تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی طاقت شہرت اقتدار ایسا مرض یا زہر ہے جس میں پیدا ہو جائے وہ زہریلا سانپ بن کر دوسروں کو ڈسنا شروع کر دیتا ہے تا ریخ آدمیت میں جب بھی کوئی انسان اِس کا شکا ر ہوا اُس نے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی ‘یہ سمجھتے ہیں کہ کائنات صرف انہی کے لیے تخلیق کی گئی ہے انہوں نے آب حیات حلق سے اُتارا ہوا ہے اب زوال بیماری اور موت اِن کو چھو بھی نہیں سکتی ایسے ہی پاگلوں سر پھروں میں بادشاہ تیمور بھی تھا امیر تیمور کہنے کو تو مسلمان بادشاہ تھا لیکن اِس کی طبیعت اور مزاج میں تلون اور تعصب بہت زیا دہ تھا عالم دین حافظ قرآن ہو نے کے با وجود اُ سکی سفاکی سنگدلی اور تعصب عروج پر تھا اپنی ذات اور اقتدار کے لیے لاکھوں انسانوں کو گاجر مو لی کی طرح کا ٹ ڈالا’ شہروں کے شہر صفحہ ہستی سے مٹا ڈالے خو د کو چنگیزخان کا خون قرار دیتا’ بر ق رفتا ری سے دشمن کے سر پر جا کر اُس کو نیست و نابود کر دیتا اس کو زمین کو ہلا ڈالنے والا کہتے۔ جو سینکڑوں من با رود نا قابل تسخیرقلعوں کی بنیادوں میں رکھ کر اڑا دیتا ‘خو د کو عقل کل سمجھتا نہ کو ئی وزیر نہ کو ئی مشیر خو د ہی فیصلے کر تا ایک با ر کسی با ت پر سادات گھرانے سے ناراض ہو گیا۔
غضب کی آگ اِس قدر بھڑکی کہ بہت سارے سادات گھرانے لقمہ اجل بن گئے انہی سید گھرانوں میں ایک سید امیر علی ہمدانی بھی تھے آپ کن فیکون کے مالک تھے عبا دت مجا ہدے اور تزکیہ نفس کے بعد قرب الٰہی حاصل کر چکے تھے آپ کے لاکھوں مرید تھے جو ہر وقت آپ پر اپنی جانیں نثار کر نے کو تیار رہتے تھے تیمورآپ کو بھی ختم کر نا چاہتا تھا لیکن آپ کے لاکھوں مریدوں کی وجہ سے خو ف زدہ تھا کہ مریدوں کی وجہ سے ملک نقص امن کا شکار نہ ہو جا ئے اب وہ دن رات اِس سوچ میں گم تھا کہ کو ئی سازش یا بہا نہ ایسا بنے کہ میں سید امیر علی کو ختم کر سکوں کافی دنوں کی منا فقانہ سوچ کے بعد با دشاہ نے سازش کا جال بن لیا با دشاہ اِسطرح سید صاحب کی ولایت کا بھی امتحان لینا چاہتا تھا کہ اگر درویش فیل ہو جا ئے تو ختم کر نے کا جواز مل جا ئیگا اِس طرح کو ئی شخص انگلی بھی نہیں اٹھا ئے گا اب با دشاہ نے ایک بکری چوری کر ائی اُس کو پکوایا پھر سید امیر اور ان کے مریدوں کو کھا نے پر بلوایا ما دیت پرست با دشاہ کویہ گمان تھا کہ آپ بکر ی کھا تے ہو ئے کچھ نہیں جان پائیں گے اِس طرح آپ کی ولا یت کا بھی بھا نڈہ پھوٹ جائے گا اِس طرح اِن کاقتل کرنا آسان ہو گا دعوت کے دن سید امیر علی اپنے مریدوں کے ہمراہ دربا ر تشریف لا ئے کھا نا لگ چکا تھا ابھی کسی نے ایک لقمہ بھی نہیں توڑا تھا کہ ایک بڑھیا فریاد کر تی ہو ئی آئی اور کہا با دشاہ سلا مت میں نے ایک بکری سید امیر علی کی نذر کے لیے پال رکھی تھی لیکن اُس کو کسی نے چُرا لیا ہے اب میں کیا کر وں بکری کہاں تلاش کروں میں سید صاحب کے آگے بہت شرمسار ہوں سید صاحب کشف کے ذریعے سب جان چکے تھے۔
آپ بو لے تم بکری مجھے دے دو گی تو بکری مجھ تک پہنچ جائے گی بڑھیا نے کہا حضرت میں نے وہ بکری آپ کو دی درویش وقت بو لے میں نے وہ بکری قبول کی اور ساتھ ہی کھانا تنا ول کر نا شروع کر دیا با دشاہ آپ سے شدید شرمندہ اور پریشان ہوا آپ کے کشفی مقام اور جلال سے متا ثر ہو کر آپ کے ارادت مندوں میں شامل ہو گیا سید امیر علی آسمان تصوف کے وہ روشن ستارے ہیں جن سے لاکھوں لوگوں نے ایمان کی روشنی پائی آپ 1314ء میں ہمدان میںپیدا ہو ئے یہ شہر ترکستان میں واقع ہے آپ اپنے دور کے بہت بڑے ولی تھے آپ کا شجرہ نصب مختلف واسطوں سے ہو تا ہوا حضرت حسن بن علی ابو طالب تک پہنچتا ہے آپ کی اماں جان کا نام بی بی فاطمہ تھا آپ بے پنا ہ ذہا نت کے مالک تھے بچپن میں ہی قرآن مجید حفظ کر لیا دیگر علوم آپ نے سید علا ئو الدین سمنانی سے حاصل کئے اور تصوف کے اسرار و رموز بھی سمجھے پھر آپ نے شیخ شرف الدین محمود سے رشتہ تصوف جو ڑا انہی کے حکم پر سیا حت عالم پر روانہ ہو ئے اگلے 21سالوں میں تین مرتبہ مختلف ممالک کی سیر کی اور چودہ سو اولیاء کرام کی صحبت سے فیض یاب ہوئے آپ نے حضرت نجم الدین کبری کی صحبت میں بھی وقت گزارا سہر وردیہ خاندان کے مشہور بزرگ خوا جہ ضیاالدین ابو نجیب سے بھی فیو ض و برکات سمیٹے اِس طرح آپ کبری اور سہروردی بھی کہلا تے ہیں امیر تیمور کے مرید ہو نے سے پہلے جب امیر تیمور نے ایران پر حملہ کیا آپ اپنے سو مریدوں کے ساتھ تر ک وطن کر کے کشمیر میں جلو ہ افروز ہو ئے اسطرح کشمیریوں کے بھا گ جاگ اٹھے کشمیر میں قیام کے دوران آپ پانچوں نمازیں دریائے جہلم کے کنا رے چبو ترے پر ادا کرتے تھے امراء وزراء دولت مند بلکہ با دشاہ بھی اِسی چبو ترے پر آکر آپ کی خدمت میں حاضر ہو تے یہاں پر آپ نے جہالت کے اندھیروںکواپنے کردار و عمل سے دور کیا شریعت کی روشنی سے قورے علاقے کو منور کیا یہاں پر اسلامی تعلیمات کا لوگوں کو پتہ ہی نہیں تھا۔
لہذا یہاں آپ نے لوگوں کو نام کے مسلمان سے اصل مسلمان بنا نے میں مدد کی آپ نے تبلیغ اسلام کی اشاعت اور اصلاح تربیت کا کام احسن طریقے سے کیا اسلامی تعلیما ت سے عدم واقفیت کا اندازہ اِس با ت سے لگا ئیں کہ سلطان قطب الدین نے بیک وقت دو حقیقی بہنوں سے نکا ح کر رکھا تھا آپ نے با دشاہ کا ایک نکا ح منسوخ کرادیا آپ نے اپنے تربیت یا فتہ اپنے خلفااور رفقا کو کشمیر کے مختلف علا قوں میں اشاعت اسلام کے لیے پھیلا دیا خدا ئے بزرگ بر تر نے آپ کی کو ششو ں کو شرف قبو لیت بخشا اور لوگ ایمان کے نور سے روشن ہو تے چلے گئے حضرت سید امیر علی نے فارسی اور عربی میں بہت ساری تصانیف لکھی ہیں ”تحائف الابرار ”میں مذکور ہے کہ آپ کی ایک سو ستر تصانیف ہیں اِن کتا بوں میں ”چہل اسرار” کو بہت بلند مقام حاصل ہے جو صوفیا کرام میں بہت مشہور و معروف ہے اِس کا پس منظر بہت ایمان افروز ہے امیر تیمور آپ کا عقیدت مند تو تھا ہی لیکن آپ کی بزرگی اور ولایت کا قائل نہیں تھا بد گما نی لے کر آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ حدیث شریف میںآیا ہے کہ سرور کو نین آقا کریم ۖ پر جتنی مرتبہ درود شریف پڑھا جا ئے گا اِ س کا دس گنا ہ ثواب ملے گا اِس کی صداقت کیا ہے اور یہ کہاں تک سچ ہے آپ نے جواب دیا تم شام کے وقت میرے پا س آنا میں تمہیں تمہا رے سوال کا جواب دوں گا اب حضرت نے عصر کی نماز میں نماز یوں سے کہا تم میں سے کون با دشاہ کی دعوت کرنا چاہے گا تو فوری طو رپر چالیس افراد دعوت کے لیے تیا رہو گئے اور درویش وقت نے با دشاہ کو سبق سکھا نے کا فیصلہ کر لیا تھا با دشاہ کو اُس کی اوقات یاد دلانا اب ضروری ہو گیا تھا۔
اب سید امیر علی نے خو د کو خدا کے حکم سے زمان و مکاں سے آزاد کیا اور پہلے مرید کے گھر جا کر دعوت کھا ئی اور پھر دوسرے مرید کے گھرتشریف لے گئے اِس طرح آپ ایک مرید سے دوسرے مرید کے گھر جا تے گئے اِس طرح آپ چالیس مریدوں کے گھر با ری با ری گئے سب گھروں سے کچھ کھا یا پیا آپ جس گھر بھی گئے لوگوں نے یہی دیکھا کہ امیر تیمور کھا نا کھا نے آیا اورکھا کر چلا گیا تمام کھانوں کے بعد سید امیر علی پر غزل وارد ہوئی آپ نے غز ل تحریر کی اور مسجد تشریف لے آئے عشا ء کے وقت وہ تمام لو گ بھی آگئے جنہوں نے با دشاہ کی دعوت کی تھی وہ تمام ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ آج با دشاہ ان کا مہما ن تھا آپ نے با دشاہ کو بلا یا اور کہا اِن سب لوگوں سے ملو اور ان کی با ت سنو یہ کہتے ہیں کہ با دشاہ نے بیک وقت چالیس گھروں سے کھا نا کھا یا ہے اِسطرح اگر ایک عام انسان ایک وقت چالیس گھروں سے کھانا کھا سکتا ہے تو محبوب خدا سردار الانبیا ء ۖ درود شریف کیوں نہیں سن سکتے اور اس کا جواب کیوںنہیں دے سکتے امیر تیمور کے دماغ کو درویش وقت سیدھا کر چکا تھا حضرت کے پا ئوں سے لپٹ کر معا فی مانگی اور زاروقطا ر رویا اور وہ جو چالیس گھروں میں ایک ایک الگ غزل لکھی گئی جن کی تعداد چالیس تھی انہیں ایک صوفی کی کرامت کے طو رپر تصوف کی دنیا میں ” چہل اسرار ” کہا جاتا ہے۔