تحریر: حافظ محمد فیصل خالد تقریباََ ڈیڑھ سال قبل پیپلز پارٹی کے کے موجودہ اور حقیقی صدر جناب آصف علی زرداری صاحب نے جوشِ خطابت میں ایسا بیان دے ڈالا جس کے نتیجے میں انکو ملک چھوڑنا پڑا۔اگر چہ علاج کی غرض سے ہی ملک چھوڑا لیکن بہرحالخود ساختہ ملک بدری کاٹنی پڑی اور کمال کی بات یہ ہے کہ زرداری صاحب کے طبیبوں نے انکو اس وقت تک ملک واپس آنے کی اجازت نہیں دی جب تک راحیل شریف صاحب ریٹائر نہیں ہو گئے۔اور اب جب وہ ڈیڑھ سال بعد حال ہی میں وہ ملک تشریف لائے تو اس بات کے دعویدار ہیں کہ وہ مایوسی نہیں امید لائے ہیں۔
اب اس ساری صورتِ حال میں اہم و غور طلب بات یہ ہے کہ زرداری صاحب کی واپسی کی ٹائمنگ کیسی ہے؟ اور نمبر دو یہ کہ کیا زرداری صاحب اور انکی جماعت اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر پائیں گے یا نہیں؟نمبر ایک تو زرداری صاحب اس وقت وطن واپس تشریف لائے جس وقت وہ شخصیت ریٹائر ہوچکی ہے جس سے زرداری صاحب کو خطرہ تھا ۔ اور اب زرداری صاحب کیلئے گرائونڈ خالی ہے ۔اور آنے والی نئی قیادت سے انکو کوئی نا کوئی گرین سگنل ضرور ملا ہوگا۔ اور سیاسی لحاظ سے بھی ملک کے حالات ایسے ہیں کہ زرداری صاحب اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں اور کریں گے۔
PPP
جبکہ دوسری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ زرداری صاحب جس انداز و حالات میں ملک سے باہر تشریف لے گئے تھے اسکو ریکور کر نے کیلئے انکو غیر مومولی حالات درکار تھے۔ چناچہ شاید و اتفاقا َہوا بھی وہی جو انکے حق میں قدرِ بہتر تھا، کہ زرداری صاحب کی واپسی کے عین وقت کراچی میں ان کے قریبی ساتھیوں کی گرفتاریاں ہونے لگیں۔اور اب جو نظر آرہا ہے وہ یہ کہ زرداری صاحب ان گرفتاریوں سے ڈرے نہیں جھکے نہیں ۔اور ان کی سیاست کا انحصار بھی اب انہی ہونے والی گرفتاریوں اور ان کے نتیجے میں ملنے والی ہمدردیوںپر ہو گا۔
مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اس قسم کے حالات اور ان کے نتیجے میں ملنے والی ہمدردیاں بھی زرداری صاحب اور انکی جماعت کو کھویا ہوا مقام نہیں دلا سکیں گی کیونکہ عوام اب کافی حد تک اپنے سیاست دانوں کی رمض کو سمجھ چکے ہیںاور دوسری وجہ یہ کہ انہوں نے اپنے اقتدارمیں ایسے کوئی کام نہیں کئے جن کی بنیادپر انکو دوبارہ وہ مقام یا ہمدردیاں حاصل ہوںجو جوپیپلز پارٹی کو محترمہ کی شہادت کے بعد ملی تھیں۔
لہذا اب اس صورتِ حال میں پیپلز پارٹی اور اسکی قیادت کے لئے یہی بہتر ہوگا کہ وہ ایسے حالات کو پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے اکثریتی صوبے سندھ میں اپنی کارکردگی دکھائیں کیونکہ یہی ایک واحد راستہ ہے جس کے ذریعے وہ دوبارہ عوامی حلقوں تک پذیرائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر یہ ایسا نہ کرسکے اور انہوں نے اپنی روش جاری رکھی تو پھر یقین رکھئیے کہ زرداری صاحب کے پاس تختِ لاہور کو للکارنے، خان صاحب عمران نیازی صاحب کہہ کر پکارنے اور چوہدری نثار صاحب کے استعفے کے مطالبے کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔