مرشد کو”بشارت”ہوگئی کہ اِسی ماہ میں جمہوریت کا جنازہ بڑی دھوم سے نکلنے والا ہے۔ یہ ابھی مرشد نے طے نہیں کیا کہ میاں برادران کو پاکستان میں رہنے کی اجازت ہو گی یا پھر انہیں دوبارہ جلاوطن کر دیا جائے گا۔ یوں توہم پہلے ہی جانتے تھے کہ کچھ غیبی قوتیں مرشد کے ساتھ ہیں لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ وہ اتنی طاقتور بھی ہیںک ہ 20 کروڑ عوام کے منتخب نمائندوں کو یوں پلک جھپکتے گھر بھی بھیج سکتی ہیں۔ مرشد نے اگر کہا ہے تو پھر ٹھیک ہی کہا ہو گا کہ ماہِ اگست میں حکومت کو گھر بھیج دیا جائے گا۔یہ بھی اُن کی مہربانی ہے کہ اُنہوں نے حکومت کو بستر بوریا سمیٹنے کے لیے بیس پچیس دِن کی مہلت دے دی وگرنہ وہ تو دوگھنٹے میںبھی انقلاب لا سکتے ہیں۔
مُرشد شاید فی الحال اپنے ”جلال”کو آوازنہ دیتے لیکن ان کے اندر دھڑکتا نرم ونازک دِل قوم کی حالتِ زار پر رو روکر حکمرانوں سے”اوازار”ہوچکا ہے اِس لیے اُنہیں طو ہاََ وکرہاََ اپنے جلال کو آواز دینی پڑی۔ وہ چونکہ بہت”احسان سپاس”بھی ہیں اور ابھی تک میاں برادران کے ماضی میں کیے گئے احسانات نہیں بھولے۔ اسی لیے اُنہوں نے کہہ دیا کہ اب جبکہ حکومت کا جانا ٹھہرگیا تو میاں برادران خود فیصلہ کرلیں کہ پہلے وزیرِ اعظم استعفیٰ دیں گے یا پھر پہلے وزیرِاعلیٰ کو گھر بھیجنا پڑے گا۔
شیخ الاسلام نے چودھری برادران اور شیخ رشید کے ساتھ مل کر فیصلہ تویہی کیا تھا کہ وہ اپنے مریدین کو ساتھ لے کر 12 اگست کوہی ڈی چوک جا کرہلّا گُلا کریں گے اور عمران خاں صاحب 14 اگست کواپنی سونامی کے ساتھ اُن سے آن ملیں گے۔ وجہ یہ تھی کہ مُرشد کے مریدین توڈی چوک پر مہینوں بیٹھ سکتے ہیں کیونکہ اُن میں کچھ تو دیہاڑی دار مزدور ہوتے ہیں جن کا ہم پر کوئی احسان نہیں، کچھ مُرشد کے سکولوں کے اساتذہ اور اُن کے خاندان جنہیں اپنی نوکریاں عزیز ہوتی ہیں اور کچھ عقیدتوں بھرے مریدین جبکہ”بَرگر فیملیز”سے تعلق رکھنے والے سونامیے تو دو چار گھنٹوں میں ہی”اوازار” ہوجاتے ہیں اِس لیے دھرنے میںرنگ بھرنے کے لیے ضروری ہے کہ مُرشد مع اپنے مریدین پہلے ہی ڈی چوک جاکر بیٹھ رہیں۔
لیکن اُسی رات اُنہیں خواب میں”بشارت”ہوئی کہ فی الحال ڈی چوک جانا مناسب نہیں اِس لیے اگلے دِن اُنہوں نے 10 اگست کو لاہور میں ہی یومِ شہداء منانے کا اعلان کردیا اورچودھری برادران جوایک دِن پہلے قہقہے لگا لگا کر صحافیوں کے ہرسوال کے جواب میںیہ کہہ رہے تھے کہ”کل بتائیں گے”وہ اپنا سا مُنہ لے کررہ گئے۔ آخری خبریںآنے تک یہ پتہ نہیں چل سکاکہ مُرشد 10 اگست کوہی حکومت کو گھر بھیجنے والے ہیں یا پھر 31 اگست تک کا انتظار کریں گے۔ اگر مُرشد کی”جلالی طبیعت”کو مدِنظر رکھا جائے تو 10 اگست کو ہی”حکومت تو گئی”لیکن اگراُن کے دِل کی”نازکی”مدِ نظر ہوتو پھر 31 اگست تک۔بعض سونامیے کہتے ہیں کہ شیخ الاسلام نے کپتان صاحب کے ساتھ دوخفیہ ملاقاتوں میں پکا وعدہ کیا تھا کہ وہ لانگ مارچ کا بھر پور ساتھ دیںگے لیکن اب وہ یوٹرن لے کر نواز لیگ کے ساتھ مل گئے ہیں لیکن ہم کہتے ہیں کہ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کیونکہ اُنہوں نے تو خُدا کی قسم اُٹھا کر کہا ہے۔
کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے 16 شُہداء کی جانوں کا بدلہ 16 حکومتی کارندوں سے لیں گے جِن میں وزیرِ اعظم اور پنجاب کے وزیرِاعلیٰ بھی شامل ہیں۔ اِس لیے یہ تو سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ مُرشد کی”اندر کھاتے”نواز لیگ سے کوئی ڈیل ہو گئی ہو گی البتہ یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ مُرشد کو یہ”بشارت”ہوئی ہو کہ میاں برادران توگئے اور اب اُن کی راہ کا اصل”روڑا”تو عمران خاں ہے اِس لیے خاں صاحب کے ہاتھ مضبوط کرنا سراسر گھاٹے کا سَودا ہے اور یہ جو شیخ رشید اور چودھری برادران اُنہیں عمران خاں کے ساتھ مِل جانے کے مشورے دے رہے ہیں وہ دراصل حبِ علی نہیں بغضِ معاویہ ہے۔
اب یہ تو پتہ نہیں کہ چودھری برادران اور شیخ رشید کِس طرف لڑھکتے ہیں لیکن جہاں تک ہمارا تعلق ہے، ہم بیچ چورا ہے کھڑے دیکھو اور انتظار کروکی پالیسی پرعمل پیرا ہیں۔ جِس کا پلڑا بھاری نظرآیا،اُسی کی طرف”لڑھک”جائیں گے کیونکہ کامیاب صحافت اسی کا نام ہے۔
Government Of Pakistan
مُرشد نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر حکومت نے یومِ شہداء کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی تو پھر”دما دَم مست قلندر۔ پھر یومِ شُہداء جاتی عمرا میں بیٹھ کر منایا جائے گا۔ مُرشد کے اسی بیان سے ہم نے اندازہ لگایا تھا کہ 10 اگست کو حکومت تو گئی۔ اِس ارسطوانہ اندازے کی وجہ یہ ہے کہ رانا ثناء اللہ کی عدم موجودگی کے باوجود خادمِ اعلیٰ مُرشد کو سیدھے ہاتھوں تو مُرشد کو یومِ شہداء منانے نہیں دیں گے اِس لیے جاتی عمرا جا کر یومِ شُہداء منانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن سے سبق حاصل کرتے ہوئے حکومت نے ہمیں فری ہینڈدے دیا توہم خودسانحہ ماڈل ٹاؤن جیسا کوئی”ڈرامہ”رچا کر حکومت کو چلتا کریں گے کیونکہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔
ویسے بھی مُرشدیہ جو باہر سے ڈھیروں ڈھیر سرمایہ لے کرآئے ہیں اُسے کہیں تو صرف کرنا ہی ہوگا۔ اگر ایسا نہ کیا تو بیرونی دوستوں کی ناراضی کا شدید خطرہ ہے۔ ویسے میاں برادران بھی”اندر کھاتے”خوش ہی ہونگے کہ اُنکے”روٹھے مُرشد”بنفسِ نفیس جاتی عمرا تشریف لا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ مُرشد جاتی عمرا میں بھی منہاج القُرآن کی ایک شاخ کھولنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ میاں برادران اگر مرشد کو ماڈل ٹاؤن میں منہاج القرآن کے لیے لمبی چوڑی زمین کا تحفہ دے سکتے ہیں تو جاتی عمرا میں بھی دے ہی دیں گے کیونکہ وہ اِس قسم کے”با برکت”کام بہت شوق سے کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو بڑے میاں صاحب کو ایک دفعہ پھر شیخ الاسلام کو اپنے کندھوں پربٹھا کر غارِ حرا تک لے جانے کی سعادت نصیب ہو سکتی ہے لیکن اگر اِس کا موقع نہ ملا تو پھر بھی چھوٹے میاں صاحب کو تو مُرشد کے جوتے اتارنے اور پہنانے کی سعادت باربار نصیب ہوتی رہے گی۔
حکومت کا کیا ہے،وہ تو آنی جانی شٔے ہے،اگر میاں برادران کے پاس نہیں تو مُرشد کے پاس سہی، رہے گی تو گھر میں ہی۔ اور وہ جو خورشید شاہ صاحب باربار کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کسی صورت حکومت کو گرنے نہیں دے گی، وہ تو بَس”ایویں ای”مُنہ کا سواد بدلنے کے لیے کہتے ہیں۔ شاہ صاحب کے”اصلی تے وَڈے”لی ڈرآصف زرداری صاحب تو کچھ اور ہی کہتے ہیں اور”اندر و اندری”اپوزیشن لیڈروں سے ملاقاتیں کرکے اُنہیں”مفید”مشورے بھی دیتے رہتے ہیں۔ اُنہوں نے تو میاں نواز شریف صاحب کو بھی کہہ دیا کہ”وزیرِاعظم بَن، بادشاہ نہ بن”۔ چو مکھی لڑائی کے ماہر جناب آصف زرداری بھی ہماری طرح دیکھواورانتظار کروکی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔وہ بھی جِس کا پلڑا بھاری دیکھیں گے اُسی طرف لڑھک جائیں گے اور خورشید شاہ صاحب کو بھی مجبوراََ اُدھر ہی لڑھکنا ہوگا۔ ویسے پلڑا تو ہمیشہ ہمارے مُرشد کا ہی بھاری ہوتا ہے اِس لیے ہمیں پکا یقین ہے کہ”حکومت توگئی”۔۔۔۔اور اگر حکومت نہ گئی تو لِکھ کے رکھ لیجئے کہ”مُرشد تو کینیڈا گئے۔