حضرت عمر فاروق کے دور میں ایک مسافر سفر کرتے کرتے تھک گیا اور ایک سایہ دار درخت کے نیچے لیٹ گیا اور سو گیا، کچھ دیر بعد اٹھا تو بھوک نے ستایا، اٹھا اور اپنی منزل کی طرف چل دیا اچانک نظر پڑی کہ لنگر تقسیم ہو رہا ہے تو وہ مسافر لنگر لینے کی غرض سے لائن میں لگ گیا۔ جب باری آئی تو لنگر تقسیم کرنے والے نے مسافر کو لنگر دیا مگر مسافر نے کہا کہ مجھے دو بندوں کا لنگر دو، لنگر تقسیم کرنے والے نے کہا کہ تم اکیلے ہو تو میں تم کو دو بندوں کا لنگر کیسے دے دوں مگر مسافر نے اصرار کیا کہ مجھے دو بندوں کا ہی کھانا چاہیے، تقسیم کرنے والے نے کہا دوسرا آدمی کون ہے تو مسافر نے کہا کہ فلاں درخت کے نیچے میں سویا ہوا تھا تو دوسری طرف ایک اور آدمی بیٹھا تھا جو سوکھی روٹیاں پانی میں ڈبو کر کھا رہا تھا لہذا اس کا بھی لنگر دے دو، لنگر تقسیم کرنے والا مسکرایا اور بولایہ وہ ہی شخص ہے جو لوگوں کو لنگر تقسیم کر رہا ہے۔ یہ شخص حضرت عمر فاروق ہیں جو خود سوکھی روٹیاں کھا رہے ہیں اور لوگوں کو لنگر کھلا رہے ہیں۔
ایک دفعہ حضرت عمر فارق کے بیٹے نے آپ سے کوئی فرمائش کی آپ کے پاس پیسے نہیں تھے تو آپ نے اس وقت کے خزانچی کو پیغام بھیجا کہ مجھے چار درہم ادھار دے دیں اور مہینے کے آخر میں میری تنخواہ سے کاٹ لے تو خزانچی نے انکار کر دیا اور کہا کہ اے عمرفاروق تمہارے پاس کیا گارنٹی ہے کہ تم ایک مہینہ زندہ رہو گے، تو یہ سن کر آپ کانپ اٹھے کہ اس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور بیٹے کو صبر کرنے کو کہا۔
ایک دفعہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ دربار کا وقت ختم ہونے کے بعدگھر آئے تو کسی کام میں مصروف ہو گئے تو اچانک ایک آدمی آیا اور کہنے لگا امیر المومین آپ فلاں شخص سے میرا حق دلوا دیجئے، آپ کو غصہ آیا اور اس آدمی کو ایک درا پیٹھ پر مارا اور کہا جب میں دربار لگاتا ہوں تو اس وقت تم لوگ اپنے معاملات لے کر آتے نہیںاور جب میں گھر کے کام میں مصروف ہوتا ہوں تو تم اپنی ضرورتوں کو لے کر آجاتے ہو، تو وہ شخص چلا گیا۔ بعد میں آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور پریشان ہو گئے اس شخص کو بلایا جسے آپ نے درا مارا تھا اور اس کے ہاتھ میں درا دیا اور اپنی پیٹھ آگے کی کہ مجھے درا مارو میں نے تمہارے ساتھ زیادتی کی ہے، وقت کا بادشاہ ، چوبیس لاکھ مربع میل کا حکمران ایک عام آدمی سے کہہ رہے ہیں میں نے تم سے زیادتی کی ہے اور میرے پیٹھ پر مارو۔ اس شخص نے کہا نہیں میں نے آپ کو معاف کر دیا۔ تو امیر المومنین نے کہا کل قیامت کو مجھے اس کا جواب دینا پڑے گا تم مجھے ایک درا مار دو تاکہ تمہارا بدلہ پورا ہو جائے۔ تو آپ روتے جاتے اور فرماتے کہ ائے عمر تو کافر تھا، ظالم تھا،بکریاں چراتا تھا تو خدا نے تجھے اسلام کی دولت سے مالا مال کیا اور تھجے مسلمانوں کا خلیفہ بنایا اور آج تو اپنے رب کے احسانوں کو بھول گیا ہے۔آج ایک آدمی تجھ سے کہتا ہے کہ مجھے میرا حق دلاو تو تو اسے درا مارتا ہے۔ اور پھر اپنے آپ سے کہتے ہیں کہ اے عمر تو کیا سمجھ بیٹھا ہے کہ مرے گا نہیں، اور اللہ کو حساب دینا پڑے گا، امیر المومنین اسی بات کو باربار دھراتے اور دیر تک روتے رہے۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروق راتوں کو اٹھ اٹھ کر پہرا دیتے اور لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھتے۔ ایک دن آپ اپنا بھیس بدل کرگشت کر رہے تھے تو اچانک ایک گھر سے بچوں کی رونے کی آواز آئی اور بچے کھانا مانگ رہے تھے اور ماں کہہ رہی تھی کہ ہنڈیاں پک رہی ہے تم سو جاو جب کھانا پک جائے گا تو میں جگا دوں گی، یہ سنتے ہی آپ دروازے پر دستک دی تو ایک عورت باہر آئی تو آپ نے اس سے دریافت کیا کہ بچے کیوں رو رہے ہیں تو عورت نے کہا کہ وہ بھوکے ہیں اور گھر میں کھانا نہیں ہے تو آپ نے فرمایا کہ پھر ہنڈیا چولہے پرکیوں رکھی ہے تو عورت نے کہا کہ وہ تو خالی ہے اور بچوں کو دلاسہ دے رہی ہوں کہ وہ سو جائیں، تو آپ سے یہ سب کچھ برداشت نا ہوا تو فوراً بیت المال میں گئے اور کھانے کی چیزیں لیں اور اپنے غلام اسلم سے کہا کہ اس کو میری پیٹھ پر رکھ دو تو غلام نے کہا کہ امیر المومنین میں سامان خود لے چلتا ہوں تو آپ نے فرمایا کیا تم قیامت والے دن بوجھ اٹھا پاو گئے؟ نہیں میں خود لے کر جاوں گا۔
Hazrat Umar Farooq
آپ خود سامان لے کر اس عورت کے گھر گئے، عورت نے کھانا پکایا اور بچوں کو کھلایا اور بچے اچھلنے کودنے لگے تو یہ سب کچھ دیکھ کر آپ خوش ہوئے تو عورت نے کہا اللہ آپ کو جزائے خیر دے اور سچ یہ ہے کہ تم امیر المومنین ہونے کے قابل ہو نہ کہ عمرفاروق۔ آپ فرماتے کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو کل قیامت کے دن عمر سے اس بارے میں پوچھ ہوگی۔
یہ تھا عمر فاروق کا دور جنہوں نے صحیح معنوں میں سیاست کی جن کو خوف خدا بھی تھا اور اعوام کا اساس بھی۔ لیکن آجکا کوئی حکمران ہے جو خود سوکھی روٹی اور دوسروں کا لنگر کھلائے، آج بھی تو لوگ فاقوں سے مر رہے ہیں ہے کسی کو خیال نہیں اگر خیال ہے تو صرف اپنے پیٹ کا اور اپنی ذات کا۔ہے کوئی عمر فاروق جیسا حکمران جیسے خزانچی بھی ادھار نا دے، ہے اس دنیا میں کوئی مائی کا لال جو عمر فاروق جیسا عدل کرے جیسے وقت کا قاضی بھی بلائے تو قاضی کی عدالت میں چلا جائے، ہے کوئی ہے ایسا جیسے اپنی رعایا کا احساس ہو جو راتوں کو جاگتا ہو اور بھوکے کو کھانا دے کر آئے۔ ہے کوئی ایسا جیسے حکمرانی کی کرسی توملی ہو مگر بھول گیا ہو کہ اس کرسی کا کل حساب بھی ہو گا۔ نہیں ہے اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔
آج ہمارے ملک کی معیشت کہاں کھڑی ہے اور ایک طرف حکمرانوں کی عیاشیاں ہیں اور دوسری طرف اعوام کی خودکشیاں ہیں، مائیں اپنے حمل اور باپ اپنے ہاتھوں سے اپنی نسل ضائع کررہے ہیںجس باپ نے بھوک، بیروزگاری، غربت کے ہاتھوں پاگل ہو کر اپنے بچے دریائے روای میںپھینک دیے اس کے لیے گنگا اور جمنااور راوی میں کیا فرق ہو گا اور تم سیاست کا نعرہ لگاؤ اور ہمیں بہلائو،اس ملک کی کمزور معیشت کی وجہ اصل میںآج ہم عملی طور پر امریکہ کے غلام ہیں اور سیاست چمکانے والوں کیا آج اس ملک پر ڈراون حملے نہیں ہو رہے اور صلاحیت رکھنے کے باوجود ہماری جرت نہیں۔
ہماری بھوک، غربت اور ہماری کمزور معیشت ان ڈرون طیاروں کو گرانے سے روکے ہوئے ہے۔ یہ کس قسم کی سیاست کی بات کررہے ہیں جہاں لوگ بھوکے، بیروز گار ہیں اور نام رکھا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان اور قومی اسمبلی کے باہر لکھا ہے کلمہ طیبہ اور بات کرتے ہیں مغربی جمہورت کی اور روشن خیالی کی۔ کیا ہمیں اسلام کے نام پر بنے والا پاکستان اس لیے دیا گیا تھا کہ ہم یہ دیکھیں، لاقانونیت اور معاشرے کی جڑوں میں تیزاب کی طرح پھیلی ہوئی کرپشن اپنی آخری حدود سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ معمولی سے معمولی اور جائز کام کے لیے بھی دام درکار ہیں۔ سماج اس وقت ایک منڈی میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں قدم قدم پر میرٹ مطلوب ہے۔ جہاں محکمے جہالت کی تھوک منڈی ہیں جہاں عدالتوں میں انصاف ملتا ہے، جہاں قانون ساز قانون کی بوٹیاں نوچنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، جہاں اعوام اور اقتدار اور دو متضاد قوتوں کا نام ہے۔
یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان جہاں ہر کوئی اپنی دھن میں مگن ہے سر کھجانے کی فہرست نہیں دائیں بائیں کی فکر نہیںہر شخص بھوکا ہے۔ کوئی اقتدار کا طالب ہے اور کوئی شہرت کا بھوکا، کوئی دولت کا پرستار ہے کوئی پیٹ کا بھوکا، کوئی بھنگ کے ایک پیالے پراپنا سب کچھ نچھاور کرنے پر امادہ اور کوئی طاقت کا بھوکا۔ہم زاول کی آخری حدوں کے آخر پر پہنچ چکے ہیں انصاف مہیا کرنے والے ادارے سیسک سیسک کر دم توڑ رہے ہیں ہر طرف ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے بھوک، غربت افلاس، انصاف کی۔
کل کی تاریخ پڑھیے جب بوڑھے آدمی کو چھ ماہ کی پنشن نہ ملی تو وہ اپنی کنپٹی پر بندوق رکھ کر بولا یہ میرا پاکستان ہے اور تیرا پاکستان ہے، جب مزدور رات کا خالی ہاتھ گھر لوٹا اور بچوں سے نظریں چراتے ہوئے بولاہے تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات، جب وزیر اعظم کی کھلی کچہری میں خودسوزی کرنے والاشخص بھی بولا تھا میں بھی پاکستان ہوں اور توبھی پاکستان ہے، جب جاگیر دار کے بیٹے غریب کی بیٹی کو اٹھا کر لے کر گئے تھے تو وہ بولی تھی انصاف دو انصاف کہاں ہے، لال مسجد کے شہدا آج بھی کہہ رہے ہیں پاک فوج تو زندہ باد۔ کل کی تاریخ پڑھیے جب بیروزگار باپ نے اپنی تین جوان بیٹوں کو مارا تھاتو وہ بولا تھا۔
عجب رسم ہے چارہ گھروں کی محفل میں لگا کر دفن نمک سے مساج کرتے ہیں غریب شہر ترستا ہے ایک نوالے کو امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں
غربت سے مجبور لوگ اپنے بچے بیچ ڈالتے ہیں ان کے ریٹ لگا کر سڑک کنارے کھڑے ہو جاتے ہیں، اپنی پانچ پانچ سالہ بچیاں دلالوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ خود دریاوں میں کود جاتے ہیں، پنکھوں کے ساتھ جھول جاتے ہیں، آگ لگا لیتے ہیں، خود کو گولیاں مار لیتے ہیں اور اپنے معصوم بچوں کی گردنیں کاٹ دیتے ہیں، صدارت وزارت اور عمارت کے بھوکے، تہذیبی حقدار کو پامال کر دیتے ہیں، کھبی تو چند کھوٹے سکوں کے عوض قوم کی بیٹوں کو بیچ ڈالتے ہیں اور کبھی مساجد اور درباروں کا تقدس پامال کرتے ہوئے انہیں لہو رنگ کرتے ہیں اور جب لوگ کہتے ہیں کہ خدا سب دیکھ رہا ہے تو میں سوچتا ہوں کہ خدا کیا دیکھ رہا ہے۔ میری دعا ہے اللہ سے کہ ہمیں نیک ہدایت دے اور ہمیں حضرت عمر فاروق جیسا حکمران عطا فرما(امین)