تحریر : طارق حسین بٹ شان یہ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ طاقتور حلقے سدا اپنی برتری کے زعم کا ڈنکا بجاتے رہتے ہیں اور اس بات کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ ان کی ذاتی برتری کے سامنے کوئی نہ سر اٹھا کر چلے ۔یہ بات قوموں کی شکل میں بھی اور افراد کی شکل میں یکساں لاگو ہوتی ہے۔ ہم اپنی کھلی آنکھوں سے رو ز اس طرح کے مظاہر دیکھتے رہتے ہیں اور برتری کے زعم کو ایک اٹل سچائی کی شکل میں دیکھتے رہتے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے طاقت ور کمزوروں کو دباتے رہتے ہیں اور کمزوروں کے پاس سر نگوں ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔اقبال نے شائد اسی لئے کہا تھا کہ (ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات)۔ دور کیوں جاتے ہیں بھارت کو دیکھ لیجئے اس نے اپنے سارے ہمسائیوں کو ڈرا دھمکا کر اپنی برتری کی چھتری تلے دبوچا ہوا ہے۔
ایسے لگتا ہے کہ علاقے کے سارے ممالک بھارتی بالا دستی کے شکنجے میں کسے ہوئے ہیں اور انھیں آہ تک بھی کرنے کی اجازت نہیں ۔وہ کسی بھی حالت میں بھارت کے خلاف لب کشائی کی جرات نہیں کرسکتے بلکہ الٹا بھارت کی عظمت و بڑائی پر رطب اللسان رہتے ہیں کیونکہ اسی میں ان کی عافیت ہوتی ہے۔سائوتھ ایشیا کے یہ مخصوص ممالک بھارت کی طفیلی ریاستیں گردانی جاتی ہیں۔ اگر ہم غور سے صورتِ حال کا تجزیہ کریں تو ہمیں یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ان ممالک نے کبھی بھی سائوتھ ایشیا کی سیاسی اور فوجی صورتِ حال پر زبان نہیں کھولی۔ایسے لگتا ہے کہ انھوں نے خاموشی کی چادر اوڑ رکھی ہے اور وہ بھارت سے اس قدر خائف ہیں کہ اہم ترین واقعات پر بھی خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ان کے بیانات سے بھارت کے خفا ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔
عالمی سیاست میں بھی بھارتی ہمسائیوں کی کہیں کوئی آواز سنائی نہیں دیتی اور نہ ہی ان کے کہیں نقوش نظر آتے ہیں کیونکہ انھوں نے دل سے بھارتی بالا دستی کو تسلیم کیا ہوا ہے ۔چھوٹے ممالک کو تو چھوڑئیے بنگلہ دیش جیسا بڑا ملک بھی بھارتی بالا دستی کے ترانے گاتا رہتا ہے۔یہ سچ ہے کہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد پاکستان کے خلاف زہر اگلنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتیں اور بھارت کی بلا جواز حمائت کرنے میں کسی بھی لیت و لعل سے کام نہیں لیتیں لیکن جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو وہ اب بھی پاکستان سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔اگر کسی نے اس کا مظاہرہ دیکھنا ہو تو وہ پاکستانی میچ میں بنگالیوں کی محبت کا کھلا انداز ملاخطہ کر سکتا ہے۔ خاص کر بھارت کے خلاف میچ میں بنگالی دل و جان سے پاکستان کی فتح کی دعائیں مانگتے ہیں حالانکہ ان کی وزیرِ اعظم کا دل بھارت کی فتح کے لئے مچل رہا ہوتا ہے۔
انھیں یہ بھی خبر ہوتی ہے کہ ان کی وزیرِ اعظم اس طرح کے اظہار سے رنجیدہ اور ناراض ہو جاتی ہیں لیکن وہ پھر بھی اپنی محبت کو نہیں چھپاتے۔در اصل پاکستان اور بنگلہ دیش میں اسلام کی قدرِ مشترک دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لے آتی ہے ۔ ١٩٧١ کا المیہ اور اس المیہ سے جنم لینے والے تحفظات اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہیں لیکن جب بھی سوال ہندو ازم اور اسلام کا آ جا تا ہے تو پھر بنگالی ہندوئوں کے مقابلے میں اپنے مسلم بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو جاتے ہیں۔اس طرح کے رویوں کا اظہار پاکستانی بھی بنگلہ دیش کی ٹیم کی حمائت کر کے کرتے ہیں ۔ اسلام کا یہ رشتہ بے شمار تحفظات ،تکالیف اور زخموں کے ابھی تک زندہ ہے کیونکہ یہ ایک ایسی اساس ہے جسے کوئی بھی منہدم نہیں کر سکتا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنوانے میں بھارت کا کردار شرمناک تھا۔جس کا اقراربھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے پچھے سال بھی کیا تھا اور اس پر بڑے فخریہ انداز میں اپنی گردن اونچی کی تھی حالانکہ ایسا کرنا عالمی قوانین کی سرا سر خلاف ورزی تھی۔ بھارت نے اپنے جاسوس مشرقی پاکستان میں ہر طرف چھوڑے ہوئے تھے جو پاکستان کے خلاف عوام کو گمراہ کرتے رہتے تھے۔اگر چہ اس زمانے میں میڈیا اس طرح آزاد نہیں تھا لیکن پھر بھی بھارت نے منفی پراپیگنڈہ کا بھر پور استعمال کر کے نفرتوں کا زہر پھلانے میں کوئی دقیقہ فرا موش نہیں کیا تھا۔
East Pakistan
سادہ لوح بنگالی بھارتی پروپیگنڈہ کا شکار ہو گئے جسے سیاست دانوں نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور یوںایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے موتی مالا کے ٹوٹ جانے سے ایک دوسرے سے ہمیشہ کیلئے علیحدہ ہو گئے۔حد تو یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مغربی پاکستان کی بالا دستی کے خلاف متحد ہوگئیں ۔مولانا عبدالحمید بھاشانی اورشیخ مجیب الرحمان نے بھارتی عزائم کو حقیقت میں بدلنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔مسلم لیگ پہلے ہی اپنی افادیت کھو چکی تھی، جماعت اسلامی بے اثر ہو چکی تھی جبکہ پیپلز پارٹی کا وہاں پر کوئی وجود ہی نہیں تھا لہذا ہر طرف شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ ہی چھائی ہوئی تھی جس کا برملا اظہار انتخابی نتائج میں دیکھا گیا۔،۔
اس یں کوئی شک نہیں کہ فوجی مارشل لائوں نے قومی یکجہتی،اتحاد اور استحکام کو بری طرح سے متاثر کیا جس کی وجہ سے بنگالی عوامی لیگ کے قریب تر ہونے لگے۔جنرل محمد ایوب خان کے مارشل لاء نے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان دوریوں کی خلیج کو گہرا کرنے میں اہم کردارا دا کیا جو بالآخر پاکستان کے دو لخت ہونے کی بنیاد بن گیا۔مشرقی پاکستان کے لوگوں نے قائدِ اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں تخلیقِ پاکستان کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا،اسے اپنے خون سے توانائی بخشی تھی اور بے شمار قربانیاں دی تھیں اس کے پیشِ نظر ان کیلئے مارشل لائوں کا ساتھ دینا ممکن نہیں تھا۔ان کے احتجاج کا نتیجہ یہ نکلا کہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ جنرل ایوب خان کی فوجی حکومت مغربی پاکستان تک محدود ہو تی چلی گئی اور مشرقی پاکستان کی نمائندگی برائے نام رہ گئی۔یہی وہ مقام تھا جہاں پر بنگالی ایک علیحدہ مملکت کے قیام کی سوچ کی جانب بڑھنے لگے۔
جنرل ایوب خان کی فوجی حکومت بنگالیوں کے احتجاج کو غیر سنجیدہ لیتی رہی اور اس احتجاج کو گرفتاریوں اور تشدد سے دبانے کے جتن کرتی رہی۔شیخ مجیب الرحمان کے خلاف اگرتلہ سازش کیس کو غیر سنجیدہ انداز میں چلا یا گیا اور پھر ستم بالائے ستم اس کیس کی عدالتی کاروائی مغربی پاکستان میں شروع کر دی گئی جسے بنگالیوں نے اپنے خلاف ایک سازش قرار دے دیا۔مغربی پاکستان میں عدالتی کاروائی بنگالیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھی۔اگر تلہ سازش کیس نے شیخ مجیب الرحمان کیلئے مقبولیت کے نئے دروازے کھول دئیے ۔بھارت اس ساری صورتِ حال کا گہری نظر سے جائزہ لے رہا تھا لہذا وہ شیخ مجیب الرحمان کی پیٹھ ٹھونکنے لگا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ چھ نکات کی تیاری میں بھارتی حکومت ملوث تھی لہذا شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات پر جنرل یحی خان کو عوامی لیگ کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دینی چائیے تھی لیکن حکومت نے ایسا کرنے کی بجائے اسے کھلا میدان دے دیا جس سے ساری بازی ہی پلٹ گئی ۔بھارت تو یہی چاہتا تھا کہ اس کے گھوڑے کو کھلا میدان ملے اور جنرل یحی خان نے بلا سوچے سمجھے کھلا میدان دے دیا ۔ اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر بھارت نے پانی کی طرح پیسہ بہایا اور نفرتوں کی ایسی آگ جلائی جس نے پاکستان کی بنیادوں کو جلا کر راکھ کر دیا۔
جنرل یحی خان کے اپنے سیاسی عزائم تھے لہذا وہ اپنے تئیں یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ عوامی لیگ سے کوئی نہ کوئی سمجھوتہ کر کے اقتدار میں رہنے کی کوئی نہ کوئی راہ نکال لیں گے لیکن دسمبر ١٩٧٠ کے نتائج نے سارے منصو بوں پر پانی پھر دیا۔مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی تاریخی فتح سب کچھ بہا کر لے گئی جبکہ مغربی پاکستان میں پاپی پی پی نے سارے برج الٹ دئے جس سے جنرل یحی خان کے منصوبے خاک میں مل گئے ۔یہی وہ مقام تھا جہاں بھارت نے چھ نکات کی بنیاد پر ایک علیحدہ مملکت کے قیام کے نعروں کو ہوا دینا شروع کر دی۔فوجی حکومت کی اقتدار سے دست بردار نہ ہونے کی ضد اور سیاسی جماعتوں کی کسی سمجھوتے پر نہ پہنچنے کی ناکامی بنگلہ دیش کے قیام کا جواز بنی ۔بھارت کی شیخ مجیب الرحمان سے پہلے ہی انڈر سٹینڈنگ تھی لہذا مارچ ١٩٧١ کو فوجی اپریشن کے بعد مکتی باہنی حرکت میں آ گئی اور یوں وہ جنگ شروع ہوئی جو بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوئی۔کئی دہائیوں کے بعد بھارت اسی تاریخ کو دہراکر پاکستان کے حصے بخرے کرنا چاہتا ہے لیکن وہ بھول جاتا ہے کہ اب ملک میں کوئی شیخ مجیب الرحمان نہیں اور پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے۔،۔