تحریر : ایم پی خان تاریخ عالم ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے، کہ اقتدار کچھ لوگوں کے لئے باعث عزت بنا اور انکو تاریخ میں امر کر دیا جبکہ کچھ لوگوں کے لئے اقتدار حصول دولت اور مال و متاع کا ذریعہ تو بنا لیکن وہ تاریخ کے چورا ہے پر نشان عبرت بھی بنے۔حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی جیسی شخصیات نے بھی اقتدار میں آ کر خلفائے راشدین جیسا ٹائٹل اپنے نام کر دیا۔ اسلامی نظام حکومت کایہ زریں دور مسلمانوں کے لئے ایک نمونہ ہے۔
طرز حکمرانی، خدمت خلق، خوف خدا،احساس ذمہ داری اورملکی خزانے کی حفاظت کے جذبے سے سرشاربادشاہ کی ذاتی زندگی سادگی اورقناعت کانمونہ تھی۔جنہوں نے اپنی کسی شرعی ضرورت کے لئے بھی سرکاری خزانے کو استعمال نہیں کیا۔ حضرت عمرفاروق ایک دفعہ کسی سرکاری دورے پر شام جاتے ہیں توایک غلام ساتھ ہیں اورایک اونٹ بطورسواری استعمال کرتے ہیں، جس پر خلیفہ وقت اورغلام باری باری بیٹھ کر سفرکرتے ہیں۔ایسے حکمران ،جن سے ایک عام شہری یہ سوال کرسکتاہے کہ تما م لوگوں کوایک ایک چادرملی ہے اورانکودوچادرکیوں ملی ہیںجبکہ ایک چادرسے پورے کپڑے نہیں بن سکتے۔انہو ں نے اپنے آپکو ہروقت عوام کے سامنے احتساب کے لئے پیش کیاتھاکیونکہ انہیں ہروقت خوف الٰہی دامن گیررہتاتھااورانہیں اس بات کاقوی یقین تھاکہ انہیں کسی نہ کسی دن اللہ کے سامنے احتساب دیناہی ہے۔اسی خوف خدا کے سبب عمربن عبدالعزیز جیسی شخصیت نے اپنے بچوں کوعیدکے پرمسرت موقع پر پرانے کپڑے پہننے اوراللہ کی یاداورعبادت میں عید گزارنے کی ترغیب دی اورجب بیٹیوں کے گھرجاتاہے توبیٹیاں دوپٹوں سے اپنے منہ چھپاتی ہیں کیونکہ عیدکے دن انہوں نے پیازکھایاتھااورچاربراعظموں پر حکمرانی کرنیوالے بادشاہ کی بیٹیوں کے گھرمیں عید کے دن کھانے کے لئے پیازکے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے۔یہ بھی اقتدارتھا ، جس میں حکمرانوں کو کسی چیز کی طلب نہ تھی، دولت کی نہ عزت کی ، لیکن پھربھی انکو نہ ختم ہونے والی عزت ملی اورتاریخ کے اوراق میں انکے نام ہمیشہ کے لئے امر ہو گئے۔
تاریخ کے پراسرارافق پر ایسے بے شمارچہرے بھی نمودار ہوئے، جنہوں نے اقتدار کے حصول کے لئے ہر جائز اورناجائز حربہ استعمال کیا، یہاں تک کہ خونِ ناحق سے بھی گریز نہیں کیااورکسی نہ کسی طرح اقتدار کو حاصل کرکے دولت اورطاقت کے نشے میں ایسے مدہوش ہوئے کہ سب کچھ بھول گئے ۔ انہیں رعایاکے دکھ دردکاکچھ احساس نہیں ہوا اور سرکاری خزانے کواپنی ذاتی ملکیت سمجھ کرصر ف اورصرف اپنے آپکو ، اپنی اولاد اورعزیزواقرباکو مالامال کرنے کیلئے دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ایسے لوگوں کو عزت کی کچھ پروانہیں رہی اورصرف دولت کا حصول اوراندرون ملک اوربیرون ملک اثاثے بناناانہوں نے اپنا مقصد بنایا۔ بے شک ایسے لوگوں کو دولت تو ملی لیکن وہ ہمیشہ کے لئے عزت سے محروم رہے۔پھرتاریخ ایسے لمحات بھی دکھاتی ہے کہ ناجائز طریقے سے بنائی ہوئی دولت زیادہ دیر تک کسی کاساتھ نہیں دیتی اورزندگی کے ایسے موڑ پر انسان کوتن تنہاچھوڑدیتی ہے، جب اسے اسکی ضرورت ہوتی ہے۔کاش ہمارے حکمران کچھ تواپنی تاریخ کامطالعہ کرتے توان پر ایسے حقائق منکشف ہوجاتے ، جوانکی زندگی بدلنے کے لئے کافی تھے۔شیخ سعدی صاحب فرماتے ہیں۔
قارون ہلاک شدکہ چہل خانہ گنج داشت نوشیروان نہ مردکہ نام نکو گذاشت
یعنی قارون ، جنکے پاس مال دولت اورزروجواہرکے چالیس خرانے موجودتھے، ایساہلاک ہواکہ ان کانام ونشان باقی نہیں رہاجبکہ نوشیران مرنے کے بعدبھی زندہ رہاکیونکہ وہ نیک تھا۔ موجودہ دورمیں جن قوموں کے حکمرانوں نے عدل وانصاف پر مبنی نظام حکومت تشکیل دیاہے اوراپنی ذاتی زندگی پر قوم کی زندگی کو ترجیح دیکر صحیح معنوں میں عوام کی خدمت کی ہے ، انہیں اللہ نے دنیامیں وہ مقام عطا کیاہے،جورہتی دنیاتک یادرہے گا۔ایسے ممالک میں عوام کی زندگی کامعیاربہت اونچاہوتاہے اورباوجوداسلامی نظام حکومت نہ ہونے کے ، اللہ نے انکے لئے اپنے خزانے کھول دئے ہیں۔دنیاکے ترقی یافتہ اورخوشحال ممالک میں حکمرانوں کایہی طرزعمل ہی انکی خوشحالی کارازہے۔جہاں عوام کو زندگی کے تمام وسائل حکومت ہی فراہم کرتی ہے۔ایسے ہی حکمران اپنے ملک میں عدل قائم کرتے ہیں۔وہ خودکوعوام کاخادم سمجھتے ہیں اورسرکاری وسائل کو اپناحق نہیں سمجھتے بلکہ سرکاری خرانے کوقوم کی دولت سمجھتے ہیںاوراپنے عوام میں وسائل کامنصفانہ تقسیم کرتے ہیں۔ایسے حکمران ہروقت ایک ایک پیسے کاحساب دینے کے لئے تیارہوتے ہیں۔تاریخ میںایسے ہی لوگ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔انہیں عزت ملتی ہے اورانکے بعدانکی اولاد بھی عزت اوردولت سے مالا مال رہتی ہے۔
کاش ہمارے حکمرانوں کو بھی اس بات کااحساس ہوجائے کہ انہیں اللہ نے جومقا م دیا ہے، وہ اسکی قدر کرے۔اقتدارکے حصول کے لئے ہمیشہ جائز ذرائع استعمال کرے اور قومی دولت کو عوام کی امانت سمجھ کرانکے فلاح و بہبود کے لئے خرچ کرے۔اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرے، انہیں نیک اور ایمانداربنائے تاکہ انکے اندر بھی صحیح معنوں میں قوم اور ملک کی خدمت کا جذبہ پیدا ہو۔