تحریر : حلیم عادل شیخ میری نظر میں سوفسطانیت ایک ایسی بیماری کا نام ہے جس کا مقصد خود پسندی اور اپنی ہی زات کے گرد گھومنا ہے ،ایسے لوگ جو اپنی غلط دلیلوں اور جھوٹی باتوں سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ جو کررہے ہیں وہ ہی عمل درست ہے اور باقی سب غلط ہے ، دراصل ایسے ہی لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں ،اس وقت نوازشریف صاحب جس نئے عدل اور جمہوریت کی بات کررہے ہیں وہ بھی ایک ایسی ہی سوفسطانیت اور فیش از م ہے جو صرف اپنی ہی زات کے ماتحت اقتدار کا تانہ بانہ بنتاہے جس میں مخالفین کا سر کچل دیا جاتاہے، مگر میرا ماننا ہے کہ پاکستان میں تمام تر خرابیوں کے باوجود امید کی ایک کرن موجود ہے میں سمجھتا ہوں ان سب بربادیوں کے باوجود سوائے شریف خاندان کے باقی اس ملک میں فیش ازم کے کوئی آثار نہیں ہیں، جس کو پھیلانے میں شریف خاندان نے کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے۔
وقت بدل رہاہے لوگ اپنے اچھے اور برے کی پہچان کرسکتے ہیں اور خصوصا ً جو عمل شریف خاندان کی جانب سے کیا جارہاہے آج لوگ اس کی ممانعت کررہے ہیں، یقینا ان عناصر سے خود بچنے اور دوسروں کو بچانے کی ضرورت ہے ۔شریف خاندان کی یہ کوشش ہے کہ آئندہ الیکشن جیت کرکسی نہ کسی طریقے سے آئین کو بدل دیا جائے یا پھر عدالت پر دبائو ڈال کرنوازشریف کے خلاف آنے والے فیصلے کو ہی بدل دیا جائے یعنی جو تاحیات نااہلی کی پابندی نوازشریف پر لگائی گئی ہے وہ ساری عمر کے لیے نہیںہے بلکہ ایک چھوٹے سے اورمحدود وقت کے لیے ہے ،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارے چکر وزیراعظم بننے کے لیے چلاجارہے ہیں ؟ یا پھر ملکی خوشحالی کے لیے اداروں کی تضحیک کی جارہی ہے ؟یہ باور کروایا جارہاہے کہ اس ملک میں صرف ایک ہی آدمی ہے جو پاکستان کی تقدیر کو بدل سکتاہے اور وہ ہیں نوازشریف ؟ ۔ یعنی باقی اور کسی کے بس کی بات نہیں ہے کہ اس ملک کی تقدیر کو سنوار سکے ،میں پوچھنا چاہتاہوں کہ مسلم لیگ نواز کا کوئی ایسا کارنامہ تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے جسے پڑھ کر یا دیکھ کر یہ کہا جاسکے کہ نوازشریف کو ہی اس ملک کا تاحیات وزیراعظم بنادیا جائے؟ ۔میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ شریف خاندان نے اس ملک کی عوام کو کیا دیا،انہیں روزگاردیا؟ کیا انہیں وہ انہیں تعلیمی سہولیات مل سکیں جو ان کے مداح سراہوں کے بچوں کو مل رہی ہیں؟کیا سرکاری اسکولوں میں وہ معیار ہے جسے دیکھ کر حکومتی اقدامات کو سراہا جا سکے ؟
کیا غریب اور دکھوں میں ڈوبی عوام کا ہسپتالوں میں علاج ہورہاہے کیا جان بچانے والی مہنگی ادویات خریدنا اس ملک کی عوام کی بس کی بات ہے ؟کیا اس ملک میں ایک پڑھا لکھا نوجوان اس قابل ہے کہ وہ اپنی قابلیت کے بل بوتے پر نوکری حاصل کرسکے ؟۔میں دعوے سے کہہ سکتاہوں کہ جو باتیں میں نے کہیں ہیں ان میں سے ایک بھی اس ملک کی عوام کو میسر نہیں ہے جبکہ بہت سے انسانی دکھ ایسے بھی ہیںجن کا براہ راست تعلق عوام کے ساتھ جڑا ہے اور جو کام حکومت کے کرنے کے ہیں اس میں چاہے انصاف کا معاملہ ہو یا پھر پولیس سمیت دیگر محکموں کازکر ہو سب کے سب عوام کی عزت ونفس کے لٹیرے ہیں ایک بھی محکمہ ایسا نہیں ہے جس میں غریب کسانوں مزدورں حتی ٰ کے بھکاریوں سے رشوت طلب نہ کی جاتی ہو۔ہاں ان تاریخ کی کتابوں کے اوراق شریف خاندان اور ان کے حواریوں کی کرپشن کی لازوال داستانوں سے کھچا کھچ ضرور بھرے ہوئے ہیں اس کے باوجو د ملک میں سو فسطانیت کے بانی نوازشریف صاحب نے اپنے اندر وزرات عظمیٰ کا اس قدر شوق پال رکھا ہے جسے دیکھ کر یہ کہاجاسکتا ہے کہ میاں صاحب شوق جنوں میں نفسیاتی مریض تو نہیں بن چکے ہیں۔ گو کہ ثابت ہوا کہ ایک بار پھر سے وزیراعظم بننے کا شوق اس ملک کی تقدیر سنوارنے سے نہیں جڑا ہے بلکہ ان کی جانب سے تمام تر کوششیں ایک بار پھر سے وزیراعظم بننے کی ہیں۔مگر بدقسمتی یہ ہے کہ نواشریف نے اپنے ارد گرد ایسے نادان اور کرپٹ لوگوں کا ٹولہ اکھٹا کررکھا ہے ،جو شاید سو فسطانیت میں شریفوں سے بھی کہیں آگے جاچکے ہیں جواقتدار کی لالچ میں شریف خاندان کو اداروں سے ٹکرانے کا درس دے رہے ہیں،اور اس پر نوازشریف نے اپنے ان حواریوں کو ریاستی وسائل سے اپنی زاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کرپشن کی مکمل اجازت دیکر اس ملک کی عوام پر جواحسان عظیم کیا ہے اسے بھی قوم رہتی دنیا تک یاد رکھے گی۔
سوفسطانیت کی ایک قسم موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے بھی جڑی ہے وہ جانتے ہیں کہ نوازشریف کے جانے کے بعد وزیراعظم بنانے کے لیے انہیں سارے آئینی طریقوں سے گزارا گیا ہے اس کے باوجود وہ سابق وزیراعظم کی خوشنودی کے لیے ابھی تک اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ وہ اس ملک کے وزیراعظم منتخب ہوچکے ہیں،یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اکثر دھراتے رہتے ہیں کہ میرا وزیراعظم تو نوازشریف ہی ہے ۔ کل تک تحریک انصاف کے رہنما عمران خان پر یہ کمپین چلائی جاتی رہی ہے کہ وہ صرف اور صرف وزیراعظم بننے کے خواہاں ہیں ۔ جبکہ آج نوازشریف نے جب دیکھا کہ پاکستان کی سیاست سے ان کا کورم پورا ہوچکاہے توانہوں نے آزاد کشمیر میں جاکر عوام کے سامنے رونا دھونا شروع کردیا جہاں پھر سے اپنے وزیراعظم بننے کی خواہش کا اظہار کیا گیا،کہ کم ازکم مجھے کشمیر کا وزیراعظم ہی بنادد،جو “بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی ” کے مترادف ہے میاں صاحب نے اپنی دوران تقریر کہا کہ وہ اب پاکستان سے فارغ ہوچکے ہیں۔
اب اس جملے کو دو طرح سے لیا جاسکتا ہے کہ جیسے انہوںنے پاکستان میں دودھ کی نہریں بہادی ہیں ہرطرف خوشحالی ہی خوشحالی ہے لہذا اب میرا اگلہ ٹارگٹ آزاد کشمیر ہے جہاں سے وہ وزیراعظم بن کر پاکستان کی طرح ہر طرف خوشحالی کے ڈیرے ڈال دینگے،جو کہ ایک اعلیٰ درجے کی سوفسطانیت کے مترادف ہے، مگر ان سے کوئی پوچھے کہ وہ پاکستان سے فارغ ہوئے ہیں یا انہیں کرپشن کے بے شمار اسیکنڈلز کی بنیاد پر جبری فارغ کیا گیا ہے۔میں پوچھنا چاہوں کہ کیا اس ملک کی عوام اس بات کو نہیں سمجھ سکتی کہ جس شخص کوپاکستان کا تین مرتبہ وزیراعظم بننے کا شرف حاصل ہوچکاہواور وہ اپنے تینوں ادوار میں ایک بھی کام ایسا نہ کرسکا ہوں جو پاکستان اور اس کی عوام کے لیے فائدہ مند ہو ، اور ایسے آدمی کو پھر سے ملک کی ڈوبتی کشتی کا پٹوار تھمادیا جائے ؟کوئی بتائے کہ شریف خاندان کو ملنے والے تینوں ادوار میں ملک سے غربت کا خاتمہ ہوا،کیا مہنگائی اور بے روزگاری سے اس عوام کی جان چھٹ سکی ہے ؟کوئی بتائے اس ملک میں گزشتہ کئی سالوں سے جاری بدامنی اور لوٹ مار میں کا ذمہ دار کون ہے ؟۔سادہ سی بات ہے یا تو اس ملک کو تباہ کرنے میں اس ملک کے حکمرانوں کا ہاتھ ہے یا پھر اس ملک کی عوام نے خود ہی اپنے نشیمن کو آگ لگائی ہے۔
Haleem Adil Sheikh
تحریر : حلیم عادل شیخ سابق صوبائی وزیر ریلیف وکھیل 021.34302441,42 ۔ E:Mail.haleemadilsheikh@gmail.com