپئے اور ١٦ روپئے یونٹ تک بڑھا نے کے بعد جگا ٹیکسوں میں بھی ظالمان اضافہ کیا گیا ہے نومبر ٢٠١٣ کا بل دیکھ کر لوگوں کی چیخیں نکل گئیں مگر غریب کی چیخیں ….کسی کا بل پانچ ہزار سے کم نہیں زیادہ پندرہ تک …. ٣١٧ یونٹ، کا بل جملہ قیمت ٣٨٩٩، روپئے اور جگا ٹیکسوں کے ساتھ مقررہ تاریخ تک واجب الادا ،٥٠٥٩روپئے، یعنی اِس میں ،١١٦٠، روپئے جگا ٹیکسزاور اگر اس تاریخ کو ادا نہیں ہوتا تو ٣٩٠ روپئے مزید جرمانہ کے ساتھ ٥٤٤٩روپئے ادا کرنے پڑتے ہیں اور پھر مزے کی بات یہ کہ اتنا بڑا بل تاریخ ادائیگی ٢٥ نومبر یعنی مہینہ کا اخری ہفتہ جب غریب کے مٹکے سے آٹا ختم ہو چکا ہوتا ہے اور اُسے شام کی روٹی کے لالے پڑے ہوتے ہیں، آٹے کی قیمت کا کوئی پتہ نہیں یہ کب ٤٢،اور کب ٤٥،اور کب ٤٧، روپئے کلو ہوگی اکثر لوگ جمع نہیں کرا پاتے ،اور اگلے ماہ مزید جرمانے کے ساتھ ….اکتوبر کا گیس بل دیکھا ٢٦٢ روپئے گیس چارجنگ جو بل جمع ہونا تھا وہ ٩٢٠ روپئے عجب اندھیر نگری ہے ،نہیں یہی تو ترقی ہے کہ ،میرے سامنے اسی گھر کا مئی ٢٠٠٤ کا بل ہے صرف شدہ یونٹ ٣٠٨،مقررہ تاریخ تک واجب الادا،١٠٠٩، روپئے، اس بے آواز عوام کی کون سُنے گا،اب یہی عوام جو کہتے ہمارا شیر باقی ہیر پھیر اب شیر تو اپنی فطرت کے مطابق کام کر رہا … ٢٠٠٤ ء ١٠٠ سو،یونٹ تک دو روپئے اور ٢٠٠ تک تین روپئے اور پھر پانچ روپئے مگر یادرہے یہ مشرف دور تھا جسے جسے افسوسناک باب کہا …مگر اب عوام یاد کرنے لگے ہیں کہ آج وہی دو روپئے یونٹ، ١٢،روپئے اور تین روپئے یونٹ ١٦ روپئے فی یونٹ ہے۔

Electricity

Electricity

اِس پر بس نہیں غریب مار تو تب ہوتی ہے جب دو روپئے کی بجلی اور دس روپئے بجلی والے ….دو روپئے کی گیس اور دس روپئے گیس والے …..یہ والے جو ہیں،یہی غریب کی پیٹھ میں چھرہ اتارنے کے مترادف ،.. ،خدا کے لئے ملک کے کروڑوں عوام پر کچھ ترس کھائیں اور ہتھ ہولا رکھیں اگر اِس بے قوف عوام نے آپ کو منڈیٹ دے ہی دیاہے تو کچھ اُس کا بھرم رکھیں کہ…..چلئے صاحب اِس” والے” کی کہانی سناتاہوں کئی مرتبہ لکھ چکا ہوں پنجاب کے ایک دہات میں پرسُو بنئیے کی کہانی سُنیں وہ کس طرح غریبوں کو لوٹتا تھاٍ .گاؤں میں پرسو بنئے کی چھوٹی سی ہٹی جس میں لون، تیل، گُڑ وغیرہ لئے بیٹھتا، گاؤں کے بڑے زمیندار کو تو کبھی اس دکان سے کچھ خریدنے کی ضرورت پیش نہیں آئی کے اُس کے مٹکوں میں سال بھر کا ہر قسم کا اناج ہوتا اور اگر کبھی نقد پیسوں کی ضرورت پیش آتی تو کوئی جنس بڑے ساہوکار کے پاس فروخت کرتا ،مگر غریب، دسمبر میں اِس کے سب مٹکے خالی ہو جاتے اور اگلی فصل کے لئے پرسُو بنئے سے ادھا لینے پر مجبور ہاتا (جیسے ہماری حکومتیں ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف سے ادھار لینے پر مجبور …)اور پرسُو بنئے کا لوٹنے کا طر یقہ، رمضان آتا ہے لالہ جی یہ ایک آنے کا لون اور ایک آنے کا تیل اور ایک آنے کا گڑ بھی لالہ جی یہ پیسے بہی پر لکھ لیں اور اب پرسُو لکھتا ہے ایک آنے کا لون اور ایک آنہ لون والا ،ایک آنے کا گُڑ اور ایک آنا گُڑ والا ،ایک آنے کا تیل اور ایک آنا تیل والا ،رمضان بیچارہ کہتا ہے۔

لالہ جی یہ ایک آنے کا گُڑاور ایک آنہ گُڑ والا یہ کیا ،تو جھٹ سے پرسُو کہتا ہے اوے رمجو،اوئے ایک آنے کا گُڑ اور ایک آنہ گُڑ والا اوئے گُڑ لیا ہے نا اور کیا ….اب رمجو بیچارہ پرسو سے ادھار لینے پر مجبور ہے سر ہلا کر ٹھیک اے لالہ جی….اور ایک دن یہی پرسُو بنیا سیٹھ پرس رام بن گیا اور وہی چھوٹی سی لون تیل کی ہٹی بہت بڑے ہٹ میں تبدیل ہوگئی جیسے ہمارے آج کے ڈیپارٹمنٹل سٹور جبکہ ٤٧ ء میں ہمارے پاس یہ ہٹیاں بھی نہیں تھیں …ہمارے آج کے یہ ادارے خواہ سرکاری یا نجی پرسُو کے طریقہ واردات کے اصول پر عوام کو لوٹ رہے ہیں،اس وقت میرا موضوع بجلی ،کہ بل کے ذریعہ بے بس عوام کو انتہائی بیدردی سے لوٹا جا رہا ہے آج بجلی کا بل دیکھیں تو اُس میں ایک کالم میں لکھا ہے جملہ قیمت بجلی جس پر ”سٹار”لگا ہے لیکن صارف جاننے سے قاصر ہے کہ جملہ قیمت سے کیا مراد ،. در اصل ماضی کے تمام جگا ٹکسسز جملہ قیمت میں ضم کر دئے گئے ، اب پھر ایسے ہی کئی،کالم ہیں ہرکالم میں جگا ٹیکس کی رقم ہوگی ،قیمت ایندھن تصحیح ،اس سے بھی عام آدمی بے خبر ہے ،اور سر چارج،اب یہ سرچارج کیسا صارف کو علم نہیں ،یہ وہی پرسو ،”والا” ایک روپیہ بجلی کا اور ایک بجلی” والا” اب ہر کالم میں لکھی گئی رقم کو ”والا ” پڑھ لیں ، … لائین لاسز اورچوری شدہ یونٹ کیسے پورے ہوتے ہیں،.. یہ میٹر ریڈر کے ہاتھ کی صفائی سے…اس چوری کا خمیازہ وہ غریب بھگتتے ہیں جو دیانت داری سے بل ادا کرتے ہیں یا ادا کرنے پر مجبور. .. اب اِس چوری کے بارے میں بڑے بڑے قیمتی اشتہارات اخبارات اور ٹی وی پر دئے جاتے، کیا انتظامیہ لا علم ہے نہیں اُسے علم ہے، بجلی چوری یا لائن لاسز کیسے اگر نہیں تو ایسے سفید ہاتھی کو عوام پر مسلط رہنے کا کوئی حق نہیں،اُسے گھر کا راستہ دکھائے …. ؟جہاں کی بات کر رہا ہوں اکثریت غریبوں کی ہے اور سب ڈویژن میں، میں تقریباً انیس ہزار میٹر بتائے جاتے ہیں ان میں محض چند خوش قسمت ہوںگے جن کے بل میں زائد یونٹ نہیں لکھیں جاتے ورنہ میٹر ریڈر کی صوابدید کے کتنے زائدی ونٹ درج کرتا،کیوں ؟تاکہ چوری شدہ یونٹس پورے کئے جائیںجن کو لائین لاسز کہہ کر ادارا بری الزمہ ہوجاتا، بیشک لوڈ شیڈنگ 12سے 18، گھنٹے ہو مگربل دگنے ….! اب قیمتوں میں اضافہ سے،ایک روپئے کی بجلی اور دو روپئے بجلی والے ،اِس ”والے” میں جگا ٹکسوں کی صورت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے لیکن پرسُو بنیا تو ”والے” سے سیٹھ پرس رام بن گیا۔

اِس کہاوت نے جنم لیا ”پرسُو پرسا پرس رام اِس مایا کے ہیں یہ نام ”لیکن ہمارے یہ پرسُو تو لوٹ مار کے باوجود پرسُو کے پرسُو …..لیکن پانی اور بجلی کی وزارت کی طرف سے کبھی عوام کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ منگلا، تربیلا ڈیمز جبن کا قدیم پاور پلانٹ اور دیگر چھوٹے چھوٹے پن بجلی گھروں سے پیدا ہونے والی بجلی کی پیداواری لاگت کیا ہے…اِس، میں حکومتوں کو.. ”والا،اور والے ‘..’ سے کتنا، نفع حاصل ہوتا ہے اور پھر اگر اُنیس ہزار میٹر، ہر میٹر پر محض ٥٠ یونٹ زائد درج ہوں تو حساب لگائیں ایک سب ڈوژن سے ایک ماہ میں کتنا زائد ریونیو حاصل ہوگا اور کتنا جگا ٹیکس اِسی تناظر میں پورے ملک سے کتنا………!

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر : ع.م.بدر سرحدی