طاقت اقتدار کا حصول انسانی فطرت کا خوفناک ترین رنگ ہے جس کو بھی اقتدار کا حاصل ہو جائے اور وہ اقتدار کے چوبارے پر براجمان ہو جائے تو زیادہ تر انسان خود کو زمینی خدا سمجھ کر انسانوں کو جانوروں کے ریوڑ سمجھ کر ہانکتا شروع کر دیتا ہے ‘اقتدار کے جھولے پر سوار ایسے بے عقل حکمران سمجھتے ہیں کہ میں ہی پہلا اور آخر ی حکمران اِس دھرتی پر آیا ہوں ‘ جو اقتدار مجھے نصیب ہوا ہے اِس کا اہل صرف اور صرف میں ہی تھا ‘ وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ جس مٹی سے اُس کی تخلیق ہو ئی باقی انسان بھی اُسی مٹی سے بنتے ہیں لہٰذا دھرتی پر آنے والا ہر مشت ِ غبار چاہے وہ بادشاہ ہو یا گدا گر’ پیغمبر ولی تما م فانی کے جسم گردش شب و روز سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر بڑھاپے اور پھر موت کے گھاٹ اُتر جاتے ہیں ‘ جب بھی کو ئی انسان اقتدار پر قبضہ جماتا ہے تو وہ اِس غلط فہمی کا شکار ہو جاتا ہے کہ میری جسمانی ساخت اندرونی نظام اب باقی انسانوں سے مختلف اور ابدی ہو گئے ہیں۔
اب میرے اقتدار اور جسم کو کبھی فنا نہیں ہو نا اب میں ہی روز قیامت تک زندہ جوان اور صاحب اقتدار رہوں گا ‘ اِس نشے کے بعد پھر ایسا صاحب اقتدار انسان کی بجائے خود کو زمینی خدا سمجھنا شروع کردیتا ہے حکمران کے اِس فضول خیال کو اُس کے حواری میراثی بھی پر موٹ کرتے ہیں کہ جہاں پناہ اب ماضی حال مستقبل کے اکلوتے بادشاہ ہیں جس کو کبھی ناکامی نہیں ہو گی ‘ پھر میراثیوں کا یہ لشکر بادشاہ وقت کی رہی سہی عقل بھی برباد کر دیتا ہے ‘ جب بادشاہ وقت خود کو زمینی خدا سمجھنا شروع کر تا ہے تو اُس وقت اگر تو حکمران کی بیگم صاحبہ نیک ہو تو بادشاہ کو حقیقت کا آئینہ دکھا کر صراطِ مستقیم پر چلانے کی کو شش کر تی ہے لیکن اگر خاتون اول کو بھی اقتدار کے جھولوں کا نشہ چڑھ جائے تو پھر تو دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی بربادی مقدر میںلکھ دی جاتی ہے جب اقتدار کے نشے کی لت خاتون اول کو بھی لگ جائے تو پھر اللہ ہی حافظ ہو تا ہے۔
کیونکہ حکمران صاحب تو میراثیوں مدح خواہوں کے لشکر میں اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتاہے اِن میراثیوں کا ایک گروپ خاتون اول کے تلوے بھی چاٹنے شروع کر دیتا ہے پھر اُسے بھی ہو ش اُس وقت آتا ہے جب اقتدار کا سورج غروب ہو کر اقتدار کا پرندہ کسی دوسرے کے سر پر حکمران کا تاج رکھ دیتا ہے ‘ خوش قسمت ہو تے ہیں وہ حکمران اور خاتون اول جو اقتدار کے چوبارے پر بھی خوف خدا کی نعمت سے سرفراز ہوتے ہیں اِیسے ہی لوگ پھر تاریخ کے اوراق میں قیامت تک کے لیے امر ہو جاتے ہیں ‘ دوسری صدی کا مشہور واقعہ جب اسلامی حکمران ہارون الرشید تھا ‘ دنیا میں اسلامی مملکت کی حدود سینکڑوں میلوں پر پھیل چکی تھی اُسی زمانے میں حج کر نے کے لیے بادشاہ کی لاڈلی ملکہ زبیدہ بھی مکہ تشریف لائیں میدان عرفات میں دنیا جہان کے آئے ہوئے حاجیوں کو پانی کی کمی کا شکار دیکھا تو ارادہ کیا اپنے اخراجات سے ایک عظیم الشان نہر کھو د دی جائے ‘ یہ خیال ایک نیک خاتون اول کے دل میں ہی آسکتا تھا ملکہ زبیدہ ہارون کی چچا زاد بہن تھیں ‘ نہایت ذہین اور خدا ترس تھیں جب جوان ہونے پر خلیفہ ہارون الرشید سے شادی ہو ئی تو ہارون رشید نے پچاس ملین درہم لوگوں میں خرچ کئے ملکہ کا قرآن پاک سے عشق کا یہ عالم تھا کہ ایک سو نوکرانیاں تھیں جن کو قرآن پاک یاد تھا وہ ہر وقت ملکہ کے محل میں اپنی ترنم آواز سے قرآن پاک کی تلاوت میں مصروف رہتیں اُن کے محل سے ہر وقت قرآنی آیا ت کے چشمے پھوٹتے رہتے۔
مکہ مدینہ کے لوگوں سے بہت محبت کرتی تھیں ہر سال حج کے موقع پر بے تحاشا اشرفیاں لوگوں ضرورت مند وں کی خدمت میں ارسال کرتیں ‘ حج کے موقع پر جب حاجیوں کو پانی کے لیے ٹرپتے دیکھا کو فیصلہ کیا ایک نہر کھودی جائے جس کے پانی سے حاجی اپنی ضرورتیں آسانی سے پوری کر سکیں اس کام کے لیے دنیا بھر سے انجینئر بلائے گئے تو طے یہ پایا کہ مکہ مکرمہ سے پینسٹھ کلومیٹر شمال مشرق میں وادی حنین کے جبال طائو سے نہر نکالی جائے ‘ منی کے جنوب میں ایک بڑا تالاب تیار کیا جائے جس میں بارش کا پانی اکٹھا کیا جائے پھر وہاں سے ایک چھوٹی نہر مکہ معظمہ کی طرف دوسری میدان عرفات میںمسجد نمرہ تک لے جائی جائے خاتون اول ملکہ زبیدہ کو چونکہ قرآن پاک سے عشق تھا اِس لیے انسانوں کی چھوٹی سے چھوٹی تکلیف پر بھی تڑپ اٹھتیں جب اہل مکہ اور حاجیوں کو پانی کے لیے پریشان دیکھاتو ٹرپ اٹھیں کہ کیا جائے کہ حاجیوں یعنی اللہ کے مہمانوں کی پیاس اور پانی کی ضرورت کو پورا کیا جا سکے ‘ جب ماہرین اکٹھے ہو گئے تو انہوں نے ملکہ کو اِس عظیم خدمت خلق کے کام سے روکنے کی بہت کو شش کی کہ کئی کلو میڑ تک سنگلاخ چٹانوں بلند و بالا پہاڑوں کو کاٹنا پڑے گا دشوار گزاری بلندی پر جانا ہی ناممکن ہے جا کر بلندی پر کام کر نا تو اُس سے بھی مشکل کام ہے اِس پر بہت زیادہ خر چ آئے گا یہ ایک ناممکن کام ہے ملکہ عالیہ جس کا خواب آپ دیکھ رہی ہیں اِس دشوار ترین ناممکن کام کے لیے ہزاروں مزدورں کی ضرورت ہے جو دن رات کئی مہینے کام کریں تو شائد یہ کام ممکن ہو سکے۔
دشوار ترین نشیب و فراز اور پہاڑوں کو کاٹنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے اور اگر ہم ہزاروں مزدوروں اور مستریوں کو اِس کام پر بھی لگا دیں تو مزدور اِس کام کے لیے بہت زیادہ مزدوری مانگیں گے اِس طرح شاہی خزانے کے خالی ہو جانے کا خطرہ بھی ہو گا ‘ کیا ملکہ عالیہ اپنے نہر کے خواب کو پورا کرنے کے لیے شاہی خزانے کو اِس کام کی تکمیل کے لیے خالی کر نے کا خطرہ مول لے سکتی ہیں ‘ یہاں پر اگر کوئی آج کی خاتون اول ہو تی تو یقینا باز آجاتی یا کو ئی اور سستا طریقہ تلاش کر نے کا مشورہ دیتی لیکن جن کی ترجیح اول خدا ہو جن کے جسم کی پور پور خدا کے رنگ اور خوف میں رنگی ہو وہ خدا کی مخلوق سے بھی اُسی طرح ہی پیار کر تے ہیں ‘ تاریخ انسانی کے ہر دور میںصاحب اقتدارکی مداح صرائی کے لیے دنیا جہاں کے چرب زبان کوچہ اقتدار میں بستر لگا لیتے ہیں جن کا ایک ہی کام ہو تا ہے کہ ہر وقت بادشاہ اور خاتون اول کی بے جا تعریفیں کی جائیں انہیں پہلا اور آخری حکمران ثابت کرنا کہ روئے زمین پر آپ جیسا بادشاہ نہ تو کوئی آیا اور نہ ہی آئے گا۔
اقتدار کے کوٹھے پر براجمان حکمران اور خاتون اول ایسے میراثیوں کی باتوں میں آخر اوٹ پٹانگ حرکتیں اور کام کر تے ہیں ‘ یہ میراثیوں کے جتھے اِن کے عام کاموں کو بڑھا چڑھا کر بیان کر تے ہیں اِن میراثیوں کے ماضی کا اگر ریکارڈ اکٹھا کیا جائے تو یہ ہر دور میں اقتدار کی غلام گردشوں میں صاحبان اقتدار کے جوتوں کو پالش کر تے نظر آتے ہیں ‘جیسے ہی ہوائوں کا رخ بدلتے دیکھتے ہیں تو آنے والے حکمرانوں کے جوتے چاٹتے نظر آتے ہیں اِسی طرح ملکہ زبیدہ کو بھی کاریگروں نے بہت روکا لیکن ملکہ نے تاریخی جملہ بولا آپ نہر کھودنے کاکام شروع کریں خواہ کلہاڑے کی ایک ایک ضرب پر سونے کا دینار خرچہ آئے میں دوں گی۔
اِسطرح ملکہ کے چٹانی ارادے کے بعد نہر کا عظیم الشان کام شروع ہو گیا شدید مشکلات کے بعد آخر کار یہ عجوبہ روز کاز کام یعنی نہر زبیدہ تیار ہو گئی تو منتظمین اور نگران حضرات نے اخراجات کی تفصیلات کاغذات ملکہ کو پیش کئے اس وقت ملکہ دریائے دجلہ کے کنارے اپنے محل میں تھیں ملکہ نے تمام کاغذات پکڑے انہیں کھول کر دیکھے بغیر کہ کتنا خرچہ آیا ہے کاغذات پرزے پرزے کر کے دریا کی موجوں کے حوالے کر دئیے تشکر آمیز نظروں سے آسمان کی طرف دیکھا اور بولیں اے پروردگار مجھے دنیا میں کو ئی حساب کتاب نہیں لینا تو اے رحمن رحیم روز قیامت کے دن مجھ سے حساب نہ لینا ۔ اِس طرح خاتون اول ملکہ زبیدہ نے حجاج کرام کی خدمت کر کے خود کو تاریخ کے اوراق میں امر کر لیا۔