تحریر : ملک نذیر اعوان وزیر اعظم صاحب نے پچھلے سال پٹرول کے سلسلے میں سیکٹری پٹرولیم، ایڈیشنل سیکٹری، ایم ایس، ڈی پی ایس او اور ڈی جی آئل کو فوری معطل کر دیا لیکن افسوس یہ ہے کہ وزیر پٹرولیم تو اپنے عہدے پر قائم ہیں ان چار آفیسر وں کی معطلی سے عوام کو کیا فائدہ ہوا ہے۔ جناب وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب فرماتے ہیں کہ پٹرول بحران رقم کی قلت کی وجہ سے پیدا نہیں ہوا بلکہ یہ حکومت کے خلاف سازش ہے ابھی تو سستے پٹرول کے ثمرات عوام تک پہنچے ہی نہ تھے کہ پٹرول کی قلت پیدا ہو گئی تھی جس کا براہ راست اثر بجلی پر پڑے گا۔
تربیلا ڈیم کے 10 یو نٹ تو پہلے ہی بند ہیں جس سے بجلی کے بحران کا شدید خدشہ تجاوز کر گیا اور تقریباََ ڈیڑھ سال سے عوام بجلی گیس کے بحران میں مبتلا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کی بے حسی کی انتہا ہے ان کو تو VIPپروٹوکول مل رہا ہے لیکن یہ تو سب مسئلہ غریب عوام کے لئے ہے اور ہمارے ملک میں جوپارٹی بد قسمتی سے بر سرَ اقتدار ہو ان تمام مسائل سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔پہلے پٹرول کا مسئلہ تھا ابھی بجلی کی شدید لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی عروج پر ہے ابھی تو ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ غریب آدمی کا جینا اس ملک میں دوبھر ہو گیا ہے۔
جب اس ملک کا پس ِ منظر دیکھتا ہوں تو رونا آ جاتا ہے بس دعا ہی کر سکتا ہوں کہ یا اللہ ہما رے حکمرانوں کے اندر بھی خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کی سوچ آ جائے تا کہ ہمارا ملک ان تمام گھمبیر حالات سے نکل جائے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کا ر ان تمام حالات کا ذمہ دار کون ہے ہر آدمی اپنے آپ کو قصور وار نہیں ٹھہرا رہا ہے ہر شخص ایک دوسرے پر اپنی ذمہ داری ڈال رہا ہے جیسا کہ پہلے پٹرول کا ایشو تھا اب بجلی کا بحران زور پکڑتا جا رہا ہے ابھی تو سردیاں ہیں جب گرمیاں آیئں کی تو پھر کیا ہو گا ابھی بڑے شہروں میں بجلی مسلسل 6 گھنٹے غائب ہوتی ہے چھوٹے گائو ں یا قصبوں کا تو خدا ہی حافظ ہے ۔ دوسری طرف وزیر بجلی و پانی جنا ب خوا جہ آصف صاحب فرما رہے ہیں کہ ملک سے توانا ئی بحران مزید تین سال تک ختم ہو جائے گا لیکن دماغ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر کب تک ہماری غریب عوام ظلم کی چکی میں پیستی رہے گی کیونکہ حضرت علی نے فرمایا تھا کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے مگر ظلم کا نظام نہیں چل سکتا یہ سلسلہ گزشتہ کئی سالوں سے محبِ وطن پاکستانیوں کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے۔
Electricity Crisis
جمبہوریت سے لے کر آمریت تک اور پھر آمریت سے لے کر جمبہوریت تک تقریباََ ہر دور میں بجلی کا مسئلہ پیش پیش رہا ۔ جیسا کہ ہم سب کو علم ہے کہ پیر کی رات جوں ہی بریک ڈائون ہوا ایک بھر پور دھماکہ کی آواز آئی کہ بجلی چلی گئی اور یہ خاموش آواز سوشل میڈیا پر بسنے والوں کے دلوں سے نکل کر سیدھی ان کی ٹائم لائن اپ ڈیٹ ہو گئی کسی نے بجلی جانے کا ذمہ دار صوبہ خیبر پختونخواہ کوٹھہرایا تو کسی نے اس کی ذمہ داری وفاق کے سر سونپ دی تو کسی نے اس کو سندھ حکو مت کی نا اہلی قرار دے دی تو جمبہو ریت اور آمریت کا رونا رونے بیٹھ گیا۔
حالیہ دنوں ملک کو ایک اور خوف ناک بحران سے نپٹنا پڑا کو ئی بجلی اور گیس کے لئے ترس گیا اور کچھ لوگ بوتلیں اٹھا کر پٹرول کے لئے ترس گئے اور کافی دیر تک شیر اور جیالے لائن میں لگ کر ذلیل ہوتے رہے اور اس صو رت میں سب اداس نظر آ رہے تھے اور گویا پٹرول بحران کے مسئلے پر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اللہ پاک نہ کرے کہ ملک واپسی راہوں پر گامزن ہو گیا ہے لیکن ابھی تک پٹرول کی قلت پوری نہیں ہوئی ہے تو عوام کو ایک اور جھٹکا لگ گیا اور وہ جھٹکا گیس اور بجلی کی بندش کی صورت میں سامنے آیا اچھی جمبہوریت کبھی ان مسائل کی اجازت نہیں دیتی ہے۔
اچھی جمبہوریت تو وہ ہے جو غریب عوام کے لئے سوچے ، بات اچھی جمبہوریت یا آمریت کی نہیں اصل میں بات تو خود کو بدلنے کی ہے مثال کے طور پر غریب آدمی تو یہ سوچتا ہے کہ ہمیں پیٹ بھر کر دو وقت عزت کی روٹی اور جسم پرزیب ِ تن کرنے کے لئے کپڑا اور سر چھپانے کے لئے چھت ضرور چاہئے کیونکہ غریب آدمی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ اچھی جمبہوریت یا بیڈ آمریت اور گُڈ گورنس کیا ہے کیونکہ عوام تو اس وقت خوش ہو گی جب اس کے تمام بنیادی مسائل حل کئے جائیں گے تقریباََ ایک سال سے حکومت میٹرو بس کے منصوبے کے لئے کوشاں ہے یہ بھی قدرے اچھا منصوبہ ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر جس پر زیا دہ توجہ دینی چاہئے تھی وہ بجلی گیس اور پانی ہے اور مہنگائی پر کنٹرول کرنا ہے جو ہر شہری کا بنیادی حق ہے اس لئے میری حکمرانوں سے مودبانہ التجا ہے کہ ایسے تمام مسائل پر پہلی فرصت میں توجہ دیں۔
Gas Crisis
ایسے تمام مسائل پر قابو پانے کے لئے اپنا تن من ایک کر دیں تا کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو یہ خوش آئند بات ہے کہ دو ماہ پہلے جو وزیر اعظم صاحب نے چائنہ کا دورہ کیا وہ اچھی پیش رفت ہے اگر اس پر عمل درآمد کیا گیا تو کم از کم ملک کا فی حد تک آگے چلا جائے گا اور مزید بجلی والا بحران بھی حل ہو جائے گا اس لئے ایسے تمام مسائل کو جڑ سے اکھاڑنا چاہئے اور یہ ہمارے ملک کی بد قسمتی ہے کہ کبھی ہمارے ملک میں پٹرول کا بحران ہوتا ہے اور کسی وقت بجلی اور گیس کا بحران ہوتا ہے جب پٹرول نہیں ہو تا ہے تو لائن میں لگے ہوتے ہیںاور جب بجلی کا بریک ڈائوں ہوتا ہے تو سب بلا امتیا ز اندھیری نگری میں بیٹھے ہیں جب گیس کی قلت ہوتی ہے تو ہوٹل سے کھانا خریدنا پڑتا ہے۔
بات اچھی جمبہوریت یا بری آمریت کی نہیں ہوتی ہے بات تو خود کو چینج کرنے کی ہے اگر آج عوام اچھی ہوتی تو پھر یہ رونا دھونا نہیں ہو تا اگر ان تمام بحران سے خود کو نکالنا ہے تو پھر خود کو بھی بدلنا ہے ۔ شخصیت پرستی اور پارٹی پرستی کا بت توڑ کر اصلیت پرستی میں جینا ہو گا ۔ پھر شاید ہم نئی امید کی کرنیں دیکھ پائیں گے ۔ دوسری طرف بار بار بجلی اور پانی کے قلم دان خواجہ آصف صاحب فرما رہے ہیں کہ عوام کو 2017 تک لوڈ شیڈنگ سے چھٹکارا مل جائے گا اور انھوں نے مزید یہ بھی کہا کہ شہری علاقے چھ گھنٹے اور دیہی علاقے آٹھ گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ پر لے آئیں گے جب کہ انڈسٹریل علاقوں کو بلا تعطل بجلی فراہم کی جائے گی اور مزید خواجہ آصف صاحب نے یہ بھی فرمایا تھا کہ موجودہ حکومت پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکو مت کے غلط فیصلوں کو بھگت اور سہی فیصلوں پر عمل کر رہی ہے بس ہماری یہ مزید دعا ہے کہ اللہ پاک ہمارے ملک پر مہربانی فرمائے اور اس کو تمام غیروں کی نظر سے بچائے۔آمین۔ ۔۔۔۔اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔