منتقلی اقتدار کا عمل اور امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کی پاکستان آمد

Mike Pompio

Mike Pompio

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم

جیسے ہی پاکستان میں منتقلی اقتدار کا عمل صاف وشفاف انداز سے کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا؛تو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی ایک روزہ کیا؟ بلکہ چند گھنٹوں کے لئے پاکستان آمدہوئی ،اِس لمحے امریکیوں کے بقول پاکستان آمد نئی حکومت کو پاکستان سمیت خطے میں دہشت گردی کے حوالے سے دوبدو بیٹھ کرخاص لائن دینی تھی ۔اگرچہ، امریکیوں کا پاکستان آنا” ری سیٹ“ قرار دیاجارہاہے؛ مگر پھر بھی ابھی اِس میں بہت سے سوالات پوشیدہ ہیں۔ جن کے دونوں جانب سے تسلی بخش جوابات آنے باقی ہیں ۔تاہم جیسا بھی ہے؛ مگر اُمید ہے کہ آنے والے وقتوں میں سب سا منے آجا ئے گا۔

تاہم یہاں یہ امر قابلِ ستائش ہے کہ منگل چارستمبر کو مُلک کے نئے صدر مملکت کے لئے ہونے والے انتخاب کے نتیجے میں تحریک اِنصاف اور اتحادی جماعتوں کے صدارتی اُمیدوار ڈاکٹر عارف علوی353ووٹوں کی واضح اکثریت سے 13ویں صدر مملکت منتخب ہوگئے ہیں۔جن کی کامیابی کا باقاعدہ اعلان اگلے روز چیف الیکشن کمشنر نے کیا؛اور نوٹیفکیشن جاری کیا۔قوی امکان ہے کہ مملکتِ پاکستان کے نئے صدر 9ستمبر کو حلف اُٹھا ئیں گے ۔

جبکہ نومنتخب صدرِ مملکت کے مدمقابل مسلم لیگ (ن) ، متحدہ مجلس عمل سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کے اُمیدوار مولانافضل الرحمن کو185اور پاکستا ن پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن کو 124ووٹ مل سکے ۔اِس طرح 25جولائی 2018کومُلک میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد منتقلی اِقتدار کا جوعمل شروع ہوا تھا ؛اَب وہ حتمی طور پر مکمل ہو چکاہے ۔جس سے مُلک میں جمہوریت پنپے گی : اور اِس کے ثمرات عوام الناس تک پہنچتے نظر آئیں گے۔

مذکورہ منتقلی اِقتدار کا عمل تبدیلی کے نعروں اور وعدوں کے ساتھ تو پا یہ تکمیل کو پہنچا ؛مگر ابھی اِس سارے عمل میں سیاسی ناقدین کی نظر میں کابینہ اراکین کی ذاتی ، اخلاقی ، سیاسی اور معاشی و اقتصادی حوالوں اوراِن کی صلاحیتوں کے اعتبار سے کئی مخمصے اور ابہام موجودہیں۔جن پر گاہے بگاہے؛ سیاسی ناقدین تنقیدوں کے نشتر چلاکر نشاندہی کرنے میں مصروفِ عمل بھی ہیں۔اگرچہ، یہ ٹھیک ہے کہ تنقیدیں کرناناقدین کا اپنا کام ہے؛ مگراَب یہ اپنے فرض و کام میں اتنے بھی آگے نکل کر بے لگام نہ ہو جا ئیں؛ کہ اِن کا کام حکومتی اچھائیوں پر پردہ ڈال کر صرف تنقیدیں ہی کرنارہ جائے!! ۔

بہرکیف، اِس سے اِنکار نہیں ہے کہ آج نو منتخب وزیراعظم عمران خان اور اِن کی حکومت کے لئے اندرونی اور بیرونی لحاظ سے انگنت سیاسی اور معاشی و اقتصادی چیلنجز موجود ہیں،مگراِس کے باوجود یہاں یہ امر قابل تسائش ہے کہ اِس حال میں بھی مسائل پر جلد قا بو پانے کے لئے حکومت نے کفایت شعاری وخود انحصاری اور خارجہ پالیسیوں کو متعارف کرانے کے لئے اپنے تئیں ایسے اقدامات شروع کردیئے ہیں۔ جن کے مستقبل قریب میں بہتر نتا ئج اخذ ہونے کی اُمید پیدا ہوگئی ہے : خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک تاریخ ساز لمحہ اُس وقت دیکھنے کو ملا۔

پچھلے دِنوں جب امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیواپنے لاو لشکر کے ہمراہ بشمول امریکی افواج کے کمانڈر جنرل جوزف ڈن فورڈ جو ڈونلڈ ٹرمپ کے بہت زیادہ قابل اعتباراور پسندیدہ افراد میں شامل کئے جاتے ہیں،پاکستان آئے ، حسب روایت مہمان کی حیثیت سے آئے؛ امریکیوں نے اپنی آستین سے وہی پراناوالاڈومور کا خنجرنکالا اورنئی پاکستانی حکومت کو اِس سے گھائل کرناچاہا۔تو وزیراعظم عمران خان نے گھر آئے۔ امریکیوں کے ڈومور کے ہر وار سے بچتے ہوئے؛انتہائی بردباری اور خودمختاری سے اپنا دوٹوک موقف اختیار کیا ؛اور امریکیوں کی ڈومور کی فہرست کو اُنہیں ہی تھماتے ہوئے ؛ واشگاف انداز سے جیسے امریکیوں کو للکار تے ہوئے کہہ دیاکہ اَب مٹھی بھر ڈالرز کی بھیک یا امداد کے عوض پاکستان کسی کی لڑائی کا حصہ نہیں بنے گا؛اَب جِسے لڑائی کا شوق ہے؛ تو وہ اپنی لڑائی خود لڑے،جبکہ پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے یہ بھی واضح کردیاہے کہ پاک امریکا تعلقات خوشگوار ماحول میں چلنا چاہئے، اَب پاک امریکا تعلقات ڈومور کے لئے نہیں ہونے چاہئے۔ بلکہ نئی حکومت کے ساتھ پاک امریکا تعلقات آگے بڑھنے کی بنیاد پر ہی قائم رہ سکتے ہیں، ہمیں پتہ ہے کہ افغان امن سمیت خطے سے دہشت گردی کے متعلق امریکا پاکستان سے کیا چاہتاہے؟ مگر پاکستان امریکی مرضی اور اُس کی چاہت کے مطابق کام کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے،دوسروں کی لڑائی اور جنگ کا حصہ بن پر پاکستان نے اپنا تاریخی اور ناقابل تلافی جانی اور مالی نقصان کیا ہے۔ آج کا پاکستان دنیا میں امن کا خواہاں ہے۔ پاکستان کسی دباو ¿ کے بغیر برابری کی سطح پر امریکا سے اچھے تعلقات تو چاہتاہے؛ مگر امریکا سمیت کسی کے مفادات کی جنگ نہیں لڑسکتاہے۔ بالآخرامریکا سے آئے مہمانوں سے خوشگوار ماحول میں پانچ گھنٹے تک جاری رہنے والا مذاکراتی کاعمل اختتام کو پہنچا؛تو امریکیوں نے بھارت کا رخ کیا۔وہاں کیا کچھ ہوا، یہ بھی سب کے سا منے ہے۔

راقم الحرف کی نظر میں بیشک ، ہماری نئی حکومت میں پاک امریکا تعلقات مفادات سے بالاتر ہو کر برابری اور خودمختاری بنیاد پر تو قائم رہ سکتے ہیں ، مگر امریکا پھر بھی پرا نی والی روش پر قائم رہ کر کسی دباو ¿ سے پاک امریکا تعلقا ت روارکھنا چاہتاہے؛ تو امریکا کو یہ ضرور سوچنا ہوگاکہ اَب وزیراعظم عمران خان اور اِن کی حکومت کے ساتھ ایساہونا ممکن ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔ کیوں کہ پاکستان کی نئی حکومت پہلے ہی واضح کرچکی ہے کہ اَب سب اپنی حدود ہی میں رہیں، ماضی میں جو کچھ ہواہے ،تبدیلی اور نئے پاکستان کا نعرہ لگا نے والی نئی پاکستا نی حکومت میں مُلک اور عوام کو نقصان پہنچا نے والی پالیساں ہرگز برداشت نہیں کیں جا ئیں گیں۔

اِسی طرح نو منتخب وزیراعظم عمران خان اور اِن کی کا بینہ کے اراکین نے وفاق سمیت چاروں صوبوں کی حکومتوں کو واضح کردیاہے کہ سب اپنی حدود میں رہیں ،بیجا کسی ادارے کو کسی ادارے میں مداخلت کرنا ہی بگاڑ کا سبب بنتاہے ،اگرآئین اور قانون کی رو سے ادارے اپنے اختیارات سے تجاوز نہ کریں ۔ اپنی حدودو قیود میں رہ کر کام کریں؛تو ماضی کی حکومتوںکے مقابلے میں موجودہ حکومت حقیقی معنوں میں کئی مثبت تبدیلیوں کی نوید لیئے نئے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے ساتھ آگے بڑھے گی ورنہ ؟یہ اپنے تبدیلی کے وعدوں اور دعووں پر خود ہی سوالیہ نشان لگا دی گی۔ (ختم شُد)

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com