تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور تمہیں یاد ہوکہ نہ یاد ہو۔ہمیں یاد ہے سب ذرہ ذرہ۔ وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے فوراً بعد بولا تھا کہ نومبر کے آخر تک لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی۔اندھیرے چھٹ جائیں گے اور ملک جگمگ جگمگ کرنے لگ جائے گا۔صنعت کا جام شدہ پہیہ چل پڑے گا اور ملک معاشی بحران سے باہر نکل کرترقی وخوشحالی کی منازل طے کرے گا۔روزگار کے بے شمار مواقع میسر ہوں گے۔جناب وزیراعظم اب تو بچے کہنے لگ گئے ہیں کہ ہمیں بھی سیاستدانوں والے پاکستان میں رہناہے وہاں حالات بہت بہتر ہیں۔نومبر کیا اب تو دسمبر،جنوری اورفروری بھی گزرجانے کے بعد مارچ آگیا پر لوڈشیڈنگ ختم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہے۔
لوڈشیڈنگ کا ایک گھنٹہ فی دن سے شروع ہونے والا سلسلہ موسم گرماکے شروع ہوتے ہی کئی کئی گھنٹوں تک پہنچ چکاہے۔ووٹ مانگنے سے حکومت بنانے تک لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے وعدے اور دعوے توسب کرتے ہیں پر آج تک ملک کو اس بحران سے نکالنے کیلئے کسی نے کوئی سنجیدہ کردار ادا نہیں کیا۔3دسمبر2017ء کووفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا تھاکہ وفاقی حکومت نے بجلی کے شعبے میں اہم کامیابی حاصل کرلی ہے لہٰذا ملک بھر میں چار دسمبر سے 8600 میں سے 5297 فیڈرز سے بجلی کی لوڈشیڈنگ مکمل طور پر ختم ہو جائیگی جس کے نتیجے میں کم از کم 14.915 ملین صارفین کو چار دسمبر رات 12بجے کے بعد لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔ اس ضمن میں دیہات و شہر کی تفریق بھی ختم کر دی گئی ہے۔اب صرف ان علاقوں میں لوڈ شیڈنگ ہوگی جہاں بجلی چوری ہوتی ہے۔10فیصد بجلی کے لائن لاسزپر متعلقہ علاقوں میں پہلے چار سے چھ گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی تھی اب وہاں صرف دو گھنٹے جبکہ 20فیصد کے لائن لاسز کے علاقوں میں پہلے چھ سے آٹھ گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی تھی اب وہاں بھی دو گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہو گی۔
بجلی کی قیمتوں میں دن بدن کمی ہو رہی ہے آئندہ گرمیاں بجلی کے حوالے سے کسی پاکستانی کو نہیں رلائیںگی،۔موسم گرما میں 25ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہوگی نیشنل گرڈ سٹیشن کو اس قابل بنا دیا ہے۔ موجودہ حکومت نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں ہر شعبے میں کامیابی حاصل کی ہے اور بے شمار منصوبے شروع کئے ہیں۔ساڑھے چار سال کی انتھک محنت اور جدوجہد سے نہ صرف ملک سے اندھیروں کا خاتمہ کیا ہے بلکہ ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ اعلان کرتا ہوں کہ ہمارے پاس سسٹم میں ہماری کل طلب کے مقابلے میں 2700 میگاواٹ اضافی بجلی موجود ہے پھربھی بجلی چوروں کو بجلی نہیں دے سکتے۔پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے میڈیا سنٹر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اویس احمد لغاری نے کہاتھا کہ ملک میں اس وقت طلب سے زیادہ بجلی کی پیداوار ہورہی ہے اس وقت طلب سے چار ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے ملک میں اس وقت 16ہزار 477میگاواٹ بجلی کی پیداوار ہے 8600تمام فیڈرز پر صفر لوڈ شیڈنگ کیلئے کام کر رہے ہیں۔
ڈیڑھ کروڑ سے زائد میٹرز پر زیرو لوڈ شیڈنگ ہوچکی ہے۔ رسد کا مسئلہ نہیں ہے اصل مسئلہ انتظامی معاملات کا ہے، تاہم صوبائی حکومتوں سے بجلی کی چوری کی روک تھام کیلئے ان سے درخواست کی ہے۔ انہوں نے کہاتھاکہ اوور بلنگ کے خلاف بھی قانون سازی کا عمل شروع ہے اور قومی اسمبلی سے بل منظور ہوچکا ہے۔سینٹ میں زیر التواء ہے اس قانون کے تحت اوور بلنگ کے ذمہ دار افسر کو تین سال تک کی سزا دی جاسکے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ نیشنل گرڈ 25ہزار میگاواٹ بجلی اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بجلی کے شعبے میں ایک ماہ کے بعد ایسا انقلابی اقدام سنانے والے ہیں کہ قوم مٹھائی کھلائے گی۔ انہوں نے کہاتھا کہ اس حوالے سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں حالیہ اجلاس ہوا بجلی کے شعبے میں شفافیت کا حکم دیا گیا اگلے چند دنوں میں صارفین کو مزید خوشخبری سنائیں گے۔اویس لغاری صاحب کی گفتگومیں باربارخوشخبری کاذکرسن کرعوام سمجھ رہے تھے کہ آئندہ موسم گرمامیں لوڈ شیڈنگ ہوگی نہ بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوگا۔بجلی کی پیداوارہماری ضرورت سے زیادہ ہونے کاسن کرعوام خوشی سے نہال ہوچکے تھے کہ09 مارچ 2018ء کو خبرآئی کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں موسم گرما میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کیلئے 80ارب روپے قرضہ لینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں سارکو اور حکومت میں ٹیکس استثنیٰ کا معاہدہ پاور سیکٹر کے واجبات طے کر نے کی منصوبہ کی بھی منظوری دے دی گئی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آئندہ موسم گرما میں بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نمٹنے کے لئے جن فیصلہ کن اقدامات کی منظوری دی گئی اس میں بجلی کی بلاتعطل فراہمی کیلئے پاور کمپنیوں کو 80 ارب روپے کی ادائیگی کا معاملہ بھی شامل ہے۔جس کے لئے ای سی سی بنکوں سے 80 ارب روپے کا قرضہ لینے کی منظوری دے دی گئی ہے۔اس فیصلہ کا مقصد حکومت کے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوئوں میں سچائی کارنگ بھرنا ہے تاکہ آئندہ الیکشن میں بجلی کے بحران کی وجہ سے اپوزیشن کو شور مچا سکے اورنہ ہی ووٹ بینک کم ہو۔ عوام جی غورفرمائیں اتنی بڑی رقم کے قرضے کا بوجھ بھی بالاآخر آپ ہی کو اٹھانا ہے۔الیکشن جیتنے کیلئے حاصل کردہ قرض کے 80ارب سودسمیت عوام سے وصول کئے جائیں گے۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ جب حکومت کے پاس ضرورت سے زائد بجلی موجود ہے توپھر80ارب کاقرض کیوں؟عوام یہ جانناچاہتے ہیں حکمرانوں کے دعوئوں والاپاکستان انھیں کب دستیاب ہو گا؟