تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم آج اقتدار کے بچاریوں نے مُلک میں ہارس ٹریڈنگ اور فلورکراسنگ کا بازار گرما کر رکھا ہے گھوم گھوما کر سیاسی چالباز ایک نکتے پر پہنچ رہے ہیں اور سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئر مین کا چناو چند گھنٹوں میں ہونے کو ہے جس کے بعد سینیٹ کے الیکشن کا عمل مکمل ہو جا ئے گا،آہا آہاآہا….!!پھر اِس کے بعد ہارس ٹریڈنگ اور فلورکراسنگ سے تشکیل پا نے والے سینیٹ میں مُلک کی تعمیر و ترقی کے لئے قانون سازی کا عمل بھی شروع ہوجا ئے گا(سوچیں ، ہارس ٹریڈنگ اور فلورکراسنگ سے پید ہو نے والا سینیٹ چیئر مین اور ڈپٹی چیئر مین کیسی قا نون سازی کرے گا) تو یہ ہے اِس میںبھی ، سمجھے بھئی۔
بہر کیف ، اِسے تسلیم کرنا ہوگا کہ دنیا ایک عجا ئب خا نہ ہے، اِسے گھوم پھرکرتو دیکھا جا سکتا ہے مگر اِسے سمجھا نہیں جا سکتا ہے اِس کے تو سارے رنگ ہی جدا ہیں ہر رنگ میں بے شمار کہانیاں پوشیدہ ہیں اور ہر کہا نی کے انگنت کردار ہیں جتنی بڑی یہ دنیا ہے اُتنے ہی گھمبیر اور سمجھ میں نہ آنے والے اِس کے انداز ہیں آج بھی دنیا کی تا ریخ گواہ ہے کہ اِس کو سمجھنے کی کو شش کر نے والوں نے اپنی زندگیاں اِسے سمجھنے اور پرکھنے میں ضرور صرف کردیں مگرپھر بھی وہ اِس نتیجے پر پہنچے کہ یہ اِسے سمجھ نہیں سکے۔ ہاں البتہ ، زندگی سے بھر پور فائدہ اُٹھا نے والوں کا یہ خیال ہے کہ زندگی موقعہ پرست ہے اور فوری فائدہ اُٹھا نے کا نام ہی زندگی اور دنیاہے اور موقع پرست زندگی کے بغیر دنیا کچھ نہیں ہے،زندگی سے خاطر خواہ لطف اندوز ہونا اور فی الواقع کامیاب زندگی گزارنا ہی زندگی ہے آج یقیناکامیا ب زندگی گزارنا ہر اِنسان کا بنیا دی حق ہے مگر اِسے ہر زما نے کی ہر تہذیب کے ہر معاشرے کے ہر طاقتور طبقے یا اشرافیہ نے اپنی سوسا ئٹی کے کمزور اِنسا نوں کو اِن کے بنیا دی حق سے محروم رکھنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے آج سرزمینِ پاکستان میں بھی مٹھی بھر ہی سہی مگر طاقتور ترین اشرافیہ حکمرا نی کی صورت میں کمزور اِنسا نوں پر مسلط ہے جس نے بیس با ئیس کروڑبے کس و مجبور و مفلوک الحال عوام کو اپنے جا برانہ اور منافقا نہ طرز حکمرا نی سے بنیا دی حقوق سے محروم رکھا ہوا ہے۔
کہا جا تا ہے کہ زندگی تنقیدوں اور احتسابی عمل سے گزاری جا ئے تو بہتر انداز سے گزرتی ہے اہلِ دانش اِس پر متفق ہیں کہ تنقید و احتساب ایک ایسا نشتر ہے جو اخلاقی وجود کے تمام فاسد مادوں کو باہر نکال پھینکتا ہے اور اخلاقی توانائیوں میں خا طر خواہ اضافہ کرکے فرد اور معاشرے میں نئی زندگی کی روح پھونک دیتاہے اور جس سے زما نوں اور تہذیبوں میں تشکیل پاتے معاشرے اور اِنسا نوں کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو جا تے ہیں۔
بیشک اِنسان خطا کا پتلاہے ،وہ اِنسا ن ہی نہیں جو غلطی یا غلطیاں نہ کرے، بس غلطی کو تسلیم کرنا ہی اِنسان ہو نے کی دلیل اوریہی اِس کی معراج ہے مگر اَب ایسا بھی کو ئی نہ کرے کہ جب کو ئی کسی کے عیوب کی نشاندہی کرے تو وہ نشاندہی کرنے والے کے ہی خلاف ہو جا ئے اور اِس کے سا منے آستینیں چڑھا کر کھڑا ہو جا ئے جیسا کہ اِن دِنوں ہما رے مُلک میں پاناما لیکس سے اقا مے والے اعلیٰ عدلیہ کے خلاف بدزبا نی کرتے ہوئے محاذ آرا ئی میں تمام حدود پا ر کرتے جا رہے ہیں۔بنی کریم ﷺ کا ارشاد گرا می ہے کہ ”مومن کی میزان میں قیامت کے روز جو سب سے زیادہ وزنی چیز رکھی جا ئے گی وہ اِس کا حُسنِ اخلاق ہوگا اور خدا کو وہ شخص بڑاہی مبغوض ہے جو زبان سے بے حیائی کی بات نکالتا اور بدزبانی کرتا ہے“۔
اِس سے انکار نہیں کہ ہر زما نے کی ہر تہذیب کے ہر معاشرے میںعدلیہ ، قا ضی اور ججز ہر اِنسان کے قول و فعل کا آئینہ ہوتے ہیں جس طرح آئینہ آپ کے داغ دھبے ظاہر کرتا ہے اِسی طرح جب آپ کسی وجہ سے عدلیہ اور معزز ججزصاحبان کے سا منے پیش ہو تے ہیں تو معزز ججزصاحبان آپ کے داغ دھبے دکھاتے ہیں کیا کبھی آپ نے اپنے گھر کے اُس آئینہ کو پتھر مار کر توڑا اور اُسے کرچی کرچی کیا جس نے آپ کے داغ دھبے آپ کو دکھا ئے تھے اَب جو اقا مے والے اپنے سیاہ کرتوت سا منے لا نے والے معزز ججز صاحبان اور اعلیٰ عدلیہ کے خلاف” مجھے کیو ں نکالا؟ مجھے کیو ں نکالا؟ گلے پھاڑتے چیختے چلاتے دردر سر پھوڑتے اور عوام کو سڑکوں پر لا نے کے لئے اشتعال انگیزی پھیلا رہے ہیں کیا بھلا یہ بھی کو ئی ؟تین بار مُلک کے منصبِ اعلیٰ ( وزیراعظم )کے عہدے پر فائز نوازشریف اور ن لیگ والے مہذب انسانوں کا طریقہ ہے ؟
آج مُلکی اعلیٰ عدلیہ سُپر یم کورٹ آف پاکستان نے پاما نا سے اقا مے تک والوں کے چہرے کے داغ دھبوں کی صحیح صحیح تصویر پیش کرکے اِنہیں دونوں مرتبہ آئین کی آرٹیکلز 63/62کے تحت نااہل ہی تو قرار دے کر ایوان سے باہر کیا ہے مگر اِس پر بھی اقا مے اور پانامے والے آگ بگولہ ہو گئے ہیں اَب اِنہیں لگ پتہ گیاہے کہ ستر سالوں سے مُلک میں کیا ہورہاہے؟ اگر یہ نا اہل نہیں ہوئے ہوتے تو عین ممکن تھا کہ اِنہیں کبھی بھی پتہ نہیں چلتا کہ مُلک میں ستر سالوں سے کیا ہوتا آیا ہے؟ اَب جبکہ ہماری عدالتیں اور ججزاِن جیسے عدلیہ اور ججز سے کھلواڑ کر نے والوں کے عتا ب اور دباو ¿ سے آزاد ہو ئے ہیںاور آج جب ہماری عدلیہ اور معزز ججز صاحبان مُلک اور قوم کی بہتری اور مُلک میں آئین اور قانون کی بالادستی کے لئے کچھ بہتر کرنے جارہے ہیںتواَب سا بق وزیراعظم اور ن لیگ کے نومولود سربراہ نواز شریف کس منہ سے کہہ رہے ہیںکہ آج مُلک میں جو کچھ ہورہا ہے وہ سب غلط ہے کیو ں کہ آج جو کچھ بھی عدلیہ اور ججز کررہے ہیں وہ خالصتاََ آئین اور قا نون کی رو کے عین مطا بق درست کررہے ہیںاِس پر نوازشریف اور ن لیگ والوں بالخصوص وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا یہ کہنا کہ ” عدالتوں اور میڈیا میںہو نے والی باتوں کی حیثیت نہیں “ صریحاََ غلط ہے آج عدلیہ جوکررہی ہے جو کہہ رہی سب خالصتاََ ا ٓئین اور قا نون کے مطا بق حرف آخر ہے اور میڈیا میں جو لکھا اور بولاجارہاہے یہ بھی حکمرانوں، سیاستدانوں، بیوکروٹیس اور دیگر حکومتی اداروں کو آئینہ دکھا نے کے لئے ہے اور جہاں تک حکومت عوا می فیصلے کی بات کرتی ہے تو اِس بیچا رہی کا کیا ہے؟اِسے تو ہر زمانے میں سیاسی بازی گروں ، سیاسی چالبازوں اور قومی لٹیروں نے اپنا ووٹ لینے کے لئے سبز باغ دکھا ئے ہیں عوام سے ووٹ ایک گلاس لسی کا پلا کر کبھی میٹھے چاول کھلا کر کبھی ایک مٹھی بریا نی کھلا کر تو کبھی حلقے کے غریب ووٹرز کو دوچار کلو کا آٹے کا تھیلا دلا کر ووٹ لئے ہیں اور اقتدار کی سیج پر حکمرانواورسیاستدانوںنے اپنے قدمِ ناپاک رنجا فرما ئے ہیں ہمیشہ اِس طرح تو سیاستدانوںنے عوام سے اپنی مرضی کا فیصلہ لیا ہے ایسا ہی سوفیصد مُلک میںاگلے متوقعہ عام انتخابات 2018ءمیں بھی کیا جا ئے گا اور پھر سینہ جوڑا کرکے کہا جا ئے گا کہ کو ئی توہین نہ کرے عوا می مینڈیٹ سے سیاسی جماعتوں کو اقتدار ملا ہے ”تو یہ ہے اِس میں بھی، سمجھے بھئی “۔(ختم شُد)