تحریر : رقیہ غزل 2017 کا سورج اپنی پوری آب و تاب سے جلوہ نما ہے اس جلوے کو دیکھنے کو امرا اور روسا ہی خوار ہیں مگر غریب غمزدہ ہیں کیونکہ وہ تنخواہ دار ہیں اسی لیے انھیں یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ نیا سال نہ جانے کون کون سے امتحان لیکر اترے گا کہ بار بار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سمیت مہنگائی میں اضافہ کا تذکرہ بھی جاری ہے یقینا نیا سال بھاری ہے موسم سرد ہے مگر سیاسی پارہ عروج پر ہے کہ تحریک انصاف ملک گیر جلسوں کا عندیہ دے چکی ہے اور جناب عمران خان نے واضح کہا ہے کہ اگر انصاف نہیں ملا تو ہم دوبار سڑکوں پر نکلیں گے کہ یہ ہمارا جمہوری حق ہے لیکن پیپلز پارٹی کی سیاسی جدو جہد مصلحت کا شکار دکھائی دے رہی ہے مگر عزائم کہتے ہیں کہ۔۔۔
اس شرط پہ کھیلونگی پیا پیار کی بازی ۔۔جیتوں تو تجھے پائوں ہاروں تو پیا تیری
کہتے ہیں کہ غلام قوم کے معیار بھی عجیب ہوتے ہیں شریف کو بیوقوف ،مکار کو چالاک ،قاتل کو بہادر اور مالدار کو بڑا آدمی سمجھتے ہیں بے شک ہم آزاد تو ہوگئے مگر وڈیرہ شاہی اور افسر شاہی نے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا کیونکہ ہمارے پرکھنے کے پیمانے وہی ہیں جو زمانہ جاہلیت میں جاہلوں کے تھے بریں وجہ نہ حالات بدلتے ہیں اور نہ حکمران اپنی روش تبدیل کرتے ہیں مگر قسمیں کھاتے ہیں جبکہ حضرت عمرفاروق نے فرمایا تھا جو حاکم اپنے خلوص کی قسمیں کھائے اس پر کبھی یقین نہ کرو اور ہمیں روز اول سے قسموں ،وعدوں اور دعووں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ شُنید ہے کہ اس صورتحال میں بھی حکومت خاموشی سے سیاسی چالیں چلنے میں مشغول ہے کہ شریف برادران کے سر پر پانامہ لیکس اور عوامی عدم اعتماد کی جو تلوار لٹک رہی تھی اس سے بچنے کے لیے انھوں نے ایک طرف تو وفادارن اور قریبی رفقا کو اہم عہدوں اور اداروں پر تعینات کر دیا ہے اور دوسری طرف مولانا فضل الرحمن کو یہ ٹاسک سونپ دیا ہے کہ وہ پارٹیوں سے رابطے میں رہیں اور گرینڈ اپوزیشن الائینس بننے سے روکیں دکھاوے کے طور پر وہ اس بارے انکار کر چکے ہیں مگر پس پردہ وہ ق لیگ سے ملاقات کر چکے ہیں۔
اب جناب آصف زردادی سے ملاقات کیلئے کوشاں ہیں یہی وجہ ہے ق لیگ بھی منظر عام پر آگئی ہے کہ جناب پرویز الہی نے صاف کہاہے کہ” میاں برادران نے انگریزوں کے ڈیڑھ سو سالہ انتظامی نظام کو زندہ کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ اب پنجاب کے عوام کو ہم یاد آرہے ہیں” جہاں تک بات ہے کہ انگریزوں کے ڈیڑ ھ سو سالہ انتظامی نظام کا سہارا لینے کی تو سویلین اور آمر حکمرانوں کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ اقتدار کو طول دینے کے لیے ہمیشہ سے ایسے ہی ہتھکنڈے اپناتے چلے آرہے ہیں۔
مہذب معاشرے کوشش کرتے ہیں کہ ایسا جمہوری نظام وضع کریں کہ جس کی بنیاد پر عوام اپنے مسائل اشتراکی بنیادوں پر خود حل کر سکیں چونکہ تعلیم ۔صحت ۔پانی ۔بجلی ۔نکاس ، خوراک اور خواندگی ایسے زندگی سے متعلق مسائل وقت پر حل ہو جائیں تو جمہوری عمل کی طرف ایک مثبت پیش رفت سمجھی جاتی ہے مگر بدقسمتی کے ساتھ پاکستان میں آج تک ایسا کوئی نظام مستقل بنیادوں پر قائم ہی نہیں کیا جا سکا جو عوام کے بنیادی مسائل سننے اور حل کرنے کا ثبوت فراہم کرتا ہو یہی وجہ ہے کہ نام نہاد بلدیاتی انتخابات غیر جمہوری رویوں پر ہمیشہ سے سوالیہ نشان رہے ہیں۔
اس ملک کا حکمران طبقہ اپنی مفاد پرستیوں اور آمرانہ سوچ کی وجہ سے آج تک اس جمہوری نظام کو مستحکم نہیں کر سکا مگر اس کا الزام ہمیشہ ڈکٹیٹرز کو دیا جاتا ہے کہ ان کے غاصبانہ رویوں کی وجہ سے جمہوریت کا بول بالا نہیں ہوسکا جبکہ در پردہ وجوہات میں جب بھی ان لوگوں نے اقتدار سنبھالا تو اپنی لوٹ مار اور اقربا پروریوں کے تحت اپوزیشن کو مخالف بنا لیا اور ان کی ذاتی سیاسی لڑائیوں نے وطن عزیز کو معاشی ،معاشرتی ،اقتصادی اور سیاسی بحران کو جنم دے دیا مگر جب یہ مسائل ملکی سلامتی اور ملکی نظام و انتظام کے لیے خطرہ ٹھہرے تو افواج پاکستان کو آگے آنا پڑا مگر بریں وجہ موقع پرست سیاستدانوں کیوجہ سے فوجی حکومتیں بھی وقتی طور پر ان حالات پر قابو پا سکیںکہ خود سیاسی خلفشار اور عنانیت کا شکار ہو کر اپنا وقار بھی دائو پر لگوا بیٹھیں کہ سیاسی ہتھکنڈوں اور تلوار کے دائو پیچ میں واضح فرق موجود ہے لیکن باوجہ سیاسی منافقت اور چپقلشوں نے فوجی حکومتوں کو اقتدار سنبھالنے پر مجبور کیا مگر بعد ازاں آمرانہ حکومت کو طول دینے کے لیے نام نہاد بلدیاتی انتخابات کا ڈھونگ رچایا جاتا رہا ہے کون نہیں جانتا کہ فیلڈ مارشل صدر ایوب نے بنیادی جمہوریت کا نظام دیا تھا مگر انتخابی ادارہ بنانے سے اس کے بنیادی مقاصد پس پردہ چلے گئے تھے۔
Municipal Elections
اس نظام میں کئی امور جرگہ اور پنچایت کے طریقہ کار سے مستعار لیے گئے تھے کہ یونین کونسل اور کمیٹیاں اپنے علاقے کا نیم خود مختار ادارہ تھا اسے ترقیاتی کام کروانے کے اختیارات تو حاصل تھے لیکن با قاعدہ قانونی طور پر ہر یونین کمیٹی / کونسل کی مصالحتی عدالت بھی تھی اور ایک الگ قانون کے تحت عام گھریو یا گل محلے کے معاملات اسی کے ذریعے طے ہوتے تھے ان مصالحتی عدالتوں کی بنیادی ترجیح فریقین کے درمیان مصالحت ہوتی لیکن گھمبیرتا کی صورت میں معاملہ عدالت یا کچہری جاتا تھا یہ نظام کامیاب رہا کہ جب تک یہ چلتا رہا معاشرتی توازن بھی قائم رہا ،پولیس کی مداخلت بھی رک گئی اور مزید مسائل کے حل بھی ہونے لگے تھے مگر ہمیشہ کی طرح کچھ لوگوں کو سکون راس نہیں آیا اور اسے انتخابی ادارہ بنا دیا گیا جو بعد ازاں مخالفت کے بعد بربادی کا شکار ہوکر اپنی اہمیت کھو بیٹھا پھربعد میں آنے والے آمر اور سویلین تمام حکمرانوں نے ان اداروں کو سیاست ختم کرنے اور اپنے مفادات حاصل کرنے کا ذریعے بنا لیا اور بلدیاتی نمائندے وڈیرہ شاہی طرز حکومت کے آلئہ کار بن کر رہ گئے جو کہ تاحال جاری ہے۔
اب صورتحال یہ ہے پہلے بلدیاتی انتخابات کروانے میں حیل و حجت سے کام لیا جاتا رہا کہ ڈھائی سال اسی کشمکش میں گزارنے کے بعد خدا خدا کر کے کفر ٹوٹا اور عدالت کے حکم کے پر انتخابات کروائے گئے کہ ن لیگ بمقابلہ ن لیگ امیدوران کو میدان میں اتار دیا گیا اور رہی سہی کسر تب پوری ہوگئی جب چند امیدوار ڈاکو اور اشتہاری نکلے مگر وائے افسوس وہ منتخب بھی ہوگئے کہ اس نظام کی شفافیت کا بھرم بھی باقی نہ رہا یعنی ثابت ہوگیا کہ کٹھ پتلی انتخابات کے ذریعے عوام سے ایک بار پھر کھلے عام مذاق کیا گیا کہ ان کے اختیارات مبہم اور ابہام کا شکار تھے اب چند دن سے یہ واویلا سنائی دے رہا تھا کہ ان نمائندوں کو اختیارات سونپے جا رہے ہیں لیکن یہ بھی شوشہ جھوٹ ثابت ہوا ہے کیونکہ بلدیاتی نمائندوں کو مکمل طور پر بے اختیار کر دیا گیا ہے اگرچہ وقافی حکومت چاروں صوبوں کے بلدیاتی اداروں کے لیے پونے چار کھرب روپے فنڈ دے گی اور ضرورت پڑنے پر ان میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ پچھلے برس بلدیاتی حکومتوں کو 274 ارب دئیے گئے اور اس برس 391 ارب دینے کا عندیہ دیا گیا ہے پچھلے برس جو دئیے گئے وہ کہاں لگے اور جو اس برس ملے ہیں وہ کہاں استعمال ہونگے جبکہ یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ ترقیاتی فنڈ کسی اور مد میں استعمال کرنے پر پابندی ہوگی تو کہاں اور کیسے استعمال ہونگے کہ کٹھ پتلی نمائندے بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ ان کے اختیارات کیاہیں تو طے ہوا کہ
پچھلے برس بھی بوئی تھیں لفظوں کی کھیتیاں اب کے برس بھی اس کے سوا کچھ نہیں کیا
قصہ مختصر خوش فہمی کی منزل کا سفر ختم ہو رہا ہے اب بھی اگر ملک و قوم کے حالات سدھارنے کی واقعی نیت ہے تو یاد رکھیں کہ شاخ نازک پہ جوآشیاں بنے گا ، ناپائیدار ہوگا ”کہ جب تک نظام نہیں بدلے گا کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا اور نظام تبتک نہیں بدلے گا جب تک شفافیت کا بول بالا نہیں ہوجاتا اور غیر جمہوری رویے تبدیل نہیں ہوتے یعنی حکمرانوں کی سوچ بدلے گی تو حالات بدلیں گے کہ اس کا اعتراف تو وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی کیا ہے کہ آمریت ہو یا جمہوریت دونوں نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے اب غلطیوں کو دہرانے کا وقت نہیں ہے اب اس نقصان کی تلافی کرنے کا وقت ہے کہ لوٹا ہوا پیسہ واپس ملک میں لایا جائے قرض اتارا جائے اور زرد جمہوریت کو وفا اور خلوص سے سیراب کر کے ذمہ داران کا احتساب کیا جائے اور ترجیحی بنیادوں پر بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات سونپے جائیں تاکہ اقتدار کو طول دینے کی خواہش میں ملک و قوم کا مزید نقصان نہ کیا جائے کہ نظریہ ضرورت نظریاتی افکار پر غالب آجائے تو قومیں مٹ جاتی ہیں۔