تحریر : عماد ظفر ملکی سیاست کے اتار چڑھاؤ بتاتے ہیں کہ طاقت کے جنگل میں شکار اور شکاری کا کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے. شکار کو تین مختلف زاویوں سے جکڑنے کے بعد اب شکارکا دم نکلنے کا انتظار کیا جا رہا ہے. شکاری مطمئن ہیں کہ اب کی بار جو جال بچھایا گیا ہے اس سے شکار کا بچ نکلنا ناممکن ہے. شکارکا تماشہ دیکھنے والوں کو بھی گمان ہو چکا ہے کہ اب شکار بچ نہیں پائے گا. ملکی سیاست کی تاریخ بھی اس جانب واضح اشارہ دیتی ہے کہ ایک بار کسی بھی سیاسی رہنما کے نام کے گرد اگر فرشتے سرخ دائرہ کھینچ دیں تو پھر اس کا بچ نکلنا ناممکن ہو جاتا ہے. ذوالفقار علی بھٹو کاانجام اس ضمن میں ایک واضح مثال ہے.
بھٹو کا جرم اس کی ناقابل شکست انتخابی طاقت تھی .وطن عزیز میں کوئی بھی رہنما اگر طاقت کی بساط پر اپنی گرفت مضبوط کر لے تو پھراس کو بالآخر منظر سے یاتوہٹنا پڑتا ہے یاپھر اسے ہٹا دیا جاتا ہے. بھٹو کی مقبولیت اور اس کی انتخابات جیتنے کی طاقت نے اسے سولی پر چڑھوا دیا. بھٹو کا انجام دیکھنے کے بعد سیاستدانوں نے عبرت پکڑی اور مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرنے کی ہرگز بھی کوشش نہیں کی. وطن عزیز میں چہرے تبدیل ہوتے رہے اور سیاستدان کٹھ پتلیاں بن کر کرسی کے گرد گھومتے رہے. مشرف نے مارشل لا لگایا اور نواز شریف کو زندہ چھوڑنے کی سنگین غلطی کر ڈالی. نواز شریف جلاوطن ہوا بینظیر سے صلحح کی اور یوں ملکی طاقت کے اصل مالک کو پہلی بار ایک حقیقی چیلنج کا سامنا کرنا پڑا. طاقت کی بساط پر پہلی دفعہ سیاستدانوں نے بھی اپنے اپنے پتے کھیلنے شروع کیئے.
بینظیر کی حادثاتی موت کے بعد سیاست میں صرف نواز شریف ایک ایسا سیاستدان بچا جو مہارت کے ساتھ جمہوریت کے بیانیے کا سہارا لیتے ہوئے اقتدار کی شطرنج میں ایک کے بعد ایک کامیاب چال چلتا رہا اور اپنے خلاف چلے جانی والی چالوں سے بچتا رہا. یوں نواز شریف بھی ایک طرح سے بھٹو کی پوزیشن پر آگیا. اب صورتحال کچھ یوں ہےکہ انتخابات کے ذریعے نواز شریف کو شکست دینا تقریبا ناممکن ہے. یہ صورتحال دراصل پانامہ کے گڑے مردے کو جنم دینےکا باعث بنی اور اس مردے کو زندہ کر کے ایک لنگڑے گھوڑے یعنی عمران خان کو یہ مشن سونپاگیاکہ نواز شریف کے سیاسی امیج کوپاش پاش کر دیاجائے. 2013 کے عام انتخابات ہوں یا 2014 کا دھرنہ یاپھر گذشتہ برس وفاقی دارلحکومت کو بند کرنے کی کوشش. یہ تمام چالیں نواز شریف کو اقتدار کے منصب سے تو نہ ہٹا پائیں لیکن سیاسی اسرار و رموز سے نابلد ایک کثیر آبادی کو اپنے پراپیگینڈے کے تابع کرنے میں ضرور کامیاب ہوئیں. لیکن قباحت یہ آڑے آئی کہ سٹریٹ پاور کے دم پر نواز شریف کو گھر نہیں بھیجا جاسکتا تھا کیونکہ بہرحال پنجاب میں اگر بات سٹریٹ پاور کی ہو تو پھر نواز شریف سے زیادہ افراد سڑکوں پر اور کوئی فرد نہیں لا سکتا.
چنانچہ پانامہ کے برسوں پرانے گڑھے مردے کو زندہ کر کے عدلیہ کی کورٹ میں بال پھینک دی گئی. یاد رہے بھٹو کو سزائے موت بھی عدلیہ کے سہارے ہی سنائی گئی تھی. اور اعلی عدلیہ آج بھی اس سیاہ ترین فیصلے کا داغ اپنے ماتھے سے نہیں دھونے پائی ہے. ایسی صورتحال میں عدلیہ کو ایک سیاسی نوعیت کا کیس کیوں سننا پڑ گیا؟ اس کیس کو سننے کیلئے سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی پر کس نے دباؤ ڈالا ان سوالات کےجوابات آپ کو وکلا رہنما عاصمہ جہانگیر اور علی احمد کرد کی بات چیت سے آسانی سے مل جائیں گے. جواینٹ انویسٹیگیشن ٹیم نے جس یکطرفہ طریقے سے تفتیش کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ شریف خاندان مجرم ہے دراصل اس سے اس حقیقت کا انکشاف بھی ہوگیاکہ درپردہ ہاتھ اب کسی بھی صورت نواز شریف کو اگلے انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیں گے.
یعنی پانامہ کیس دراصل نواز شریف کی سیاسی بقا کی جنگ ہے اور اگر یہ جنگ نواز شریف جیت گیا تو پھر وطن عزیز کی سیاسی تاریخ کا مضبوط ترین سیاسی رہنما بن کر ابھرے گا. یہ صورتحال درپردہ قوتوں کیلئے ناقابل قبول ہے اس لیئے قیاس ہے کہ جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم کے زریعے عدالت کو کیس کی مزید سنوائی کی درخواست کی جائے گی اور یہ بتایاجائے گا کہ جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی لیکن بادی النظر میں نواز شریف اور انکا خاندان بھی اپنے دفاع میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں پیش سکے. قصہ مختصر کہ نواز شریف کو کسی نہ کسی طریقے سے اگلا انتخابات جیتنے سے روکا جائے گا اوراس کیلئے اس کی ناہلی انتہائی ضروری ہے.بدقسمتی سے اس سارے کھیل کا سکرپٹ رایٹر اور معززعدلیہ اس حقیقت کو سمجھنےسےقاصر ہیں کہ اب حالات و واقعاتی تبدیل ہو چکے ہیں نہ تو یہ 1977 کا زمانہ ہےاور نہ ہی اے آر ڈی کی طرز پرکوئی تحریک بھٹو کی مانند نواز شریف کے خلاف جنم لینے پائی ہے.
پنجاب جو کہ روایتی طور پر ایسٹیبلیشمنٹ کے پراپیگینڈے کے زیر اثر رہ کر ماورائے آئین اقدامات کی تائید کرتا رہا ہے اب اس صوبے کے ووٹرزکا مزاج بھی بدل چکا ہے.پنجاب سے مجموعی طور پر پانامہ کے پراپیگینڈے کو نہ ہی اب تک خریداگیا ہے اور نہ ہی اسے تسلیم کیا گیا ہے.نواز شریف کی جماعت کی مقبولیت اور ضمنی و بلدیاتی انتخابات میں بھاری مارجن سے کامیابی اس ضمن میں بہت بڑا ثبوت ہے. نواز شریف کو آصف زرداری فضل الرحمان محمود خان اچکزئی اور اسفند یار ولی جیسے زیرک سیاسی رہنماؤں کی سپورٹ بھی حاصل ہے. اس لیئے نواز شریف کو کسی بھی قسم کے عدالتی فیصلے کی بنیاد پر نکال باہر پھینکنا ناممکن نظر آتا ہے. قمر جاوید باجوہ جیسے قابل اور اپنے کام سے کام رکھنے والے پروفیشنل جرنیل کی موجودگی میں ماورائے آئین اقدام کے بھی دور دور تک کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے. عدالتی فیصلہ اس قدر وزن نہیں رکھتا کہ نواز شریف کی بساط کو لپیٹ سکے.
شاید سکرپٹ رایٹر خود پریشان ہے کہ آگے کیا لکھے.شکاری نے شکار کو دبوچ تو لیا ہے لیکن شکار کا دم نکالنے میں ناکام رہا ہے. شکار کےکھیل کے اصول کے مطابق اگر شکاری شکار کا دم نہ نکال پائے تو وہ خود شکار بن جاتا ہے. ممکن ہے کہ شکار نے شکاری کو تمام حربے آزمانے کا وقت جان بوجھ کر مہیا کیا ہو تا کہ شکاری کے ترکش کے تمام تیر خالی ہو جائیں اور پھر وہ شکاری کو ہی شکار کر سکے. اس شکار کے کھیل کا انجام جو بھی ہو لیکن ایک بات تو طے ہے اور وہ یہ کہ شکار کے کھیل میں بلی کے طور پر استعمال ہونے والے بکروں کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی.1977 میں بھٹو کے شکار کیلئے اصضر خان نامی بکرے کو تیار کیا گیا تھا اور شکار کے بعد اسے اس کی کھونٹی سے واپس باندھ دیا گیا تھا اور آج کے دور میں اس شکار کے کھیل میں استعمال ہونے والے بکرے عمران خان کابھی یہی انجام طے ہو چکا ہے.اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ کیا اسے شکاری کھونٹی سے واپس باندھے گا یا پھر اسے شکار کے حوالے کرنا پڑے گا.