تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید پاکستان ایک ایسی بستی ہے جہاں میرے رب کی رحمت طاقت کے سر چشموں پر کچھ زیادہ ہی برستی ہے۔کمزوروں کو میرے اللہ نے اپنے امتحانوں کے لئے منتخب کر لیا ہے۔جو روزی روٹی کی تلاش میں ہی اپنی زندگی تج دیتے ہیں۔طاقت کا راج ہر گلی ہرکوچے ہر محلے اور ہر بازار میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام قوانین بھی غریب کو ہی کو کنٹرول کرنے کے لئے مرتب کئے جاتے ہیں، اور طاقتوروں کو اس سے استثنیٰ دیا ہوا ہے۔بڑی معذرت کے ساتھ ہم سندھ حکومت کے محترم وزیر بلدیات و اطلاعات شرجیل انعام میمن سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ(ناجائز) انکروچ منٹس کو گرانے کا نہایت عمدہ کام انجام دے رہے ہیں جس کی ہر حال میں داد دینی چاہئے۔
آج کا آپکا اور ایڈ منسٹریٹر کے ایم سی،کراچی ثاقب احمد سومرو کا بیان قابلِ تحسین ہے۔آپ دونوں نے ہی شہرِ خونچکاںکے پارکس رفاحی پلاٹوں اور شہر کی دیگر غیر قانونی تعمیرات ختم کرنے کا نا صرف عزم کا اظہار کیا ہے بلکہ اس مہم کو تیز کرنے کا بھی عندیہ دے رہے ہیں۔مگر کیا آپ میں اور آپ کی حکومت میں اتنی طاقت ہے کہ طاقتور لوگوں کے انکروچ منٹس کو بھی گرا سکیں؟ہمارا خیال ہے کہ وہ انکرچ منٹس تو نہ گرائے جا سکیں گے مگر آپ کی حکومت کی طرف سے زیادہ زور لگا توآپ کی حکومت ان انکروچمنٹس کو گرانے میں خ نڈھال ہو کر گر سکتی ہے۔
Karachi
اس عروس و بلاد شہر کراچی میں پلاٹ و پانی کا دھنداسب سے زیادہ منفعت بخش ہے۔جس میں ہلدی لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا ہوتا کے مصداق۔ان لوگوں کی یہ اوپر کی کمائی نہ تو حکومت کے خزانے میں جاتی ہے اور نہ ہی کسی فلاحی مرکز پر صرف ہوتی ہے۔یہ صرف ان لوگوں کے گھروں کی زینت بنتی ہے ۔انکروچ منٹ گرانے کا سندھ حکومت کا یہ عمل اُس وقت مستحسن کہلائے گاجب تمام طاقتوروں پر اس کی عمل داری قائم کی جائے گی۔مگر جس بھِڑکے چھتے کا ہم ذکر کر رہے ہیں اُس میں ہاتھ ڈالنا کم از کم سندھ حکومت کے تو قطعئی بس کی بات ہے نہیں، اور حکومت سندھ پر ہی کیا موقوف خادمِ اعلیٰ محترم شہباز شریف بھی ہم سمجھتے ہیں اس کام کے کرنے کے اہل نہیں ہو سکتے ہیں،جن کی پورے پاکستان میں شفافیت کے حوالے سے بڑی ٹور ہے اور ظالموں غاصبوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
کراچی میں حکومت سندھ نے کئی انکروچمنٹس ایسی گرا دی ہیں۔ جن کو گرانا کوئی آسان کام نا تھا۔مگرپھر بھی ہم سمجھتے ہیں کہ بڑے خوف کے عالم میں یہ کام کیا جا رہا ہے۔اب ہم جس جانب اشارا کرنے والے ہیںوہ کوئی معمولی ٹاسک نہیں ہے۔کورنگی نمبر ڈھائی اور تین کے درمیان جنوب میں کمپری ہینسیو اسکول کی وسیع و عریض پلاٹ پر عمارت میں بھی اسکول کے بہت بڑے حصے پر طاقتور لوگوں کی رہائشی انکرچمنٹس باقاعدہ تعمیر کر لی گئی ہیں۔
Sindh Government
اس اسکول کے بالکل مد مقابل حکومت سندھ کاٹیکنیکل کالج ہے اور اسکی دیوار کے ساتھ ہی ایک وسیع پلاٹ پر گورنمنٹ گرلز کاکالج ہے۔ ان دونوں وسیع پلاٹوں کے ہر چہار جانب زبردست قسم کی کمرشل پٹی چائنا کٹنگ کے صورت میں کاٹ کر زبردست عمارتوں کی تعمیر مسلسل جاری ہے، اورگرلز کالج کے بالکل سامنے رینجرز نے قریباََ کم و بیش پندرہ عدد شادی ہالز اور ایک پیٹرول پمپ انکروچ منٹ کر کے قائم کر کے اپنی تنخواہوں کے علاوہ اپنی ”ہذا من فضلِ ربی“ روزی روٹی کا انتظام کیا ہواہے ۔کیا شرجیل میمن اور حکومت سندھ کے اندر اتناتپڑ ہے کہ وہ ان طاقتور لوگوں کے بھی انکروچ منٹس کا خاتمہ کر سکیں؟؟؟ہم دعوے کے ساتھ کہتے ہیں کہ وہ اور اُن کی حکومت یہ کام کر ہی نہیں سکتی ہے۔یہاں ہم سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم بھی شائد کامیاب نہ ہو سکیں۔مگر ڈی جی رینجرز یہ کام کرسکتے ہیں۔تاکہ ادارہ اپنی ساکھ بر قرار رکھ سکے۔
ایمانداری کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اس ضمن میں ڈی جی رینجرز بھی اس جانب توجہ کریں ۔تاکہ کسی کو انگلی اٹھانے کی ضرورت ہی پیش نہ آسکے۔ اس کے علاوہ اور بے شمار مقامات ہیں جہاں مختلف طاقت کے سر چشموں کی اجارہ داریاں قائم ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ سندھ کے شہروں میں حکومتی رِٹ کہیں دور تک نہیں ہے، اور کراچی تو ہے ہی بے چارے یتیموں کا شہر ۔ جس کا کوئی پرسانِ حال ہے اور نا کوئی ولی وارث ہے۔ جس کا جب اور جہاں دل چاہتا ہے، بغیر کسی خرید و فروخت کے بڑی بڑی اور قیمتی زمینوں کا مالک بن جاتا ہے۔کہیں غیر قانونی پلازے کھڑے ہیںکر لئے گئے ہیں تو کہیں لاکھوں روپے روزانہ کا بغیر سرمایہ کاری بزنس ہے۔ شادی ہال ایک ہفتے میں کروڑوں روپے ہلدی پھٹکری لگائے بغیر کما کر دے رہے ہیں۔جو مخصوص جیبوں کو بھررہے ہیں۔کوئی چیک اینڈ بیلنس کا نظام اس شہرِ بے کساں کی دھرتی پر ہے ہی نہیں ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم میں ایمانداری کا بے حدفقدان پیدا ہوچکا ہے ۔اس مملکتِ خدا داد کے باسیوں میں سے یمانداری تو جیسے اُچک لی گئی ہے۔
آج تومرا ہاتھی بھی سوا کروڑ کا ہے ۔مردہ ہاتھیوں نے کراچی کی سونے جیسی قیمتی 1616،ایکڑ زمین انکروچمنٹ کی غرض سے اونے پونے داموں بغیر کسی ڈاکومنٹیشن کے اپنی طاقت کے بل پر خرید کر لیز بھی کرالی ہے۔جس سے حکومت سندھ کو اربوں نہیں کھربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔بڑی عجیب بات یہ ہے کہ ساری زندگی حکومت کو لوٹنے والے مرتے مرتے بھی اپنی دولت جمع کرنے کی آخری خواہش کی تکمیل کے لئے دن رات کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ انہیں یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ ”سب ٹھاٹھ پڑا ہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا“
Shabbir Khurshid
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbir4khurshid@gmail.com