ضمیر اور ضمیر فروشی میں انتہائی نازک سا فرق ہوتا ہے جسے اہلِ نظر ہی سمجھ سکتے ہیں۔ایک مختصر سے فروشی کے لاحقے سے انسان کہاں کا کہاں پہنچ جاتا ہے شائد اسے خود بھی اس کا احساس نہیں ہوتا؟ ویسے بھی موجودہ دور میں ضمیر فروشی اور جسم فروشی ایک آرٹ کا مقام حاصل کر چکی ہیں ۔میری ذاتی رائے ہے کہ ضمیر فروشی ہی اس جسم فروشی کی بنیاد قرارپاتی ہے جسے معاشرے میں انتہائی نا پسندیدہ فعل سمجھاجاتا ہے ۔ بدلتے موسموں میں اب جسم فروشی پر وہ لعن طعن دیکھنے کو نہیں ملتی جو کبھی معاشرے کا خاصہ ہوا کرتا تھا۔ شائد لوگ زیادہ سیانے ہو گے ہیں یا پھر ترقی پسندی ،لبرل ازم،پرائیو یسی اور مغربیت نے غیرت مند احساس کو ہوا کر دیا ہے ۔دنیا میں حرص و ہوس اس مقام تک پہنچ چکی ہے کہ لوگوں کیلئے ضمیر فروشی سے بچ کر نکل جانا ممکن نہیں رہا۔فی زمانہ انسانی حواہشیں لا محدود ہو تی جا رہی ہیں،دنیا کی جاذبیت اور اس کا حصول ایک ایسا رنگین خواب بنتا جا رہا ہے جس کیلئے سب کچھ جائز قرار پا رہا ہے ۔
اصول و ضوابط، اقدار،اور کمٹمنٹ قصہِ ماضی بنتی جا ہی ہیں ۔پندو نصاح کو کوئی خریدنے کیلئے تیار نہیں ہے۔جسے دیکھو وہ اپنی غرض کا بندہ بنا ہوا ہے ۔ فی زمانہ دولت کی طاقت چونکہ مسلمہ قرار پائی ہے اس لئے اس کی جاذبیت سب کو اپنے حصار میں لئے ہوئے ہے۔آج لفظ کی حرمت کی بجائے دولت کی اندھی طاقت انسانی مدارج کا تعین کر رہی ہے۔اسی لئے دولت کا حصول ہر انسان کی پہلی ترجیح بنا ہوا ہے جس کیلئے اسے غیرت و حمیت کی قربانی دینی پڑ رہی ہے ۔پرانے وقتوں میں انسان کی پہچان اس کا اعلی کردار اور اس کی دیانت و امانت ہوا کرتی تھی۔لوگ ایسے با صفا لوگوں کو دیکھ کر حوش ہوتے تھے۔با صفا لوگوں کی موجو دگی معاشرے کا فخر قرار پا تی تھی۔با صفا افراد کسی بھی معاشرے کا حسن ہو تے ہیں اس لئے لوگ ان کی ذات پر فخر اور مان کرتے ہیں ۔(تنہائی کے اداس لمحوں میں۔ با صفا لوگوں کی یاد آتی ہے)میں خود اپنی زندگی میں کئی ایسے افراد کا شیدا تھا جو اپنی بات پر ڈٹ جاتے تھے۔
ان کے لئے اہمیت صرف اصولوں کی ہواکرتی تھی۔وہ کسی دولتمند یا صاحبِ ثروت کے سامنے نہیں بلکہ اپنے ادرشوں اور اصولوں کے سامنے جھکتے تھے۔ انھیں ڈرانا، دھمکانا یامرعوب کرنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔وہ اپنی ذات میں انجمن ہوتے تھے اسی لئے معاشرے کا حسن قرار پاتے تھے۔جذبات و احساسات کے مختلف رنگوں سے آراستہ معاشرے میں وقار اور تمکنت کا راج ہوتا تھا ،ایک وقار اور احترام کارفرما ہوتا تھا،بڑوں کو دیکھ کراحتراما کھڑے ہو نے کا چلن عام تھا،اپنے بڑوں کو سلام کرنا اور ان کی بزرگی کو قابلِ فخر سمجھنا معاشرے کی پہچان ہوتا تھا لیکن یہ سارا کلچر وقت کی دھول میں کہیں گم ہورہ گیا ہے جس سے انسان خود بھی تنہا ہو گیا ہے ۔،۔
اس وقت ہر کوئی اپنی جگہ پر افلاطون بنا ہوا ہے اور خود کو عقلِ کل کا مالک سمجھے ہوئے ہے۔وہ کسی کی بات سننے کیلئے تیار نہیں ہے۔اگر اہلِ عقل و دانش سچائی کی جانب قدم اٹھانے کیلئے روشنی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں تو انسان بپھر جاتا ہے ۔انسان اندھیروں کا عادی ہو جائے تو اسے روشنی کی تلاش کہاں رہتی ہے؟ ہمارے سامنے اس وقت ایک بالکل انو کھی دنیا ہے۔اس دنیا کا باسی بالکل الگ تھلگ رہنے کا متمنی ہے ۔ وہ دوستوں ،رشتہ داروں اور اپنوں محسنوں سے فاصلہ قائم رکھنا چاہتا ہے۔وہ اپنی پرائیویسی میں کسی کو مخل ہونے کی اجازت نہیں دینا چاہتا ۔ وہ انٹرنیٹ پر تو بڑا متحرک ہو گا۔بے سرو پا پوسٹیں بھی اپ ڈیٹ کرے گا لیکن رشتوں کے تقاضوں اور ان کی حساسیت کا اسے قطعی کوئی احساس نہیںہو گا۔وہ انٹرنیٹ کی دنیا میں مستغرق ہو گا جہاں اس کا فون سیل ہی اس کا سب سے بڑا دوست ہو گا۔اسے اچھائی اور برائی کی جو تمیز معاشرہ دیا کرتا تھا وہ معاشرہ اب مردہ ہو چکا ہے۔
اہلِ یورپ نے اپنے کلچر کے زور پر ہمارے قدیمی معاشرے کو دفن کر دیا ہے۔اب ہر کوئی اقبال کی طرح یہ تو کہہ نہیں سکتا۔(خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہ دانشِ افرنگ ۔،۔ سرمہ ہی میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف)۔اسلامی معاشرے کے اپنے خدو خال ہیں۔اس کے اپنے تقاضے ہیں۔وہ تقاضے ہمارے خون میں سرائیت کئے ہوئے ہیں لہذا ان کو ہمارے لہو سے کھرچنا ممکن نہیں۔صدیوں کے سفر کے بعد اہلِ یورپ کو ایک ایسا ہتھیار مل گیا ہے جس سے ان کا کام انتہائی آسان ہو گیا ہے ۔ وہ بات جسے منوانے میں یورپ کو کئی صدیاں درکا تھیں۔ ایک موبائل سیل نے ان کی ہر مشکل آسان کر دی ہے۔ہمارا معاشرتی یونٹ اور گھرانہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے ،رشتے ناطے ہوا میں بکھر گئے ہیں،ہر گھر میں آزادی کے دیپ جل رہے ہیں، رومانوی ماحول کا احساس جاگزین ہو چکا ہے اورہماری پوری نوجوان نسل ایک دوسرے کے ساتھ روابط کی زنجیر میں بندھ چکی ہے ۔موبائل فون پر بیہودہ پیغامات،میسیجز اور گفتگو روزمرہ کا معمول ہے۔کوئی احساسِ ندامت نہیں ، کوئی شرمندگی نہیں ، کسی سے کوئی جھجک نہیں۔
انٹر نیٹ پر شادیاں اور باہمی ملاقاتیں معمول کے واقعات ہیں۔انٹر نیٹ پرجس طرح کے بیہودہ مواد سے پاکستان کی نوجوان نسل مستفیذ ہو رہی ہے وہ اس معاشرے کی تباہی کی اصل وجہ ہے۔ہمیں احساس نہیں ہو رہا کہ ہم کیا کھو رہے ہیں۔ہے کوئی جو ذمہ داروں کا تعین کر یگا ؟ معاشرے میں اقدار کی بحالی کا علم اٹھائے گا؟ عفت و عصمت اور حیاء کی فضا قائم کرنے کی سعی کریگا ؟
کسی بھی ملک کی حکومت اپنے ہاں معاشرتی اقدار اور اس کی اعلی روایات کو قائم کرنے کی امین ہو تی ہے۔اس کا کام ایسے قوانین مرتب کرنا ہو تے ہیں جس سے عوام کی شعوری تربیت ہو تی رہے۔اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایسی پالیسیاں مرتب کرے جس سے عوام اپنے محور سے دور نہ ہو سکیں۔ریاست مدینہ کے نعرے تو زبان زدہ خا ص و عام ہیں لیکن ان کا کوئی اثر کسی بھی جگہ نظر نہیں آ رہا۔اس کی وجہ صرف اتنی ہے کہ پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ بر سرِ اقتدار رہتا ہے اس لئے اس طرح کی ساری کاوشیں ناکامی سے ہمکنار ہو تی ہیں۔اس خاص طبقہ کا مفاد چونکہ یورپ سے جڑا ہوا ہوتا ہے اس لئے وہ طبقہ یورپ کی خوشنودی کو ہر حال میں مقدم تصور کرتا ہے ۔عوام کی بد قسمتی یہی ہے کہ ہمارے حکمرانوں میں اصول پسندی کا مادہ عنقا ہو چکا ہے۔٣ مارچ کو سینیٹ الیکشن میں ضمیر کی آوازپر لبیک کہنے کے جو مظاہر دیکھنے کو ملے اس میں سید یوسف رضا گیلانی کامیابی سے ہمکنار ہو ئے لیکن محض نو دنوں کے بعد ١٢ مارچ کو سینیٹ چیرمین کے انتخاب میں ضمیر کی آواز کے دوسرے مظاہرے میں وہی سید یوسف رضا گیلانی چاروں شانے چت کر دئے گے۔
ایک شور مچا ،ہنگامہ برپا ہوا،ضمیر کی آواز کی بھر پور مذمت کی گئی حالانکہ نو دن پہلے ضمیر کی آواز پر زمین و آسمان کے قلابے ملائے جا رہے تھے۔کچھ صحافی اسے ضمیر فروشی کا نام دے رہے تھے اور کچھ دولت کی چمک سے موسوم کر رہے تھے۔ کچھ کے بارے میں شنید ہے کہ انھوں نے اپنا ووٹ ستر کروڑ میں بیچا تھا واللہ عالم بالصواب ۔ جس قوم کے سیاستدانوں کا کردار ضمیر کی آواز کو بدلتے رہنے میں پنہاں ہو اس قوم کے نو نہال بھی ویسے ہی ہوں گے۔انھیں بھی اپنے افعال پر شرمندگی کہاں ہو گی؟اب اس تمام کارِ زیاں کو عوام ضمیر فروشی کہیں گے، دولت کی چمک کہیں گے،مقتدرہ کا جادو کہیں گے،اہلِ حرم کا جبر کہیں گے،خفیہ ہاتھوں کی کارستانی کہیں گے، ،ضمیر کی آواز کہیں گے ،کسی تعویز گنڈے کا معال کہیں گے؟کسی موکل کی پھرتیاں کہیں گے۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔جو ہونا تھا وہ ہو گیا بس قوم منہ دیکھتے رہ گئی کہ ہم جن کے رحم و کرم پر ہیں وہ تو خود ضمیروں کے سوداگر ہیں۔اہلِ اقتدار ہی اقدار کے قاتل بن جائیں گے تو اقدار کیسے زندہ رہیں گی؟
Tariq Hussain Butt
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلس قلندران اقبال۔۔