مسند اقتدار پر فائض حکومتی جماعت تحریک انصاف کی بعض شخصیات اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ اس ملک کی ناگزیر ضرورت ہیں جن کے بغیر یہ ملک درست سمت اور ترقی کی جانب نہیں بڑھ سکتا اور یہ کہ وہ اس ملک کی ڈوبتی ناوٗ کو کنارے پر لگانے کے مشن پر گامزن ہیں اور اس سلسلے میں ان کی ہر کاوش قابل تعریف بلکہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے اور ان کا ہر قدم ملک بنانے سنوارنے کے حوالے سے ایک بہتر اور اچھا قدم ہے۔وہ اپنی دانست میں جو بھی کر رہے ،درست کر رہے،یہاں تک کہ وہ جو کہہ یا فرما رہے وہ بھی بالکل ٹھیک ہے، حتیٰ کہ ضروری نہیں کہ ان کا ہر قول فعل عمل درست ہو،ملک کی تعمیرو ترقی کے حوالے سے ہوا میں قلابازیاں لگانے ،کچھ اچھا کرنے کی امید کے پیغامبر،نئے پاکستان کے کھلاڑی بہت ساری جگہوں پر غیر ذمہ درانہ باتیں کرنے کا باعث بنتے ہیں،جن کا انداز انہیں بعد میں ہوتا ہے ،بجائے اس کے کہ اس پر شرمندگی محسوس کریں ،غلط ہونے کے باوجود بھی ایسے بیانات پرجو، ان صاحب اقتدار افراد کے منہ سے نکلتے،جو کسی بھی باشعور شخص کے گلے کی ہڈی سے نیچے نہیں اترتے پر اڑ جاتے اور بجائے اس کے کہ غلطی کا ادراک کرتے ہوئے اپنی اصلاح و احوال کریں۔
مختلف تویلات وعذرپیش کرتے ہیں، جس میں بعدازاں ان افراد کے چمچے کڑچھے حواس باختگی کی حد تک ان فضول؍احمقانہ ؍مضحکہ خیز؍، مبنی بر شرمندگی بیانات کی صفائیوں میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کی طرح ہلکان نظر آتے ہیں اور حق وفاداری نبھاتے بھانت بھانت کی بولیاں بول کر اپنے وجود ،اپنے ہونے کا متعلقہ شخص ،جس کی خاطر ایسے کر رہے ،کو احساس دلانے کے لیے ،ان کی طرف سے ایک نظر الفت اور داد تحسین کے لیے بھوکی نظروں سے اس کی جانب دیکھتے۔یہ صورتحال شخصیات، ملک اور اس کے اداروں کے لیے بہت خطرناک ہے ،جس کا بروقت سدباب اور تدارک بہت ضروری ہے ،برسر اقتدار ٹولے کی خوشامد ،؍بے جا تعریفیں ؍غلط بات اور احکامات پر ان کو روکنا نہ ،بازپرس نہ کرنا پورے سسٹم کی دھجیاں بکھیر کے رکھ دیتا ہے۔
اصلاح و احوال کے سارے عمل کو تار تار کر دیتا ہے۔ فضول ،غلط اور احمقانہ باتوں پر ان بڑھتے قدموں کو اپنے طور پر عقل کل بنے ،کچھ اچھا کرنے کے نام پر اپنی ازلی جہالت کی بناء پر سب کچھ برباد کردینے جیسے عمل پر بحثیت فرد ہمارا روکنا ،سمجھانا ؍رہنمائی نہ کرنا جانے انجانے میں معاشرتی سطح پر بہت برے اور گھناوٗنے اثرات مرتب کرتاجس کا فوری اوربروقت ازالہ ضروری ورنہ بعد ازاں پچھتاوہ ہی مقدر ٹھہرتا اور تاریخ میں سوائے ناکامی ؍حسرت؍نادانی کے علاوہ اور کچھ نہیں لکھا جاتا۔افسوس اقتدار اور اختیار ہاتھ میں کیا آتا ہے ہم معیار اور انصاف کے پیمانے ہی بھول جاتے ہیں،کیا صحیح کیا غلط کا فرق ہی نہیں سمجھ پاتے، اپنی دانست میں اپنی علمی کم عقلی؍کم فہمی کی بناء پر ،چاہے جس بھی اعلیٰ عہد ے پر فائز ہو،درست کو غلط اور غلط کو درست بنانے پر تل جاتے اور اپنی علمی کم عقلی،کم علمی پر ماتم کرنے کی بجائے قوم کو نصیحت وفصیحت پر اتر آتے ،جن وجوہات ؍عوامل کی وجہ سے ہم مہنگائی،بے روزگاری اور مشکلات سے دوچار،اس پر بات نہیں کرتے اور نہ ہی اس کو ،ان چیزوں کا ذمہ دار ٹھہراتے اور جو چیزان سب معاملات کی جو ہم کو روزمرہ زندگی میں درپیش ہیں وجہ نہیں،اس کو اس تمام تر مشکلات کی وجہ گردانتے اورسارا نزلہ ’’بڑھتی ہوئی آبادی ‘‘پر ڈال دیتے اور خود اس معاملے سے ایسے بری الذمہ ہو جاتے ہیں کہ جیسے انہوں نے کچھ کیا ہی نہیں ہے۔
کرپشن کا ناسور ہم سے کنٹرول نہیں ہوپارہا،شخصی کرپشن،اداروں میں ہونے والی کرپشن پر ہمارا کنٹرول نہیں بن پا رہا،سسٹم کو ٹھیک کرنے کی پوزیشن ہم میں نہیں،ادارے عوامی امنگوں کے برعکس کچھ لیے دئیے ،مٹھی گرم کیے بغیر کچھ کام نہیں کرتے ،حکومتی ایوانوں سے لیکر عدالتی راہداریوں تک کچھ بھی تو ٹھیک نہیں چل رہا،ہر جگہ کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے،مجبور و مقہور یہاں ذلیل و رسوا ہو رہا ہے اور پیسے والا اس سے فیض یاب، پھر کس نئے پاکستان کی بات اور نوید سنائی جا رہی ہے ،ہر طرف اندھر نگری اور چوپٹ راج ہے، غریب کی کسی بھی ادارے میں شنوائی نہیں اور امیر کے لیے ہر دروازہ کھلا ہے۔
حالات پہلے سے بھی بدتر ،وجہ تبدیلی آئی ری،غریب کو اس دیس میں اب بھی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور حکمران طبقہ بدمست ہوئے ،ہر طرف چین کی بانسری بجائے سب اچھا کی رپورٹیں دے رہے ہیں۔ملکی معیشت کی حالت دن بدن دگرگوں ہوتی جارہی ہے اور ہماری منسٹری آف اطلاعات کے وزیر فود چوہدھری صاحب کی جانب سے بیان آتا ہے کہ ڈالر کے گرنے بڑھنے سے ملک کو کوئی اثر نہیں پڑتا۔ جبکہ اس سے ہر فرد متاثرہوتا ہے۔ دیوالیہ ہونے کے قریب ملک ،کا شور وغوغا مچانے کے بعد اس کو چلانے کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے کافی حد تک اطمینان بخش امداد ،تعاون؍معقول سرمایہ کاری کے باوجود چند ایک اوراسلامی ممالک سے متوقع سرمایہ کاری ، ہمسایہ دوست ملک چین سے بھی معقول حد تک مزید سرمایہ کاری آنے کی امید کے بعد بھی ہوس زر کی مزیدخواہش کے پیش نظر آئی ایم ایف کے سامنے مالی امداد کے لیے اب بھی کشکول گدائی پھیلایا جا رہا ہے۔جو کسی طرح بھی مناسب بات نہ ہے ،ملک کی حالت اور سمت کا درست تعین نہیں کیا جا رہا،عوام پریشان ہوکر جب سوال کرتی تو آگے سے صبر کی تلقین اور آئے ہوئے برے دن چھٹ جائیں گے ،کا کہہ کر حلوہ کھانے کی ترغیبیں دی جاتی۔پولیس تھانوں،چوکیوں،ناکوں،چیک پوسٹوں پر عوام پہلے کی طرح ہی لٹ رہی ہے۔
پولیس کو یہاں دیکھ کر اپنے تحفظ سے زیادہ اپنے لٹ جانے کا احساس زیادہ ہوتا ہے، رشوت کا بازار گرم ہے ، ایف آئی آر کے اندراج اور مقدمات میں الجھا کرجیب تواب بھی گرم کی جاتی بلکہ پہلے سے بھی بری حالت ہے، فاعلوں میں سب اچھا، حقیقت میں بدلا کچھ بھی نہیں،ہاں اتنا فرق ضرورآیا ہے کہ ہیلمٹ کی پابندی کا عوام کو مزا ضرور چکھنا پڑرہا ہے،چلانے والے سے لیکر پیچھے بیٹھنے والے تک،پیچھے بیٹھنے والے بزرگ ہچکچا رہے ہیں،بیمار تلملا رہے ہیں،عورتیں ویسے ہی اس عمل سے اوازار ہیں،بس اک ضد ہے ،جس نے ڈرائیور سے لیکر پیچھے بیٹھنے والے تک کو عذاب میں ڈال رکھا ہے،چالان کٹ رہے ہیں،لڑائیاں ہورہی ہیں،آئے دن ٹریفک والے اور شہریوں کے درمیان جھگڑے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بس،ٹرک،مزدا،کوسٹر رکشہ،ٹیوٹا والوں کو اوور چارجنگ،اوور لوڈنگ،فرنٹ سیٹ پر ٹرپلنگ، نشست اور گنجائش سے زیادہ سواریاں بٹھانے،کم عمر ڈرائیورز کنڈیکٹر پرلگام ڈالنے کی ضرورت،سے رشوت کے طور پر ویکلی،منتھلی لیکرشتر بے مہار کی طرح چھوڑ دیا جاتا،وہ ٹریفک سگنل توڑیں یا تیز رفتاری سے چلیں،روپوں کی چمک دھمک اور پیسوں کی جھنکار میں سب چھومنتر ہوجاتا۔۔۔کہتے ہیں کہ تبدیلی آئی ری،بدلا کچھ بھی نہیں تو پھر ڈھنڈورا کس بات کا ہے۔