تحریر : علی رضا 20 اپریل کے دن کا لوگوں کو بڑی شدت سے انتظار تھا ہر چینل پر ٹائمنگ لگی ہوئی تھی کہ پانامہ لیکس کے فیصلے کے لیے اتنا ٹائم باقی ہے اتنے گھنٹے باقی ہیں۔پانامہ لیکس کے فیصلے پر صرف سیاسی پارٹیوں کی نہیں بلکہ پوری قوم کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ 20 اپریل کا لوگوں کو شدت سے اس لیے بھی انتظار تھا کہ عدالت نے اپنا فیصلہ 56 دن تک محفوظ رکھنے کے بعد سنانا تھا۔دو بھی بج گئے سب لوگ 2بجے ٹی وی کے آگے بیٹھ گئے پانامہ لیکس کا فیصلہ کوئی عام فیصلہ نہیں تھا۔20 اپریل بھی آگیا دو بھی بج گئے لیکن پانامہ لیکس کا مکمل فیصلہ نہیں آیا۔پانامہ کا ہنگامہ اب بھی برقرار ہے۔پانامہ کا فیصلہ ابھی مکمل نہیں آیا لیکن کامیابی کی مٹھائیاں اور جشن سمجھ سے باہر ہے۔
فیصلہ آتے ہی ن لیگ کی طرف مٹھائیاں تقسیم ہونے لگ گئی مجھے اس وقت ہنسی آئی ۔ابھی ن لیگ کی طرف سے مٹھائیاں تقسیم ہی ہورہی تھیں کہ دوسری طرف عمران خان اور تحریک انصاف کے قائدین منہ میں مٹھائی کھاتے ہوئے ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوئے۔پانچ سینئر ججز میں سے دو ججز جسٹس آصف کھوسہ اور جسٹس گلزار نے اختلافی نوٹ میں نواز شریف کا نا اہل قرار دیا جب کہ باقی تین ججز نے مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا ہے۔پانامہ لیکس کے فیصلے کے لیے مزید 60دن تک انتظار کرنا ہوگا۔پھر اس فیصلے سے پتا چلے گا کہ کیا نواز شریف مکمل طور پر نااہل ہو گئے ہیں یا نہیں۔جو لوگ سمجھ رہے ہیں کہ پانامہ کے فیصلے کے بعد نواز شریف بچ گئے ہیں یا اس پر لگائے گئے الزامات غلط ہو گئے ہیں تو یہ غلط ہے کیونکہ فیصلے کے لیے ابھی فیصلہ باقی ہے۔عدالت کے اس فیصلے کے بعد مسلم لیگ ن پر سوالات کا بوجھ زیادہ ہے۔میاں صاحب کو ججز کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کا جواب لازمی دینا ہوگا کہ گلف سٹیل کیسے بنی؟اربوں روپیہ کہاں سے آیا؟ آف شور کمپنیوں کا مالک کون ہے؟ کم عمر بچوں نے لندن فلیٹس کیسے خریدے؟ملز کے واجبات کیسے ادا ہوئے؟رقم کیسے قطر گئی؟نیلسن اور نیسکول کمپنیوں سے عدالت مطمئن نہیں ہے۔ اگر جے آئی ٹی کے سامنے مسلم لیگ ن واضح ثبوت پیش نہیں کر سکی تو میاں صاحب کی وزارت گئی اور وہ نااہل قراد دئیے جائیں گے۔شریف فیملی کو جے آئی ٹی کے آگے ثبوت پیش کرنے ہوں گے۔
دو معزز سینئر ججز نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا اور اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ نواز شریف اپنے مالی معاملات اور لند ن جائیداد کے بارے میں غلط بیان کے مرتکب ہوئے ہیں اس لیے نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے۔پانامہ لیکس میں میاں نواز شریف بددیانتی اور خیانت کے مرتکب ہوئے۔اور الیکشن کمیشن کو ہدایت جاری کی ہے کہ الیکشن کمیشن نواز شریف کو رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے نااہل قرار دے۔اور میاں صاحب کی ذمہ داری تھی کہ وہ لندن فلیٹس کے بارے میںملک و قوم کو صحیح حقائق سے آگاہ کرتے۔کسی ملک کی بڑی عدالت میں اگر ملک کے وزیراعظم کو بددیانت قرار دیا جائے تو میرا خیال میں اس کو اسی وقت اپنی وزارت چھوڑ دینی چاہیے۔نواز شریف سیاست میں کئی سالہ تجربہ رکھتے ہیں اور سیاست کے تجربہ کار کے لیے بڑی عدالت نے بددیانت قرار دیا ہے اس لیے انہیں سیاست سے کنارہ کرلینا چاہیے اور میرے خیال میں نواز شریف کا سیاسی کیرئیر اب ختم ہو چکا ہے۔اگر آپ سیاست نہیں چھوڑتے اور آپ پر لگائے گئے الزامات بھی غلط قرار ددیے جائیں تو بھی آپ پر داغ لگ گیا ہے۔
آپ 35سال سیاست کر چکے ہیں۔ایک داغ آپ کی پوری 35سالہ سیاست کا روند سکتا ہے۔آپ سیاست میں کافی تجربہ کار تو ہیں لیکن اب میرے خیال میں اب آپ سیاست کی کرسی چھوڑ کرکسی اور کے حوالے کر کے پیچھے ہٹ جائیں۔نواز شریف صاحب کوجے آئی ٹی کی تحقیقات سے پہلے پہلے اپنے عہدے سے الگ ہو جانا چاہیے۔اپوزیشن نواز شریف سے جے آئی ٹی کی تحقیقات تک استعفیٰ کا مطالبہ کررہی ہے۔اگر نواز شریف استعفیٰ دیتے ہیں تو اس سے اپوزیشن کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔بلکہ لوگوں کی نظر میں نواز شریف کی عزت پربڑھ جائے گی۔اب میرے خیال میں میاں نواز شریف کو خودبخود اپنے عہدے سے الگ ہو جانا چاہیے۔اگر نواز شریف اپنے عہدے سے الگ ہو جاتے ہیں تو لوگوں کے دلوں میں ان کی عزت کم نہیں ہوگی بلکہ لوگ اس کو اچھا محسوس کریں گے ہمارے وزیراعظم نے تحقیقات تک خود استعفیٰ دے دیا ہے۔الیکشن بھی قریب ہیں اور اگر میاں نواز شریف استعفیٰ نہیں دیتے تو الیکشن کے قریب آکر نااہل ہو جاتے ہیں تو نقصان مسلم لیگ ن کو اٹھانا پڑے گا۔
اس لیے میری نواز شریف کے لیے یہی رائے کہ کو وہ اپنے عہدے سے الگ ہو جائیں کیونکہ اقتدار تو آتی جاتی چیز ہے عزت ایک بار چلی جائے تو دوبارہ نہیں آتی۔اقتدار کی بجائے عزت بچائیں۔آپ وزیر اعلیٰ بھی بنے ہیں وزیر خزانہ بھی بنے ہیں اور اس ملک میں تین بار وزیر اعظم کا حلف بھی اٹھا چکے ہیں۔قدرت بار بار مواقع نہیں دیتی۔خدا کا شکر ادا کریں کہ 20کروڑ عوام میں سے آپ کو ملک کا وزیراعظم چنا۔خدا کا جتنا شکر ادا ہوتا ہے کریں اور اپنی عزت بچائیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو وزیر خزانہ بن کربھی موقع دیا وزیر اعلیٰ بھی بنایا اور وزیر اعظم بھی بنایا کہ عوام کی خدمت کریں۔ لیکن اب آپ کا سیاسی کیرئیر ختم ہو چکا ہے اور سیاست چھوڑ یں اور جتنی جلدی ہو جا سکے عزت بچائیں۔کیونکہ عزت نہیں رہی تو کچھ بھی نہیں رہے گا۔ہم اگر ماضی میں نظر دہرائیں تو دیکھ سکتے ہیں کئی لوگ آئے حکومت کی اور چلے گئے۔ ۔جنہوں نے اپنا اقتدار ملک و قوم کے لیے وقف کیا ملک و قوم کی خدمت کی تاریخ انہیں ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔اقتدار میں تو کئی لوگ آئے اور چلے گئے لیکن جنہوں نے لوگوں کے دلوں میں عزت پیدا کی وہ قوم کو ہمیشہ یاد رہتے ہیں ۔اگر آپ نے عزت کی بجائے اقتدار کو ترجیح دی تو لوگ آپ کی 35سالہ سیاست رد کر دیں گے اور آپ کے 35سالہ سیاست پر لگا داغ ساری زندگی کے لیے نہیں دھل سکے گا۔اس لیے اقتدار نہیں عزت بچائیں۔