اسلام آباد (جیوڈیسک) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی نے سیپکول اور جاپان پاور سے بجلی نہ خریدنے اور قومی خزانے کو21 ارب روپے نقصان پہنچانے کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے آج (منگل کو) ایم ڈی پرائیویٹ پاور انفرا اسٹرکچر بورڈ اور وزارت پانی و بجلی کے حکام کو طلب کر لیا ہے۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق رائے ونڈ میں واقع سیپکول اور جاپان پاورسے 230 میگا واٹ سستی بجلی نہ خریدنے سے ماہانہ ایک ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے، سیپکول اور جاپان پاور سے8 روپے 50پیسے فی یونٹ کی بجائے ہائی اسپیڈ ڈیزل پر چلنے والے پلانٹس سے16روپے فی یونٹ اور نندی پور پاور پلانٹ سے 24 روپے یونٹ کے حساب سے بجلی خریدی جارہی ہے جس کے باعث قومی خزانے کو 21 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔
حیران کن امر یہ کہ حکومت ریشماں اور گلف رینٹل پاور پلانٹس سے ٹیک اینڈ پے کی بنیاد پر مہنگی بجلی خریدنے کیلیے تیار ہے مگر سستی بجلی خریدنے سے انکار کیا جا رہا ہے، رینٹل پاور پلانٹس کے مقابلے میں جاپان اور سیپکول پاور پلانٹ سے ماہانہ 14 کروڑ یونٹ سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جس کی قیمت دیگر پلانٹس کے مقابلے میں5 روپے سے16روپے فی یونٹ کم ہوگی، ان پلانٹس سے پیدا ہونے والی بجلی سے 9 لاکھ گھریلو صارفین استفادہ کر سکتے ہیں، یہی نہیں بلکہ آئی پی پیز کے علاوہ تقسیم کار کمپنیاں پنجاب اور سندھ میںکیپٹو پاور پلانٹس سے بھی مہنگی بجلی خرید رہی ہیں۔
سیپکول اور جاپان پاور کمپنی کی جانب سے این ٹی ڈی سی کو تجویز دی گئی کہ ٹیرف کے معاملات کو5 سال کیلیے فریز کر دیں اور ٹیک اینڈ پے کی بنیاد پر ان پلانٹس سے سستی بجلی خرید لیں مگر وزارت پانی وبجلی تیار نہیں ، قائمہ کمیٹی کے جاری ہونے والے ایجنڈے کے مطابق سرکاری حکام کے ساتھ سیپکول اور جاپان پاور انتظامیہ کو بھی آج (منگل کو) اجلاس میں شرکت کرنے کا نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔