اقتدار سے محرومی کا زخم سہنے والی جماعت جب اپوزیشن بنچوں پر بیٹھتی ہے تو مسندِ اقتدار سے سرفراز ہونے والی جماعت اسے دنیا کی کرپٹ ترین حکومت بنا کر پیش کرنے میں جٹ جاتی ہے اور ستم بالائے ستم اسے ساری برائیوں کا ذمہ دار بھی ٹھہرا تی ہے۔گذشتہ حکومت کے تمام اقدامات کو متنازعہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور ان کی اعلی کارکردگی پر مٹی ڈال دی جاتی ہے تا کہ اس کی ساکھ کو مجروح کیا جا سکے ۔ایسے ایسے انکشافات منظرِ عام پر لائے جاتے ہیں کہ عوام سر پکڑ کر بیٹھ جائیں ۔ریاستی گٹھ جوڑھ اسے مزید شعلہ بار کر کے عوام میں اضطراب پیدا کرتا ہے ۔عوامی فلا ح و بہبود کے تمام اچھے اقدامات جو پچھلی حکومتوں کا طرہِ امتیاز ہوتے ہیں ان میں کیڑے نکالے جاتے ہیں جبکہ اپنے ہر اقدام کو تاریخ ساز بنا کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔نئی حکومت کے ساتھ عوام کا رومانس چونکہ بالکل ترو تازہ ہوتا ہے لہذا وہ حکومت کی ساری در فطنیاں تسلیم کرتے چلے جاتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب حقائق منکشف ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور حکومت کی نا اہلی مسلم ہو جاتی ہے توعوامی اذہان میں اپنی کم مائیگی اور کم علمی کی وجہ سے ندامت کا احساس جاگنا شروع ہو جاتا ہے ۔جنرل پرویزمشرف نے بھی اپنی پیشرو حکومت کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھا تھا اور اسے انتہائی نکمی اور کرپٹ حکومت قرار دیا تھا ۔ اس کے قائد کو طیارہ اغوا کیس میں گرفتار کر لیا تھااور روائتی کرپٹ ٹولے کو جن کے خلاف پانچ نکاتی ایجنڈہ دیا گیا تھا انھیں اپنی حکومت کا حصہ بنا لیا تھا۔نیب زدہ افراد کابینہ کا حصہ بنے حالانکہ شروع میں وہ کرپٹ قرار دئے گئے تھے اور انھیں قومی مجرم بنا کر پیش کیا گیا تھا ۔اقتدار کی مجبوریاں انسان کو بہت کچھ کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں اور حاکمِ وقت کو وہ بھیس بھی بدلنا پڑتا ہے جو اس کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔،۔
٢٥ جولائی ٢٠١٨ کے انتخابات پر ابھی تک دھاندلی کی گرد جمی ہوئی ہے لیکن کوئی اس کی ذمہ داری قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ پارلیمانی کمیٹی پر اتفاق ِ رائے ہو گیا ہے لیکن اسے طویل وقت درکار ہے۔ نادرا کا اعلان ہے کہ آر ٹی ایس سسٹم بیٹھا نہیں تھا بلکہ اسے بٹھا یا گیاتھا لہذا اس میں نادرا کا کوئی قصور نہیں ۔متعلقہ حکام کو اس بات کی وضاحت پیش کرنی چائیے کہ جو کچھ اس رات پیش آیا اس کی پشت پر کون تھا؟ کیوں سسٹم کو فیل کیا گیا؟ کیوں نتائج بروقت نشر نہ کئے گے؟ کیوں ایک جماعت کو معتوب ٹھہرایا گیا؟کیوں پنجاب کی سب سے بڑی جماعت کو اقتدار سے محروم کیا گیا؟وہ جادو گر جو آزاد اراکین کو ساتھ ملانے کیلئے پورے پاکستان میں مشہور تھے انھیں پا بہ ز نجیر کیوںکیا گیا؟ ان کے سامنے آزاد اراکین بکتے رہے لیکن وہ محض تماشائی کیوںبنے رہے ؟چھانگا مانگا کے پہلوان کیوں بے بسی کی تصویر بن گے تھے ؟ ایک جہاز پورے پاکستان سے آزاد اراکین کی حمائت سے اپنی جھولیاں بھرتا رہا،اراکین بکتے رہے لیکن کوئی سوموٹو ایکشن کیوںنہ ہوا؟کسی کی کوئی طلبی کیوں نہ ہوئی ؟ حالانکہ سپریم کورٹ اس جہازی شخص کو کرپٹ اور نا اہل قرار دے چکی تھی ۔انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اس پر مقدمہ دائر ہو نا چائیے اور اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہو نا چائیے لیکن کوئی اپنوں کو جیل کی ہوا لگنے دیتا ہے ؟
احتساب کارولا تو بہت ہے لیکن ایک مخصوص جماعت کو استثنی حاصل ہے۔احتساب صرف مخالفین کا ہو رہا ہے جبکہ اپنوں کیلئے راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے وزراء کا اندازِ بیاں ایسا ہے جیسے وہ ابھی جنت سے اس کرہ، ارض پر اترے ہیں اور ہر قسم کی الائشوں سے پاک ہیں ۔احتسابی اقدامات کا واحد مقصد مخصوص جماعت زک پہنچانا، اور دیوار کے ساتھ لگانا تھا ۔الیکشن سے پہلے میاں محمد نواز شریف کو سزاسنانا نا گزیر تھا ۔ اس سزا نے مسلم لیگ کی اخلاقی قوت کو شدید نقصان پہنچایاجس سے مسلم لیگ (ن) کو دفاعی انداز اختیار کرنا پڑا جو پنجاب کی روائتی سیاست سے مطابقت نہیں رکھتا ۔پنجاب میں جارحانہ اندازِ سیاست عوام کے مزاج سے مطابقت رکھتا ہے اور عمران خان نے اسی انداز کو اپنایا ۔میاں نواز شریف کو للکارااور انھیں چور اور ڈاکو کہہ کر مخاطب کیا۔انھیں ملکی خزانے کو بے دریغ لوٹنے کا مجرم قرار دیا۔ان کے اس انداز نے عوام کے اذہان میں شکوک و شبہات پیدا کر دئے جس سے مسلم لیگ (ن) کی ہوا اکھڑنا شروع ہو گئی ۔ میاں محمد نواز شریف کی ملک سے غیر حاضری نے ان کے حریفو ں کے حوصلوں کو مہمیز دی۔بیگم کلثوم نواز کی بیماری نے مسلم لیگ کو شدید نقصان پہنچایا ۔ میاں محمد نواز شریف کا اپنی بیوی کی عیادت کیلئے لندن میں ایک ماہ کا قیام مسلم لیگ (ن) کی شکست کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ ان کی عدم موجودگی میں مسلم لیگ (ن) میں کوئی ایسارہنما نہیں تھا جو ان کے تخلیق کردہ ماحول میں جان ڈال سکتا۔میاں شہباز شریف انتخابی جلسوں میں معذرت خوانہ رویے کے ساتھ منظرِ عام پر آئے جسے عوام میں پذیرائی نہ مل سکی۔
میاں نواز شریف اور مریم نواز کے جلسوں کی آن بان،ٹنٹنا اور بیانیہ بالکل علیحدہ تھا جو پنجاب کی روائتی سیاست کا آئینہ دار تھا۔میاں محمد نواز شریف کا عوام کی نبض پر ہاتھ تھا لہذا جب وہ جلسے میں عوام سے مخاطب ہو تے تھے تو پوا جلسہ ان کا ہم آواز ہو جاتا تھا ۔ مجھے علم نہیں کہ وہ کونسا مشیر تھا جس نے میاں محمد نواز شریف کو لندن میں ایک ماہ رکنے کا مشورہ دیا تھا ۔ ان کا لندن میں قیام مسلم لیگ (ن) کے سیاسی کفن میں آخری کیل ٹھونکنے کے مترادف تھا۔وہ واپس آئے لیکن اس وقت بازی پلٹ چکی تھی اور سب کچھ ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا ۔اگر وہ الیکشن سے پہلے پاکستان واپس نہ آتے تو مسلم لیگ(ن) ہوا میں تخلیل ہو جاتی اور اس کا نام و نشان مٹ جاتا۔ان کی واپسی نے مسلم لیگ( ن)کے کارکنوں کو قدرے حو صلہ دیا لیکن یہ ایک ہاری ہوئی جنگ کا آخری منظر تھا جس کا مقصد شدید نقصان سے خود کو محفوظ رکھنا تھا۔
طاقتور مراکز کے اشارے،عدلیہ کا ایکٹیو ازم ،میڈیا کی مخالفانہ یلغارسب سچ ہے لیکن انتخا بات میں ایک ماہ تک انتخابی جلسوں سے میاں محمد نواز شریف کا غیر حا ضرہونا در اصل سب سے زیادہ مہلک وار تھا جس نے مسلم لیگ (ن) کو نیم بسمل کر دیا۔مسلم لیگ کی انتخابی مہم کو چلانا میاں شہباز شریف کے بس کی بات نہیں تھی۔ جو شخص مسلم لیگ (ن) کے احتجاجی جلوس کو کئی گھنٹو ں تک لاہور کی سڑکوں پر بلا مقصد گھماتا رہے اس کی قائدانہ صلاحیتوں کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟جسے جہاز لینڈ کرنے سے قبل ائر پورٹ پر ہونا چائیے تھا وہ میاں محمد نواز شریف کو ہتھکڑیاں پہنائے جانے کے بعد بھی ائر پورٹ نہ پہنچ سکاتو اس سے وہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے جو زبان زدہ خاص و عام ہے ۔اس کے ذہن میں کیا تھا ابھی تک اس کی وضاحت نہیں آئی ۔اسے مسلم لیگ (ن) کا مخصوص کلچر کہہ کر جان نہیں چھڑائی جا سکتی کیونکہ میاں محمد نواز شریف نے اس کلچر کو بدل دیا ہے ۔اب مسلم لیگ (ن) اسٹیبلشمنٹ کا دم چھلہ نہیں بلکہ ایک ایسی جماعت ہے جو آئین و قانون کی خاطر کسی بھی قربانی کا سامنا کر سکتی ہے۔
اپنی بیٹی کی انگلی پکڑ کر اڈیالہ جیل کی چار دیواری کے اندر مقید ہو جانا اسی جارحانہ انداز ِ سیاست کا عکاس ہے۔ یہ بڑی ہی غیر معمولی بات ہے کہ کوئی شخص اپنی لختِ جگر کے ساتھ جیل کی چار دیواری کا انتخاب کرے ۔ایک ایسی دنیا جہاں پر ایک مکہ بازآمر اپنی جان بچانے کی خاطر دوسرے ملک میں پناہ گزین ہوجائے لیکن اس کے مقابل ایک عوامی قائد آئین و قانون کی سربلندی کی خاطر جیل کی دیواروں کو گلے سے لگا لے تو یقین ہو جانا چائیے کہ میاں محمد نواز شریف کو ڈرایا اور دبایا نہیں جا سکتا۔ان کے نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کے عزم پر سوال نہیں اٹھا یا جا سکتا۔ اس وقت عمران خان پاکستانی قوم کے نا خدا ہیں اور قوم اپنے ان تمام خوا بوں کی تکمیل چاہتی ہے جھنیں انھوں نے ان کی آنکھوں کا سرمہ بنا رکھا ہے ۔خواب دکھانا آسان ہوتا ہے لیکن ان کی تعبیر بڑی کٹھن ہوتی ہے۔خونِ جگر دیں گے تو گلشن نکھرے گا ورنہ وہی رونا دھونا ہوگا ۔ کیا عمران خان عوام کے خوابوں کو تعبیر بخش سکیں گے یا محض بیانات،الزامات اور نعروں کا سرمہ لگا کر ان کی موجودہ بینائی بھی اچک لیں گے؟مہنگائی کی وجہ سے یہ سرمہ پہلے ہی شفاء کی بجائے روگ بنتا جا رہا ہے۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال