پیپلز پارٹی 27 فروری سے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کریگی اس وقت اپوزیشن میں شامل سبھی جماعتوں کی خواہش ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح عمران خان کو گھر بھجوا دیں بلخصوص پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے سبھی رہنماؤں کی آخری اور پہلی خواہش بھی یہی ہے اور اس کیلیے وہ ایڑی چوٹی کا زوربھی لگا رہے ہیں خواہ کسی کی منت سماجت کرنی پڑے یا گھٹنوں کو ہاتھ لگانا پڑیں وہ ہر طرح سے تیار بیٹھے ہوئے ہیں تاکہ ان پر احتساب کی جو تلوار لٹک رہی ہے وہ کسی نہ کسی طرح سے ٹل جائے حالانکہ اس وقت جرائم اور کرائم میں سندھ باقی صوبوں سے سب سے آگے جارہا ہے مجموعی طور اگر دیکھا جائے تواسلام آباد میں جرائم کی شرع سب سے کم تقریبا 29فیصد ہے۔
لاہور 38 فیصد اور کراچی 53 فیصد سے زائد نمبر لیکر سب سے آگے ہے سندھ میں لوٹ مار،چور بازاری،قتل اور اغوا کی وارداتوں میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے خاص کر سٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں میں شہریوں کی جانیں بھی ضائع ہورہی ہیں کراچی میں صحافی قتل ہورہے ہیں ٹی وی چینل کے پروڈیوسر اطہر متین کے قاتل سب کے سامنے فرار ہوگئے اور ابھی تک پکڑے نہیں گئے کاروباری افراد تاوان کے لیے اغواہورہے ہیں اور تو اور سرکاری گوداموں سے 19ارب کی گندم غائب ہو جاتی ہے اور اسکا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ گندم چوہے کھا گئے یہ ایسی لوٹ مار ہے جو سالہا سال سے ہو رہی ہے سندھ کو پچھلے 14برس میں 8900 ارب روپے ملے اور لگے کہاں پر کسی کو کچھ پتا نہیں وفاق سے 56 فیصد پیسے لے کر صوبے نیچے کچھ نہیں دے رہے۔
جبکہ وفاق کو 44 فیصد میں سے قرضے واپس کرنے ہیں اور پورا ملک چلانا ہے جبکہ صوبوں کے یہ مسائل نہیں وزراء اعلیٰ این ایف سی ایوارڈ میں ملنے والے پیسوں کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں سندھ کے وزیر اعلیٰ کو ہر سال 1 ہزار ارب ملتے ہیں، 200 ارب روپے یہ کراچی سے ٹیکس کے زریعے کماتے ہیں۔1200 ارب روپے سندھ حکومت کی سالانہ آمدنی ہے۔ وزیر اعلیٰ ان 1200 ارب کو کہاں خرچ کرتے ہیں کسی کو کوئی سمجھ نہیں آرہی مگر ان سب کے اثاثوں میں ہوشربا اضافوں سے ایک بات کی سمجھ تو آہی ہی جاتی ہے کہ جو دو ٹانگوں والے چوہے گندم کھا گئے یہ پیسے بھی انہی چوہوں کے پیٹ میں چلے جاتے ہونگے سندھ کے پسماندہ علاقے ابھی تک ترقی کے نام سے بھی آشنا نہیں اور نہ ہی انہیں کوئی وسائل فراہم کیے جاتے ہیں۔
پیپلز پارٹی نے صرف تعلیم کی مد میں 2300 ارب روپے خرچ مگر اسکے باوجود آج سندھ میں ہزاروں گھوسٹ اسکولز اور لاکھوں گھوسٹ ٹیچرز ہیں جسے تمام بین الاقوامی ایجنسیوں نے رپورٹ کیا نئے تعلیمی ادارے کھلنے کے بجائے سرکاری اسکولوں کو بند کیا جارہا جبکہ سندھ میں پینے والے پانی کے پائپ بھی تبدیل نہیں کیے گئے جو عرصہ دراز سے لگے ہوئے ہیں کراچی سے پی ٹی آئی کے رہنماؤں حلیم عادل شیخ اور علی زیدی کھل کر بولتے رہتے ہیں وہ بھی حساب مانگتے رہتے ہیں انکا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کو27فروری کو لانگ مارچ نکالنے سے قبل عوام کو جواب دینا ہوگا کہ سندھ کی بیٹیوں کو قتل کرکے خودکشی کا نام کیوں دیا گیا؟ 2022میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہوچکی ہے کہ گھروں میں گھس کر عزتیں لوٹی جارہی ہیں اور ملزمان آزاد کیوں ہیں؟ بھنڈ برادری کے لوگوں کا قتل اور بیٹیوں کو بے آبرو کیا گیا۔
پیپلز پارٹی گزشتہ 15 سالوں سے سندھ پر حکومت کر ر ہی ہے اور انہوں نے پولیس سمیت تمام اہم اداروں کو تباہ حال کردیا ہے صوبے میں دو ٹانگوں والے چوہے 19 ارب کی گندم کھا گئے ہیں یہاں کے ہسپتالوں کی حالت بھی بہت خراب ہے جبکہ کراچی کے سابق ناظم اورپاک سر زمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفی کمال کا کہنا بھی یہی ہے کہ سندھ میں بلدیاتی اداروں کو فنڈزجان بوجھ کر منتقل نہ کرنا بھی ایک سازش ہے تاکہ پیسے کے کھانے میں آسانی رہے اگر اٹھارویں ترمیم کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچے تو صوبوں سے اٹھارویں ترمیم بھی چھن جائے گی اٹھارویں ترمیم سے صوبوں کو جو اختیارات ملے وہ نچلی سطح پر منتقل نہیں ہوئے پاکستان کے آئین میں تین ترامیم کی اشد ضرورت ہے جن میں پی ایف سی ایوارڈ کے ذریعے این ایف سی ایوارڈ براہ راست صوبائی حکومت کیذریعے ڈسٹرکٹ کو منتقل کیا جائے۔
آرٹیکل 140 اے کے تحت بلدیاتی حکومت اور ماتحت محکموں کے اختیارات پاکستان کے آئین میں ناصرف شامل کیے جائیں بلکہ ان کے اختیارات واضح طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرز پر لکھے جائیں تاکہ کوئی وزیر اعلیٰ آئین کی تشریح اپنی مرضی کے مطابق نا کرسکے تیسری ترمیم کے زریعے بلدیاتی انتخابات کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے مشروط کیے جائے تاکہ جمہوریت کو اسکی روح کے مطابق لاگو کیا جاسکے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور خصوصاً حکمران جماعتوں کے کارکنان و ہمدرد اپنی قیادت سے پانی، سڑکیں، ٹرانسپورٹ، ہسپتال، تعلیمی ادارے، پارک اور سیوریج کے نظام کے نام مانگیں بلکہ ان تمام کے بنانے اور چلانے کا اختیار اور وسائل طلب کریں بلکہ اس کیلیے پنجاب ایک بہترین مثال ہے جہاں وزیر اعلی سردار عثمان نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں مثالی کام کیے پسماندہ ترین علاقوں کو بھی اعلی سہولتیں فراہم کردی یہاں تک کہ راجن پور اور ڈی جی خان جیسے علاقوں میں بھی یونیورسٹیاں اور ہسپتال بن رہے ہیں۔