تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی کوئی انسان ذاتی مفادات کی خاطر اپنے قدیم نظریات کو تیاگ دیتا ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کی بدلی ہوئی سوچ پر اس کا ساتھ دیں اور اس کے نئے تراشے گے نظریات پر اس کی دادو تحسین کریں۔ اسے اپنے وقت کا عظیم انقلابی کہہ کر اس کے دامن سے چمٹ جائیں ۔اسے خود بھی اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ وہ جس نئی ڈگر کا مسافر بن رہا ہے وہ اس کے خیالات و نظریات سے تال میل نہیںکھاتی لیکن پھر بھی وہ اس راہ کو اپنا تا ہے کیونکہ اسی میں اس کا ذاتی مفاد پنہاں ہوتاہے۔ذاتی مفاد مقصودِ زندگی بن جائے تو انسان ذلیل و خوار ہوجا تا ہے۔ وہ لوگوں کو اب بھی باور کروا رہا ہوتا ہے کہ اس نے نیا لائحہ عمل عوام کے عظیم تر مفاد میں اپنا یا ہے حالانکہ عوام جانتے ہیں کہ وہ عوام کا نام محض اپنی حا جات کی برو مندی کیلئے لے رہا ہوتاہے ۔عوام کا مفاد اس میں ہو یا نہ ہو البتہ اس کا عظیم مفاد اس سے وابستہ ضرور ہو تا ہے۔
سیاسی بیان داغنے پر تو کوئی پابندی نہیں ہوتی اور ہر کوئی حسبِ منشاء بیان بھی داغ سکتا ہے اور لوگوں کو اپنے بیان کے محاسن سے فیضیاب بھی کر سکتا ہے۔اگر کسی شخصیت کے نظریات واقعی اس قابل ہوں کہ اس سے معاشرے میں تبدیلی اور بہتری کے اشارے ملیں تو پھر اس شخصیت کو دادو تحسیسن سے ضرور نوازا جا نا چائیے اور اس کا ساتھ دیا جانا چائیے لیکن اگر اس کے نئے نظریات محض اقتدار کے حصول کی سیڑھی ہوں اور وہ لفظوں کی جادو گری سے عوام کو بیوقوف بنانے کیسعی میں جٹا ہو تو اسے حقیقی آئینہ ضرور دکھانا چائیے۔کسی کے نظریات کو جاننے کا واحد ذریعہ اس شخص کے ماضی کے وہ خیالات اور اقوال ہوتے ہیں جن سے وہ معاشرے میں انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے ۔یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص کئی سالوں تک ایک بات تواتر سے کہے اور پھر اقتدار کی خاطر راتوں رات اپنی بات کے بالکل بر عکس نیا بیانیہ تشکیل دے ڈالے جو اس کی سالہا سال کی جدو جہد اور محنت پر پانی پھیر دے۔وہ پلک جھپکنے میں اپنا قبلہ تبدیل کرلے اورعوام سے کہے کہ وہ بھی اسی قبلہ پر سجدہ ریز ہو جائیں جس پر وہ خود سر بسجود ہے تو اس بات کی تہہ تک جانا ضروری ہوتا ہے ۔ یہ کوئی حیران کن صورتِ حال نہیں ہے ہمارے ہاں اکثر یہی ہوتاہے کہ خواب کچھ دکھائے جاتے ہیں لیکن جب وقتِ ابتلاء و آزمائش آتا ہے تو انسان خوابوں کو پسِ پشت ڈال کر ذاتی مفادات کی راہ پر نکل کھڑا ہو تا ہے۔
انسان اپنی دانست میں بہت بڑا تیر مار رہا ہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ اپنا نقصان کر رہا ہو تا ہے جس کا اسے بالکل احساس نہی ہوتا۔اصل میں وہ اپنی فتح کی سرشاری میں اس قدر مست ہوجا تا ہے کہ اس میں اپنے گردو پیش کے ماحول کو دیکھنے اور عوام کی نفسیات کو سمجھنے کا احساس دم توڑ جاتا ہے۔وہ تصوراتی دنیا میںجذبات کا قیدی بن کر ایک ایسی انجانی منزل کی جانب بھاگ رہا ہوتا ہے جس کی بھاگیں اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہو تیں ۔لپذا ایک وقت آتا ہے کہ وہ دوسروں کی کٹھ پتلی بن جاتا ہے اور پھر اس کا کوئی خریدار نہیں ہوتا۔چوہدری برادران کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ وہ کس طرح جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں بنے ہوئے تھے اور اسے وردسی میں دس بار صدر منتخب کروانے کے غیر آئینی اعلانات کر رہے تھے۔اس وقت چونکہ اقتدار جنرل پرویز مشرف کی مٹھی میں بند تھا لہذا وہ اسی کی سوچ اور عمل کو حتمی سمجھ کر اس کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے۔
ان کا خیال تھا کہ جنرل پرویز مشرف جو کچھ کہہ رہاہے حالا ت و واقعات اسی طرح ظہور پذیر ہو ں گے۔لیکن ایسا نہ ہو سکا کیونکہ پاکستان کی حقیقی جمہوری قوتوں نے چوہدری برادران اور جنرل پرویز مشرف کو آڑے ہاتھو ں لیا اور ان کے سارے منصوبو ں کو عوامی تائید سے تہہ و بالا کر دیا۔اب نہ ہی چوہدری برادران اور نہ ہی جنرل پرویز مشرف کی کوئی سیاسی حیثیت ہے وہ پٹے ہوئے مہرے ہیں اور قصہِ ماضی ہیں۔ عوامی عدالت نے انھیں ٹھکرا دیا ہے کیونکہ عوام غیر جمہوری سوچ کا ساتھ نہیں دیتے ۔ایسا ان کے ساتھ اس غیر جمہوری موقف کی وجہ سے ہوا جسے وہ جمہوری سمجھ کر لوگوں کو اس کی جانب بلا رہے تھے ۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی ایک للکار سے ان کا سجا سجایا محل زمین بوس ہو گیا اور انھیں منہ کی کھانی پڑی۔مسلم لیگ(ق) جسے وہ اقتدار کا زینہ سمجھتے تھے محترمہ بے نظیر بھٹو کی جمہوری جدو جہد کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی کیونکہ مسلم لیگ (ق) کی اساس ذاتی مفادات اور غیر جمہوری افکار پر رکھی ہوئی تھی ۔سچ تو یہ ہے کہ اقتدار پر بھروسہ کرنے والوں اور اقتدار کی خاطر سب کچھ دائو پر لگانے والوں کا انجام ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔وہ خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مارتے ہیں لیکن انھیں احساس نہیں ہوتا ۔شائد ان کی قوتِ بصارت اچک لی جاتی ہے ،۔
١٩٩٦ میں پاکستان تحریکِ انصاف ایک ایسی جماعت کے طور پر سامنے آئی جس نے سیاست کے مروجہ اصولوں کی بجائے نئے اصول و ضوابط متعارف کروائے اور مڈل کلاس کی با شعور اور پڑھی لکھی نوجوان نسل کو اقتدار کی راہداریوں میں لے جانے کا عزم ظاہر کیا۔یہ ایک اچھی کوشش تھی جسے کافی سراہا گیا۔یہ ایک نئے پاکستان کے قیام کی باز گشت تھی جسے خوب مقبولیت ملی اور یوں عمران خان ایک نئے سیاسی قائد کی حیثیت سے جانے پہچانے لگے۔ان کا بیانیہ واقعی قابلِ ستائش تھا اور عوام نے ان کے بیانیے کو دل وجان سے قبول کیاتھا۔اگست ٢٠١٤ کے دھرنے میں ایمپائر کی انگلی اٹھ جانے والے بیان نے عمران خان کی ذات کے حوالے سے شکو ک و شبہات کو جنم دیا جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید قوی ہوتے گے ۔ دھرنے کی کامیابی کیلئے غیر جمہوری قوتوں سے ہاتھ ملانے اور انھیں مدد کیلئے پکارنے کو جمہوری لوگوں نے خوب رگیداجس سے عمران خان کی جمہوری جدو جہد کو کافی نقصان پہنچااور تحریکِ انصاف کی مقبولیت کا گراف کافی نیچے چلا گیا۔لیکن پاناما لیکس میں میاں محمد نواز شریف کی نا اہلی سے عمران خان کے کرپشن سے پاک معاشرے کے قیام اور موروثی سیاست کے خلاف علمِ بغاو ت نے انھیں ایک دفعہ پھر مقبول بنا دیا ۔ان کے بیانیہ نے مڈل کلاس کے ذہین و فطین نوجوانوں کے دلوں میں جس طرح نئی امنگوں کو زبان عطا کی اور انھیںنام نہاد اشرافیہ کے خلاف جس طرح منظم کیا وہ قابلِ ستائش تھا۔
بھٹو خاندان،شریف خاندان،باچہ خان خاندان، مفتی محمود خاندان اور دوسرے اہم سیاسی خانوادوں کے خلاف عمران خان کی نفرت تاریخ کا حصہ ہے۔عمران خان افراد کو خاندانی پسِ منظر سے نہیں بلکہ ان کے ذاتی خصائص سے پہچاننے اور دیکھنے کے آرزو مند تھے ۔انھوں نے موروثی سیاست کو جس طرح ہدفِ تنقید بنایا اس نے بہت سے موروثی خاندانوں کو ان کا دشمن بنا دیا ۔بھٹو خاندان کے خلاف تو ان کی تنقید کبھی کبھار اخلاقی حدود سے بھی تجاوز کر جاتی تھی جس کی وجہ سے جیالے طیش میں آ جایا کرتے تھے۔ لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا کہ ایک دن عمران خان نے اپنا سارا نظریہ،اپنا سارا فلسفہ،اپنا سارا زورِ بیان، اپنی ساری کمٹمنٹ اور اپنی ساری سوچ ایمپائر کی انگلی کے اشارے کی نظر کردی ۔٢٠١٨ کے انتخا بات کا اعلان ہو نا تھا کہ وہ سارے موروثی سیاستدان جن کے خلاف عمران خان ساری عمر جدوجہد کرتے آئے تھے انھیں بڑھ کر گلے سے لگانا پڑ گیا ۔یہی ہیں وہ لوگ جھنیں قائدِ اعظم نے کھوٹے سکے کہا تھا اور جھنوں نے وطنِ عزیز کو بے دردی سے لوٹا ہے۔
یہ قبضہ گروپ اور قرضہ معاف گروہ ہے جو پاکستان کو گدھوں کی طرح نوچ رہا ہے لیکن افسوس عمران خان انہی کے ہاتھوں نئے پاکستان کی بنیادیں رکھنا چاہتے ہیں۔عمران خان چیل کے گھونسے میں ماس ڈھونڈنے نکلے ہیں اور نتیجہ حسرت و ناکامی کے سوا کچھ نہیںہوگا۔موروثی خاندانوں کو گلے لگا کر عمران خان نے خود کو ایکسپوز کر دیا ہے ۔موروثی سیاست کا ناقد اب الیکٹیبل کی تلاش میں سر گرداں ہے۔ اب موروثی سیاست شجرِ ممنوعہ نہیں بلکہ باعثِ فخر بن گئی ہے کیونکہ اقتدار کا چشمہ یہی سے پھوٹنے والاہے۔پی ٹی آئی نے ١٧٣ حلقوں سے اپنے امیدواروں کا اعلان کیا ہے جس میں ان کی اپنی جماعت کے ٢٥ ممبران ہیں ۔ عمران خان کی اس سیاسی قلا بازی نے پی ٹی آئی کے اندر بغاوت پیدا کردی ہے ۔ہر شہر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور شائد یہی احتجاج پی ٹی آئی کی ممکنہ فتح کو شکست میں بدلنے کا باعث بن جائے۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال