اقتدار اور حسب و نسب کے غرور میں ڈوبے ہمارے سابق حکمران حضرت آصف علی زرداری اپنے دور میں غریب قوم کے پیسوں سے اپنا ذاتی خزانہ بھرتے رہے اس بہتی گنگا میں ان کی بہن نے بھی ہاتھ دھوئے اور پاپ کا گھڑا بیچ چوراہے میں پھوٹا نیب کے شکنجے میں آگئے اور پیشیوں پر عدالت میں بہن کو بھی کرپشن و لوٹ مار کا حساب دینا پڑا اور پیشی کے موقع پر سابق صدر کو اپنی بہن کے آگے پولیس اہلکار کے آجانے سے سوئی غیرت جاگ اٹھی اور اس ڈیوٹی پر مامور اہلکار کو اپنی چھڑی مار دی پچھے ہٹو میری بہن آرہی ہے اور وہ پولیس والا سعادت مندی سے چھڑی کھا کر سائیڈ پر ہو گیا ۔یہ وہی پولیس ہے جس نے اس واقعے کے ایک روز قبل تھانے میں تشدد کے دوران ایک ذہنی مریض غریب آدمی کو اے ٹی ایم مشین سے کارڈ چرانے پر مار دیا تھا اگر یہ چھڑی آصف زرداری کی بجائے کسی غریب پاکستانی کی ہوتی اور کسی پولیس والے کو لگتی۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس ریاست مدینہ کے اس شہری کا اسکے محافظ کیا حال کرتے کہ اس کی نسلیں پولیس گردی کا شکار بن جاتی اور کوئی ان کو بچانے نہ آتا۔سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پنجاب پولیس کا ایک اہلکار آئی جی پنجاب کے پاس دادرسی کے لیے آنے والی ایک معمر خاتون سے بدسلوکی کر رہا ہے۔اس دوران مذکورہ پولیس اہلکار کو خاتون پر چیختے اور ان کی چھڑی اٹھا کر دور پھینکتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
وزیراعلی آفس نے لاہور پولیس کو اس اہلکار کے خلاف فوری کاروائی کرنے کی ہدایت کی ہے وزیراعلیٰ پنجاب کے احکامات کے بعد پولیس نے اے ایس آئی کو گرفتار کرلیا۔بوڑھی خاتون ایس ایچ او رائیونڈ کے خلاف آئی جی پنجاب کو شکایت کرنے آئی تھی۔ خاتون اپنے گھر پر قبضے کے خلاف ایس ایچ او کو شکایت کی لیکن داد رسی نہ ہوئی۔خاتون کی ایس ایچ او رائیونڈ نے بات نہ سنی تو وہ انصاف کے لیے آئی جی آفس پہنچ گئی، آئی جی آفس کے باہر دوسرے پیٹی بھائی اے ایس آئی آصف نے خاتون سے بدتمیزی کی اور دھمکیاں دیں خاتون بشیراں بی بی کے 3 مرلہ مکان پر ایس ایچ او نے قبضہ کر رکھا ہے، بشیراں بی بی کی عمر 80 سال ہے۔یہ چھڑی ایک ضیعف غریب عورت کی تھی جو داد رسی کے لئے آئی تھی اور پولیس حکمران و اعلیٰ و بااثر افراد کی چھڑیا ں تو قبول ہیں جن سے انہیں گزشتہ72 سالوں سے سدھایا جا رہا ہے اور اسی چھڑی سے پاکستانی قوم کو بھی بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکا جا رہا ہے۔
ہمارا ملک دراصل ایک پولیس سٹیٹ میں تبد یل ہو چکا ہے جہاں ان پولیس کے شیروں کو غریب کی چھڑی برداشت نہیں جو اس کے سہارے کے لئے ہوتی ہے ۔وزیر اعظم عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں پولیس میں اصلاحات کا وعدہ کیا تھا ۔آج ایک سال گزر چکا ہے باقی وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی ایفانہ ہو سکا۔اور پولیس دن بدن اور منہ زور ہوتی جارہی ہے کوئی اسے لگام دینے والا نہیں۔ بحیثیت قوم ہماری حالت اس دھوبی کے گدھے جیسی بنا دی گئی ہے جسے روز عزت سے جینے کی آرزو پر چھڑیاں پڑتی ہیں اور نئے پاکستان میں تو یہ معمول بن گیا ہے کسی قصبے میں ایک تاجودھوبی رہتا تھا جس کے پاس ایک مر یل سا گدھا تھا جس پر سوار ہو کر وہ ہر ہفتے قریب کے ایک قصبے میں جاتا اور وہاں کے لوگوں سے میلے کپڑوں کی گٹھڑیاں جمع کرکے لاتا۔ پھروہ گدھے پر سوار ہو کر کپڑوں کے ساتھ دریا پر جاتا اور وہاں پر وہ کپڑے دھو کر لاتا۔تاجو کی ایک بری عادت تھی کہ جب وہ گدھے پر سوار ہوتا تو وہ بچارے گدھے کی ٹانگوں پر زور زور سے چھڑ ی مارتا جاتا تھا، تب وہ گدھا ایک بھیانک سی آواز نکالتا تھا۔ ‘ ڈھیں ہوْ ں ، ڈھیں ہوْ ں ‘ اور ساتھ ہی تاجواپنا اور بھاری گٹھڑیوں کا بوجھ بھی اس پر لادے ہوئے ہوتا تھا۔پھر شام کو وہ گدھے پر سوار دھلے ہوئے کپڑوں کی گٹھڑیوں کا بوجھ بھی اس پر لادے ہوئے اس کی ٹانگوں پر چھڑی مارتا ہوا واپس آتا تھا۔۔جب حالات کے مارے بھوک کے ہاتھوں ستائے ہوئے گدھا ‘ ڈھیں ہوْ ں ، ڈھیں ہوْ کی آوازیں نکالتا ہے جس پر گدھے کا مالک خوش ہو تا ہے بالکل اسی طرح ہم پر مسلط کئے گئے ارباب اختیار کو بھی تسکین ملتی ہے ان میں پولیس کا محکمہ سر فہرست ہے۔
ایک اور مداری کی چھڑی ہے۔ بندر کو نچانے والے کی چھڑی جتنی مرضی ترقی ہوجائے یہ چھڑی ہی ہے جس میں ساری طاقت ہے جس کے بل پر بندر چھلانگیں مارتا ہے ادھر ادھر ناچتا پھرتا ہے۔ بندر کو لگتا ہے کہ شاید یہ خود بندر ہی ہے جسے دیکھ کر لوگ خوش ہورہے ہیں اور تالیاں بجارہے ہیں لیکن دراصل یہ صرف بندر والے کی چھڑی کا کمال ہے وہ جس انداز سے چھڑی زمین پر مارتا ہے بندر اسی کے مطابق چھلانگ لگا دیتا ہے۔ چھڑی کو ذرا سا قریب کرنے پر بندر قلابازی مار دیتا ہے اور زمین پر مارنے سے الٹا چلنے لگتا ہے گویا بندر کا کوئی کمال نہیں یہ سارا کھیل چھڑی اور اس کو پکڑنے والے کا ہے۔ ادھر چھڑی گھومتی ہے اور ہم مداری کے بندر کی طرح قلابازیاں لگانا شروع کر دیتے ہیں ۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تماشا کروانے والے مداری کو چھڑی کی نوک پر ناچنے والے بندر کے مزاج کا بخوبی علم ہوتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ بندر اس کا کہنا نہیں مان رہا تو اسے چھڑی سے سیدھا کیا جاتا ہے۔
لنڈی کوتل کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ نے بروقت پروٹوکول نہ دینے پر خاصہ دار اہلکاروں (ایک مخصوص قبائلی ایجنسی سے تعلق رکھنے والی قبائلی پولیس) کے ایک گروپ کو سزا دیـاسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ نے پشاور، کارخانو چیک پوسٹ سے خاصہ دار جانے کے لئے، خاصہ دار فورس کی پروٹوکول پارٹی کو طلب کیا لیکن مرمت کے کچھ کام اور تھوڑے ٹریفک جام کی وجہ سے وہ وقت پر نہ پہنچ سکےـاس تاخیر پر اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ اتنا ناراض ہو گیاکہ انہوں نے متعلقہ خاصہ دار اہلکار کو آرمی کیمپ کے اندر ایف سی گراؤنڈ میں کئی چکّر لگانے کا حکم دیا، اور دوسروں کے ہاتھوں میں چھڑی دے دی تاکہ نافرمانی کرنے والوں کو سزا دیںـ
جب ایک خاصہ دار سپاہی علالت کی بنا پر یہ سزا پوری نہ کر سکا تو ایجنٹ موصوف نے اسے گاڑی سے باندھ کر ڈرائیور کو پورے گراؤنڈ میں گھسیٹنے کا نادر شاہی حکم صادر کر ڈالا!۔یہاں بھی چھڑی ہی کام آئی ، ماتحتوں کو ان کی اوقات یاد دلانے کے لئے۔وہ یہ کیوں بھول گئے تھے کہ سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور ان کے خاندانوں کی غلامی کے لئے مامور ہیں ۔حالانکہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار ایک بار پھر پولیس نظام میں اصلاحات کے عمل کو مزید تیز کرنے کا وعدہ کر لیا ہے ۔”کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا” پولیس کے روّیوں میں بہتری لاکر تھانہ کلچر تبدیل کریں گے۔
حوالات میں بند ملزموں سے ماورائے قانون کوئی سلوک برداشت نہیں کریں گے، پنجاب پولیس کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔ پولیس کلچر تبدیل کرنے کے دعوے’۔ پرویز مشرف کے سات نکاتی ایجنڈے میں بھی یہی کچھ کہا گیا تھا ۔ مگر بے سود۔ ایک عرصہ قبل بھی وزیراعلیٰ نے یہ کہا تھا کہ پولیس کلچر آہستہ آہستہ تبدیل ہو جائے گا ۔ پنجاب پولیس کے حوالے سے تاثر کوئی ایسا غلط بھی نہیں کہ اس کے متشددانہ طریقہ تفتیش سے ملزم ایسے جرائم بھی قبول کر لیتے ہیں جن کے ارتکاب کی ان میں سکت ہی نہیں ہوتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ بہت سے لوگ خود پولیس کے رویے کی وجہ سے جرم کی راہ پر چل پڑے۔ حوالات تو ایک طرف نجی عقوبت خانوں کا سلسلہ بھی بڑا پرانا اور دراز ہے، ان نجی قتل گاہوں کے مقتولین کا خون کس کی گردن پرہوگا؟۔
بدنام زمانہ سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس آفیسررائو انوار کے پاس کونسی جادو کی چھڑی ہے کہ اسے کچھ نہیں ہوتا، وہ ایک دن بھی جیل میں نہیں رہا جس کے خلاف اتنا کچھ کہا گیا۔تصور یہ تھا کہ شاید وہ پھانسی گھاٹ تک پہنچ جائے ،لیکن ایسانہیں ہوا۔ ملیر جہاں وہ تمام تر مخالفتوں ، کوششوں اور کاوشوں کے باوجود10 سال سے بھی زیادہ ایس ایس پی کے عہدے پر فائز رہا۔