تحریر : غلام حسین محب سابق صدر زرداری اور وزیراعظم نواز شریف نے ایک دوسرے کے مورچے میں بیٹھ کر سیاسی گولہ باری شروع کی تو عوام کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ دبے لفظوں میں آئندہ الیکشن کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔پیپلزپارٹی کو اچھی طرح احساس ہوچکاہے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کاگراف بڑھانے کے لیے سخت محنت کرنی ہوگی جہاں گزشتہ الیکشن میں پی پی پی کو زبردست شکست سے دوچار ہونا پڑاتھا دوسری طرف مسلم لیگ نے سندھ بھر سے اٹھنے والی مایوسی اورحکومت مخالف آوازوں پر بروقت توجہ دینے کی کوشش کی ہے۔علاوہ ازیں مبصرین نے ان سیاسی سرگرمیوں کو پانامہ سے جوڑنے کی بات کی ہے کہ کافی حد تک توقع ہے کہ فیصلہ حکومت مخالف آجائے اس لیے ابھی سے عوام کو اپنی بے گناہی کا یقین دلانے بلکہ بیوقوف بنانے کی اپنی سی کوششیں ہورہی ہیں حالانکہ مذکورہ دونوں جماعتوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستانی عوام کی مجبوریوں سے ان ہی دو پارٹیوں نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ایک وقت تھا کہ ”جب تک سورج چاند رہے گا بھٹو تیرا نام رہے گا اور ” زندہ ہے بھٹو زندہ ہے” جیسے نعروں سے عوامی جوش جذبے میں طغیانی آتی اورجو پی پی پی جلسوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کا باعث بنتے مگر اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ سیاسی نعروں میں سب سے زیادہ ان ہی نعروں کو مذاق کا نشانہ بنایا جا تاہے مگر پی پی پی کے کیالے اب بھی اسی نعروں کی امیدوں کے سہارے جی رہے ہیں۔
اب ان کو کوئی کیسے سمجھائے کہ سندھ میں پی پی پی اور ایم کیو ایم سے زیادہ اقتدار میں کوئی پارٹی نہیں رہی لیکن سندھ میں غربت،مسائل اور مایوسی کے سائے روز بروز بڑھتے رہے ہیں ۔تھر میں قحط کی صورتحال قدرتی موسموں کی طرح ہر سال اپنے وقت پر پیش آتی ہے مگر نہ سندھ کی صوبائی حکومت کے پاس کوئی فکر ہے اور نہ کوئی حل۔اسی طرح کراچی جو پاکستان کے سر کی حیثیت رکھتا ہے میں پانی کی نایابی ،بھتہ خوری کی وباء ، صفائی کی ناقص منصوبہ بندی اور بدامنی جیسے مسائل ہمیشہ دردسر بنے رہے ہیں۔اب کوئی ان دو جماعتوں سے پوچھے کہ آپ کو کس نے ان مسائل کے حل سے روکا تھا۔ان حقائق کے ہوتے ہوئے پی پی پی سندھ میں جلسوں سے کتراتی یا شرماتی ہے اور اپنا زیادہ زور پنجاب میں صرف کرتی نظر آتی ہے۔
اس پارٹی کی طرح اچھی شہرت رکھنے والی پارٹی مسلم لیگ نون کا بھی بالکل یہی حال ہے۔وہ سندھ میں جلسے جلوس کرکے اپنی ہمدردی جتانا چاہتی ہے مگر سندھیوں کو معلوم ہے کہ پنجاب میں غربت اورناانصافی سے بڑھنے والا خودکشیوں کا رجحان کس کی وجہ سے ہے۔پنجاب جیسے بڑی آبادی والے صوبے کے عوام کو ”میٹرو میٹرو ”کرکے ٹرخایا جاتا ہے جبکہ ملک بھر میں وفاقی حکومت کے خلاف ایک غم اور غصہ پایا جاتا ہے کہ اب تک کسی بڑے اور اجتماعی مسٔلے کو حل نہیں کیا گیا۔مہنگائی بڑھتی جاتی رہی ہے۔بے روزگاری نے نوجوان نسل کو مایوسی سے دوچار کردیا ہے اور بجلی کی قلت اور لوڈشیڈنگ نے تو پاکستانیوں کو ذہنی اور نفسیاتی امراض سے دوچار کردیا ہے۔مگر بے شرمی اورہٹ دھرمی کا یہ حال ہے کہ حکومتی عہدیدار روزروز میڈیا کے ذریعے عوام کو بے وقوف بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ یہ تو تھا مختصر سا احوال پاکستان کی دو بڑی پارٹیوں کا،اب دیکھتے ہیں کہ دوسری سیاسی پارٹیاں پاکستانی عوام کی کتنی ہمدرد اور خیرخواہ ہیں۔
پختونخوا میں برسر اقتدار پی ٹی آئی نے تبدیلی کے نام پر بہت کچھ کیاہے مگرکچھ بھی نہیں کیاہے۔اس پارٹی نے اپنے اقتدار کا ایک عرصہ دھرنوں اور میں نہ مانوں میں گزارا ہے۔اور وقت میں جو کام کیا ہے وہ صرف اورصرف پشاور کی حد تک کیا ہے۔پختونخواکے دیگرشہروں میں ایسا کچھ خاص نظر نہیں آرہاکہ جسے دلیل بناکر اس پارٹی کی کارکردگی کو سراہا جائے البتہ بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنا اس پارٹی کا خاصہ بلکہ کارنامہ ہے۔وہ مولابخش چانڈیو ہو راجہ ثناء اللہ ہو یا مولانا فضل الرحمان سب کے لیے ایک ہی کافی ہے یعنی عمران خان۔ اب یہ الگ بات ہے کہ عام لوگ عمران خان کا کتنا ساتھ دیتے ہیں مگر ان باتوں پرضرور واہ واہ کرتے نظر آتے ہیں جو وہ پی پی پی،ایم ایل این اور جے یو آئی کے جواب میں کہتے رہتے ہیں کیونکہ عوام یہاں کسی بھی پارٹی سے خوش نہیں ہیں۔البتہ پاکستانی تاریخ میں یہ بات خوش آئند ہے کہ پختونخواکے عوام نے ہمیشہ تبدیلی پر یقین کا اظہار کیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس صوبے میں پی پی پی ،مسلم لیگ،جے یو آئی،جماعت اسلامی،پی ٹی آئی،اے این پی اور قومی وطن پارٹی سب کو حکومت کرنے کا موقع دیا گیابلکہ آزمایا گیا۔اس کے برعکس دوسرے صوبوں میں شہنشاہیت کا تسلسل جاری ہے جس کے نتیجے میں پنجاب کو پی ایم ایل این اور سندھ کو پی پی پی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
البتہ بلوچستان میں مکس اچار جیسی صورتحال ہوتی ہے کسی پارٹی کو باختیار حکومت نہیں ملی۔تقریباًتمام پارٹیوں سے دو ،دو، تین ،تین وزرا کو لیا جاتا ہے مگر اس طریقہ کار میں ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اپوزیشن کا خوف نہیں رہتا۔پاکستان میں اس کی عمر کے برابر فوجی حکومت نے اقتدار کے مزے لُوٹے جو ان ہی سیاسی پارٹیوں کے کرتوتوں کی وجہ سے قابض رہے ۔مگر موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات خوش آئند ہے کہ شدید بد امنی،مایوسی اوربیڈ گورننس کے باوجودآرمی نے ماضی کی طرح ایکشن نہیں لیابلکہ موجودہ حکومت کو سپورٹ کرکے مضبوط کیا جو جمہوری نقطہ نگاہ سے قابل تحسین ہے ورنہ ان سیاسی وڈیروں، سرداروں،چوہدریوں،پیروں اور لُٹیروں کے مظالم اورکرپشن کو دیکھتے ہوئے عوام فوج کی طرف دیکھتے ہیں حالانکہ اس ملک میں فوجی حکومتوں کی تاریخ کبھی اچھی نہیں رہی ورنہ اگر فوج چاہتی تو کب کا ان چوراور کرپٹ سیاستدانوں سے پاکستانیوں کی جان چھڑا کرملک کو مثالی ریاست بنا چکے ہوتے کیونکہ فوجی حکومت کو لامحدود اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔
ایک طرف اکثر لکھاری اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اب پاکستانی عوام ہوشیار ہوچکے ہیں مگر یقین اُس وقت کٹ جاتا ہے جب ان ہی آزمائے ہوئے سیاسی آقاؤں کے جلسوں میں لوگوں کی تعداد کو دیکھا جائے اور ایسا زیادہ تر پنجاب اور سندھ میں نظر آتا ہے۔اور یہی دو صوبے بتدریج مرکز میں حکمران چلے آرہے ہیں اسی لیے تو باقی تمام صوبوں کے عوام ناراض، مایوس اور شکوے کرتے آئے ہیں۔عام طور پر دیکھا اور سنا جارہا ہے کہ عوام سیاسی پارٹیوں سے سخت نالاں اورمایوس ہوچکے ہیں مگر پھر بھی ہم نے کئی سیٹوں پر ضمنی الیکشن کے نتائج دیکھے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ خوشحال اورمطمئن ہیں کوئی فکر کی بات نہیں۔ اس حقیقت کے ہوتے ہوئے کوئی کیسے بتائے کہ یہی سیاسی چہرے ایک بار پھر مسلط نہ ہوں گے۔اور اتنے دور کی بات نہیں 2018ء کے الیکشن کی علامات ظاہر ہورہی ہیںدیکھتے ہیں کہ پاکستانی عوام پھر سے کتنی گہری کھائی میں گرنے والی ہے۔ ایسے میں تمام پاکستانی عوام کے لیے ایک ہی پیغام رہ جاتا ہے کہ پختونخواکے عوام سے سیکھ کر ہر پارٹی کو آزمائیں اورموروثی سیاست کا خاتمہ کرکے اپنے مستقبل کی فکر کریں ورنہ اپنی تو گزرگئی آئندہ نسلوں کی تباہی کے ذمہ دار ہم ہی ہونگے۔۔۔۔۔