پی پی پی حکومت کی ناکامی کے بعد مسلم لیگ ن ایک متبادل جماعت کی حیثیت سے سامنے آئی تھی جس نے خوش کن وعدوں سے عوام کو امید کی نئی کرن دکھائی تھی۔ ٢٠١٣ کے انتخا بات کے بعد یقین ہونے لگا تھا کہ پا کستان میں ایک ایسا نظامِ حکومت معرضِ وجود میں آئے گا جس میں اصولوں کی پاسداری ہو گی اور جس میں لوٹ کھسوٹ کا نام و نشان نہیں ہو گا۔اگر چہ ان انتخا بات میں ساری سیاسی جماعتوں کو انتخابی دھاندلیوں کے حوالے سے سخت تحفظات تھے لیکن پھر بھی سب نے آگے کی جانب بڑھنے کا عندیہ دیا اور جمہوری نظام کے تسلسل اور مضبوطی کو اپنا ہدف بنایا۔
ایک سال کا عرصہ پلک جھپکنے میں گزر گیا اور جس جمہوریت کی خاطر سارے دھاندلوں کو گوارا کیا گیا تھا وہ اپنے ثمرات دینے سے محروم رہی۔جمہوریت کے معنی تو شفاف اور کرپشن سے پاک معاشرے کا قیام ہوتا ہے جس میں عوامی امنگوں کو سب سے زیادہ فوقیت دی جاتی ہے لیکن پا کستان میں شائد ایسا ممکن نہیں رہا کیونکہ یہاں کرپشن سکہ رائج الوقت بن چکا ہے جس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور ہر کوئی مال و دولت جمع کرنے کی اندھی محبت کا اسیر ہے۔حر ص و طمع مقصدِ زندگی بن جائے تو سارے ضا بطے اور قانون بے اثر ہو جاتے ہیں کیونکہ انسان کی ترجیحات قانون ی حکمرانی نہیں بلکہ دولت کا حصول بن جاتا ہے اور ایسی ابلیسانہ سوچ پورے معاشرے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔
اس طرح کی ابلیسانہ سوچ کے سارے ڈانڈے حکمرانوں کی ترجیحات سے پھوٹتے ہیں اور سب سے پہلے دولت کی محبت ان کے لہو میں شامل ہوتی ہے جو دھیرے دھیرے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور پھر ہر کو ئی حکمرانوں کی زبان اور ان کے انداز اپنانے لگ لگ جاتا ہے۔قرآنِ حکیم نے اس ساے منظر نامے کو بڑے بصیرت افروز انداز میں بیان کیا ہے۔اس نے کہا کہ معاشرے کے اگر با اثر افراد راہِ راست پر آ جائیں تو معاشرے کا بگاڑ ختم ہو جائیگا۔اس کیلئے اس نے ان سات سرداروں کی مثال دی ہے جو ملک میں ہر قسم کی نا ہمواریوں کے سر غنہ تھے اگر انھیں کسی طرح سے راہِ راست پر لے آیا جائے تو پھرپو را معاشرہ راہِ راست پر آجائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ ا نھیں راہِ راست پر کون لائے گا کیونکہ ان کا مطمعِ نظر اصلاح نہیں بلکہ خرابی ہے۔ان کے من میں خرابی کا ناسور پل رہا ہوتا ہے جو انھیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا اور یوں وہ من کے ناسور کو سارے معاشرے میں پھیلا دیتے ہیں۔
انسان کو ہمیشہ سے خواب دیکھنے کی لت لگی ہوئی ہے اور اس لت کو وہ کسی بھی صورت میں چھوڑنے کیلئے آمادہ نہیں ہوتا ۔کبھی کبھی اس کے خواب فضائوں میں بے رنگ و بے نام بال و پر کی طرح بکھر جاتے ہیں اور کبھی کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ اس کے خوا ب حقیقت کا روپ اختیار کر لیتے ہیں لہذا خوا ب دیکھنا ایک ایسی صفت ہے جو انسان کو آگے بڑھنے کا راستہ دکھاتی ہے اور اس کیلئے کامیابیوں کے امکانات تخلیق کرتی ہے۔انسان اپنے خوابوں کے حصول کی خاطر ساری حیاتی محنتِ شاقہ اور سخت جدو جہد کو اپنا شعار بنا تا ہے لیکن پھربھی کبھی کبھی اس کے سارے خواب کرچیوں کی طرح ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں اور اسے لہو لہان کر کے رکھ دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ خواب دیکھنا نہیں چھوڑتا کیونکہ اسے یقین ہو تا ہے کہ اس کا کوئی نہ کوئی خواب تو سچ نکلے گا ۔اگر وہ خواب دیکھنا چھوڑ دے تو پھر اس بات کا تعین کیسے ہو گا کہ اس کا ہدف اور مقصودِ زندگی کیا ہے؟ خواب در اصل زندگی کی شاہراہ پر نصب سنگِ میل کی طرح ٹمٹماتے دئے ہو تے ہیں جو روشنی بھی دیتے ہیں اور منزل کے تعین میں ممدو معاون بھی بنتے ہیں۔یہ دئے روشن رہیں تو راستہ صاف اور ہموار دکھائی دیتا ہے یہ بجھ جائیں تو ہر سو اندھیرا چھا جاتا ہے اور انسان انہی گھپ اندھیروں میں کھو کر دم توڑ دیتا ہے ۔ خواب انسان کو توانا ہشاش بشاش اور پر عزم بناتے ہیں ۔خواب مر جائیں تو انسان پژ مرد گی کا پیکرِ مجسم اور راکھ کا ڈھیر بن جائے لہذا خواب دیکھنا زندگی کے ہونے کی دلیل ہے۔لیکن جب اانسان کے خوا اب ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں تو اسے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔وہ اپنے خوابوں کو حقیقت بنتے دیکھنا چاہتا ہے لیکن امتناعِ زمانہ اس کی راہ میں کانٹے پچھا دیتے ہیں۔
PML N
اس کے لہو لہان پائوں اس کی روح میں اتر جاتے ہیں جو اسے بغاوت پر آمادہ کرتے ہیں اور یوں معاشرے کے اندر تبدیلی کی پہلی کی آواز بلند ہوتی ہے۔ جو رو ستم کا شکار ہونے والے لا تعداد لوگ اس آواز کا ساتھ دینے والے بنتے ہیں اور یوں انقلاب کی پہلی اینٹ رکھ دی جاتی ہے جو آخرِ کار پورے نظام کوالٹ پلٹ کر رکھ دیتی ہے۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت جس طرح پچھلی حکومت کا تسلسل بنی اس نے عوم کے اندر بغاوت اور نفرت کو جنم دینا شروع کر دیا ہے ۔وہ جن خوابوں کے سچ ہونے کی امید میں نعرہ زن تھے ان کے سچ ہونے کے دور دور تک امکانات نظر نہیں آرہے۔ان کی روح میںبے چینی ہے جو انھوں انقلاب کی جانب دھکیل رہی ہے اور چند سیاستدان اس بے چینی کا فائدہ اٹھا کر انقلاب کی نوید سنانے میں لگے ہوئے ہیں۔
کیا پاکستان میں انقلاب کیلئے زمین سازگار ہے یہ وہ سوال ہے جو ہر کس و ناکس کی زبان پر ہے۔اسی خوا ب کو حقیقت کا جامہ پہنانے کیلئے علامہ ڈاکٹر طاہرا لقادری کی پاکستان عوامی تحریک نے ١١ مئی کو پورے ملک میں احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا ہے جس کا واحد مقصد معاشرے کے اندر انقلاب کے بیج بونے ہیں۔پاکستان عوامی تحریک کی تنظیمی صلاحیتوں کے بارے میں کسی کو بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہے کیونکہ پچھلے سال (مارچ ٢٠١٣ ) میں وہ اپنی تنظیمی صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کرچکی ہے۔تحریک کا مقصد انتخابی اصلاحا ت نہیں بلکہ پورے معاشرے کو بدلنے کیلئے انقلاب کا اعلان ہے۔یہ انقلاب کیسے حقیقت بنے گا اس کیلئے ابھی تک کچھ بھی واضح نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انقلاب کے لئے فضا ابھی تک ساز گار نہیں ہے کیونک لوگ ابھی تک مکمل طور پر موجودہ نظام سے بد دل نہیں ہوئے۔وہ اب بھی موجودہ سسٹم میں رہتے ہوئے حالات کو بدلنا چاہتے ہیں ۔یہ سچ ہے کہ جمہوریت پر لوگوں کے ایمان کو بدلنا انتہائی مشکل ہے کیونکہ حکمرانوں کے انتخاب کا اس سے بہتر نظام ابھی تک سامنے نہیں آ سکا۔ جمہوریت کی حد تک تو سب کا اتفاق ہے لیکن کیا جمہوریت سے مراد وہ جمہوریت ہے جو پاکستان میں رائج ہے تو بلا تردد کہنا پڑیگا کہ اس سے اکثریت کو اختلاف ہے کیونکہ یہ جمہوریت نہیں بلکہ مو روثی بادشاہتیں ہیں جنھیں ذاتی مفادات کی خاطر جمہوریت کا نام دے دیا گیا ہے۔عوام اس طرح کی جمہوریت سے تنگ آچکے ہیں کیونکہ اس جمہوریت میں حکمران مافیا قومی دولت لوٹ کر غیر ملکی بینکوں میں محفوظ کر لیتا ہے جس سے ملک کے بچوں کا مسقتبل غیر محفوظ ہو جاتا ہے۔وہ ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں ان کا استحصال نہ کیا جائے۔وہ ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں ان کی اولاد کا مستقبل محفوظ ہو جائے۔
وہ اس نظام سے بغاوت چاہتے ہیں جس سے عوام بھوک سے تنگ آ کر خود کشیاں کرنے پر مجبور ہوں ۔وہ ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں انصاف پیسوں سے خریدا نہ جاتا ہو۔وہ ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوہو ۔ وہ ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں دولت کے چشموں پر چند افراد قابض نہ ہو جائیں۔وہ ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں اہل الرائے افراد کو ان کاجا ئز مقام دیا جائے۔وہ آئین و قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں۔وہ میرٹ کو ر وبعمل دیکھنا چاہتے ہیں۔
وہ کرپشن سے پاک معاشرہ چاہتے ہیں۔ وہ ہر اس ضابطے کا ا طلا ق چاہتے ہیں جو چھوٹے اور بڑے میں تمیز نہ کرتا ہو۔،کیا پا کستان کے موجودہ جمہوری نظام میں یہ ممکن ہے تو میرا جواب ہو گا کہ ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ ہمارا جمہوری نظام طاقتور کو تحفظ دیتاہے جبکہ غریب کی اس نظام میں کہیں پر بھی شنوائی نہیں ہے۔
کہتے ہیں انصاف غیر جانبدار ہوتا ہے کیونکہ وہ سامنے والے کی حیثیت کو نہیں بلکہ اپنے آئین و قا نون کی روح کو دیکھتا ہے اور اسی کے مطابق فیصلے صادر کرتاہے۔ اس کی نظر میں کوئی امیر نہیں ہوتا،کوئی طاقتور اور غریب نہیں ہوتا۔اس کی نظر میں صرف بے گناہ اور گنہگار ہوتے ہیں اور اس کا فیصلہ حقائق کی بنیاد پر کیا جاتاہے۔اسی کا نام انقلاب ہے جس میں بے گناہ محروموں کو طاقتور بنا دیاجاتا ہے اورگنہگار طاقتوروں کو خس و خا شاک کی طرح بہا دیا جاتا ہے ۔۔،،۔،۔،۔،۔