تھرپارکر (جیوڈیسک) صحرائے تھر کے ٹیلوں کے درمیان کرین مشینیں تیزی کے ساتھ ریت نکال رہی ہیں، جبکہ بڑے بڑے ڈمپر جن پر سرخ جھنڈے لگے ہیں اس ریت کو کچھ کلومیٹر دور ٹھکانے لگا رہے ہیں۔
یہ کان کن 16 میٹر کی گہرائی تک پہنچ چکے ہیں اور انھیں 160 میٹر زیر زمین کوئلے تک پہنچنا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ صحرائے تھر میں 175 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر واقع ہیں جن کو 12 بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان دنوں بلاک نمبر دو میں کان کنی اور بجلی گھروں کی تعمیر جاری ہے۔
سندھ اینگرو کول کمپنی کے جنرل مینجر آپریشن سید مرتضیٰ اظہر رضوی کا کہنا ہے کہ 160 میٹر کی تہہ تک پہنچنے کے لیے تین سال کا عرصہ درکار ہے۔ وہ کہتے ہیں ’تھر میں زیر زمین پانی کی تین سطح موجود ہیں ان میں سے سب سے زیادہ مقدار میں پانی تیسری سطح پر ہے، یہ واحد چیلنج ہے جو مختلف ہے، یہ پانی ہزاروں کیوسکس میں ہوگا جن کو درجن سے زائد پمپس کے ذریعے نکال کر ذخیرہ کیا جائے گا، بجلی گھر کی تعمیر کے بعد اس پانی کو صاف کرکے قابل استعمال بنایا جائے گا۔‘
اینگرو کے منصوبے سے تقریباً 28 کلومیٹر دور واقع گوڑانو گاؤں اور آس پاس کے لوگ ناراض ہیں۔ یہاں زمین ہموار ہے جبکہ چاروں اطراف ٹیلے واقع ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی اینگرو کمپنی کے ٹھیکیداروں سے جھڑپ بھی ہوچکی ہے لیکن پولیس کی موجودگی میں ڈمپر اور ٹریکٹر اپنے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
نوجوان بھیم راج کے مطابق اس علاقے میں دس کے قریب گاؤں ہیں جبکہ 2700 ایکڑ لوگوں کی ذاتی زمین ہے اینگرو یہاں زبردستی ڈیم بنانا چاہتی ہے، حالانکہ یہ علاقے کول ایریا میں بھی نہیں آتا اور نہ ہی انھیں الاٹ کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’لوگوں کے گزر بسر اور آمدنی کا وسیلہ صرف یہ زمین ہے، ہم نے انھیں دیگر مقامات بھی تجویز کیے ہیں لیکن وہ بضد ہیں کہ اسی مقام پر وہ کھارے پانی کی جھیل بنائیں گے۔‘
اینگرو کول کمپنی کے چیف آپریٹنگ افسر شمس الدین شیخ کا دعویٰ ہے کہ ایک ہزار ایکڑ پر پانی کا ذخیرہ بنایا جارہا ہے، دراصل لوگوں تک صحیح طریقے سے معلومات پہنچ نہیں پائی اس وجہ سے انھیں خدشات ہیں۔ ’جس طرح پہلے لوگوں کو معاوضہ دیا ہے اور انھیں آباد کیا جائے گا اسی طرح یہاں کے متاثرین کے لیے بھی وہ ہی پالیسی اختیار کی جائے گی۔‘
اینگرو کی جانب سے پہلے مرحلے میں سالانہ 38 لاکھ ٹن کوئلہ نکالا جائے گا جو 330 میگاواٹ کے دو بجلی گھروں کو چلانے کے لیے کافی ہوگا، دوسرے مرحلے میں یہ گنجائش 78 لاکھ ٹن سالانہ تک پہنچائی جائے گی جس سے مزید ایک 660 میگاواٹ کا بجلی گھر لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق تھر کے کوئلے میں گندھک کی بھی بڑی مقدار پائی جاتی ہے، جس کو جلانے سے بڑے پیمانے پر راکھ کا اخراج ہوگا۔ سندھ اینگرو کول کمپنی کے جنرل مینجر آپریشن سید مرتضیٰ اظہر رضوی کا کہنا ہے کہ عالمی بینک اور آئی ایف سی کے جو معیار ہیں ان کی پیروی کی جارہی ہے، راکھ کو فلٹر کرنے کے لیے ای ایس پی ٹیکنالوجی استعمال ہوگی بعد میں اس راکھ کو کسی مقام پر ڈمپ کریں گے۔
کوئلے منصوبے میں سڑکوں کی تعمیر اور کان کی کھدائی کے لیے بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی کی گئی ہے، مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ صحرا میں ایک پودے کو درخت کی شکل اختیار کرنے میں کئی برس لگ جاتے ہیں۔ سید مرتضیٰ اظہر رضوی کا کہنا ہے کہ انھوں نے حکومت سندھ کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ اگر وہ ایک درخت نکالیں گے تو اس کی جگہ پانچ درخت لگائیں گے۔
سلام کوٹ شہر سے قریب ایک مقام پر اینگرو کی جانب سے ایک گرین ہاوس قائم کیا گیا ہے، جہاں وعدے کے مطابق پودے لگائے گئے ہیں جن میں اکثریت غیر مقامی پودوں کی ہے، انھیں آر او پلانٹ کا پانی دیا جارہا ہے، جب ہم نے اس فارم کا دورہ کیا تو کئی پودے مرجھا چکے تھے۔
اینگرو اور حکومت سندھ کی شراکت داری سے زیر تعمیر بجلی گھروں کے منصوبے میں مرکزی کردار چائنا پاور انوسٹمنٹ کارپوریشن ادا کر رہی ہے، اینگرو کے زیر استعمال زمین میں دو بڑے گاؤں متاثر ہوں گے۔ جنرل مینجر ایڈمنسٹریشن فرحان انصاری کا کہنا ہے کہ کہ کمپنی کے منصوبے کی باؤنڈری پر ایک علاقہ مختص کیا ہے جہاں متاثرین کی آبادکاری کی جائے گی یہاں ایک کارپوریٹو ریسپانسبلٹی کمپلیکس بھی تعمیر ہوگا جس میں سکول اور ہسپتال موجود ہوں گے۔
کول ایریا کے علاوہ بھی آس پاس کے گاؤں اور زمینیں متاثر ہورہی ہیں، جہاں سڑکیں، پانی کے چھوٹے بڑے تلاب اور پائپ لائن بچھائی جا رہی لیکن ان متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی تاحال نہیں کی گئی تاہم اینگرو کمپنی کا دعویٰ ہے کہ انھیں ادائیگی ضرور ہوگی۔
ایک ایسے ہی متاثر جاوید سے بات ہوئی جس کی زمین پر اینگرو نے باڑ لگا دی ہے اور یہاں سے سڑک تعمیر ہو رہی ہے، جاوید کا کہنا ہے کہ ان کی زمین سے زبردستی سڑک نکالی گئی ہے۔ مقامی لوگوں کو شکایت ہے کہ ملازمتوں میں انھیں نظر انداز کیا جارہا ہے مستقل ملازمتوں کے بجائے ٹھیکیداری نظام کے ذریعے چھوٹی ملازمتیں دی گئی ہیں۔ سید مرتضیٰ اظہر رضوی کا کہنا ہے کہ اگر 300 سے زائد لوگ کام کر رہے ہیں تو ان میں جتنے بھی ڈمپر ڈرائیورز ہیں وہ مقامی ہیں۔
یہ منصوبہ اب پاکستان چین اقتصادی راہدری کا بھی حصہ بن چکا ہے، تھر میں بھی حکام لوگوں کو یہ کہہ کر خاموش کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ چینی کر رہے ہیں اور یہ منصوبہ قومی مفاد میں ہے۔