میں سب سے پہلے یہ بات واضح کرتا جائوں کہ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میں پاکستان پیپلزپارٹی یان لیگ کا خامی ہوں اُن لوگوں کی سوچ پر میں صرف ہنس ہی سکتا ہوں کیونکہ میں سب سے زیادہ پاکستان میں تبدیلی کا خامی ہوں اب چلتے ہیں پاکستان تحریک انصاف کی طرف میرے پچھلے کالم”عمران خان مجرم ہوگا”کے بارے میں عمران خان کے خامیوں اور میرے کچھ دوستوں نے مجھ سے چند سوالات کئے تھے جن کہ جوابات میں اپنے اس کالم میں دوں گا۔ سب سے پہلے تو میں اُن سیاسی رہنمائوں کے نام بتائوں گا جودوسری جماعتوں سے پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں۔
شاہ محمود قریشی، پرویز خان خٹک، شفقت محمود، شوکت علی یوسفزئی (سابقہ پارٹی پاکستان پیپلزپارٹی) خورشید محمود قصوری، جہانگیر خان ترین، نادر لغاری، اسحاق خان خاکوانی (سابقہ پارٹی مسلم لیگ ق) میاں محمود الرشید، اسد قیصر (سابقہ پارٹی جماعت اسلامی)اعظم خان سواتی (سابقہ پارٹی جمعیت علمائے اسلام ،ف)یہ ایک لمبی فہرست ہے جس کیلئے کئی کالم لکھنے پڑیں لیکن اس کالم میں، میں صرف اُن لوگوں کا ذکر کروں گا جو عمران خان کے دائیں بائیں کھڑے ہوتے ہیں۔ ان تمام لوگوں کو اپنی سابقہ پارٹیوں میں اہم عہدوں سے بھی نوازا گیا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگران لوگوں میں اتناٹیلنٹ تھا تو ان لوگوں نے اپنی سابقہ پارٹیوں میں خاطر خواہ کارکردگی کیوں نہیں دکھائی۔
ان کے پاس صرف ایک ہی ٹیلنٹ ہے اور وہ ہے پیسہ جس وجہ سے یہ ہرپارٹی کی ضرورت بن چکے ہیں۔ عمران خان کو پیسے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ پارٹیاں پیسے کہ بغیر نہیں چلتی۔ کاش کہ عمران خان ان لوگوں کا سہارا لینے کی بجائے غریب عوام سے اپیل کرتا میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ لوگوں نے دس، دس، بیس، بیس روپے اکٹھے کر کے ایک خطیر رقم عمران خان کی جھولی میں ڈال دینی تھی۔ شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کیلئے غریب عوام بالکل اسی طرح عمران خان کی مدد کرچکی ہے۔
امیر ہونا، سرمایہ دار ہونا، جاگیردار ہونا جرم نہیں لیکن ان لوگوں کی وجہ سے غریب آدمی کے دل میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خلاف نفرت پیدا ہو گئی ہے۔ یہ لوگ جب چاہتے ہیں اپنی دولت خرچ کرکے غریبوں کو آگے آنے سے روک دیتے ہیں۔ حق داروں کی حق تلفی کرتے ہیں اور جب ایک پارٹی کی مقبولیت کم ہوتی ہے تو دوسری ابھرتی ہوئی پارٹی کاحصہ بنتے ہیں۔ یہ لوگ چڑھتے سورج کے پجاری ہیں ان کا ماضی دیکھتے ہوئے یہ بات آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں اگر پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت میں کمی ہوگی تویہ اسے چھوڑ کر کسی اور جماعت میں شامل ہوج ائیں گے۔ تب ساری جماعت ایک تماشہ بن جائے گی۔ اس کی ایک واضح مثال مخدوم جاوید ہاشمی ہے۔
جس کے جانے سے پاکستان تحریک انصاف کی جو جگ ہنسائی ہوئی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ بے شک جاوید ہاشمی الیکشن ہار گیا ہے لیکن پارٹی کی ساکھ کو بہت متاثر کر گیا ہے اور پارٹی کارکنوں اور مخالفین کے لئے بہت سی نئی چہ مگوئیاں چھوڑ گیا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان جسے دیکھے گاکہ وہ سہی کام نہیں کر رہاوہ اسے پارٹی سے نکال دے گا۔ ایک آدمی کو نکالنے سے عمران خان پر الزامات کی اتنی بوچھاڑ ہوئی ہے اور پارٹی کو اتنا نقصان ہواہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پارٹی مزید دھچکے برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
کسی بھی پارٹی کا ساتھ دینا بری بات نہیں مگر اندھا ساتھ دینا انتہائی بری بات ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ تحریک انصاف کا کارکن تعلیم یافتہ اور نظریاتی ہے ایسا کارکن دوسری پارٹیوں پر تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی پارٹی میں ہونے والی بے ضابطگیوں کے خلاف آواز ضرور اٹھاتا ہے مگر مجھے یہ جان کربہت افسوس ہوا ہے کہ اس جماعت میں بھی اندھا دھند اعتماد کرنے والے کارکن موجود ہیں۔
Sheikh Rashid
عمران خان ن لیگ کے ساتھ باہمی مشاورت سے الیکشن کا بائیکاٹ کرے تو کوئی پوچھ گچھ نہیں عمران خان شیخ رشید سے اتحاد کرے تو کوئی پوچھ گچھ نہیں عمران خان طاہرالقادری کو بڑا بھائی بنالے تو کوئی پوچھ گچھ نہیں وہ جماعتیں جن کے کرپٹ رہنمائوں سے تنگ آکر غریب عوام نے تحریک انصاف کا رخ کیا تھا آج ان جماعتوں کا زیادہ تر حصہ تحریک انصاف میں موجود ہے اس پر بھی کوئی پوچھ گچھ نہیں۔ آج “گو نواز گو”کے نعرے لگوائے جا رہے ہیں لیکن مجھے یہ اُمید ہے کہ اگر کل کو میاں نواز شریف اپنی جماعت کی قیادت سے استعفیٰ دے کر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کردے تو نہ صرف اسے شامل کر لیا جائے گا بلکہ پی ٹی آئی کا صدر بھی بنا دیا جائے گا۔ آج پی ٹی آئی کے نوجوانوں کو یہ سبق پڑھایا جا رہا ہے کہ نواز شریف جیسا کرپٹ انسان دنیا میں نہیں ہے اور کل کو جب وہ تحریک انصاف میں شامل ہوجائے گاتب اچانک اس کے سارے گناہ ڈھل جائیں گے۔
جمہوریت، جمہوریت کا راگ الاپنا تو بہت آسان ہیں مگر جمہوریت کو اپنانا بہت مشکل ہے کیا تحریک انصاف میں اتنی جمہوریت ہے کہ اس کا کارکن کھڑا ہو کر عمران خان سے یہ سوال کرسکے کہ عمران خان تم نے شاہ محمود قریشی کو پارٹی کا حصہ بناتے ہوئے نوجوانوں کا اعتماد حاصل کیوں نہیں کیا۔ تحریک انصاف کے ایک کارکن کا کہنا ہے کہ سور مائوں کو سورمائوں سے ہی ماراجا سکتا ہے۔ میں نے اسے کہا کہ اسلامی تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسی مثال نکال کر مجھے دکھا دو جب برائی کے ذریعے برائی کا خاتمہ کیا گیا ہو دنیا میں جب بھی برائی کا خاتمہ کیا گیا ہے تو وہ صرف ایک ہی طریقے سے کیا گیا ہے یعنی اچھائی کے طریقے سے، میرے اس جواب پر وہ خاموش ہو گیا۔
میں تحریک انصاف کہ ان کارکنوں کو کھلا چیلنج کرتا ہوں جویہ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف میں غریب اور امیر دونوں کو برابری کے حقوق ملے ہیں وہ مجھے کوئی ایک بھی ایسا غریب آدمی پوری پارٹی سے ڈھونڈ کرنکال دیں جو دن کے وقت سائیکلوں کو پنکچر لگاتا اور شام کو الیکشن مہم چلاتا رہا ہو، جو بسوں میں تو لیے بیچنے کے ساتھ ساتھ اپنی الیکشن مہم بھی چلاتا رہا ہو۔جس نے سائیکل پر اپنی الیکشن مہم چلائی ہو۔ جو تندور پر روٹیاں لگانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو یہ کہتا ہو کہ اگر بلے پر مہر لگائو گے تو میں ایم پی اے یاایم این اے بنوں گا۔ مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جس آدمی نے کبھی بھی زندگی میں مزدوری نہ کی ہواسے مزدور کا درد کیسے محسوس ہو گا، جس آدمی نے کبھی بھی زندگی میں ریڑھی نہ لگائی ہو اُسے کیا معلوم ہو گا کہ ریڑھی والا کن مشکلات سے گزرتا ہے۔
جو آدمی کبھی بھی اسکول میں ٹاٹ پر بیٹھ کرنہ پڑھا ہو وہ کیسے اقتدار میں آنے کے بعد ہر سرکاری سکول میں کرسیاں مہیا کرے گا۔ پر انے وقتوں میں اسلامی لیڈر اگر یہ کام نہیں کرتے تھے تو وہ بیس بدل کر مزدوروں، غریبوں، مسکینوں، بے کسوں کے گھر جاتے تھے پھر وہ ان کا درد محسوس کرتے تھے اور کامیاب لیڈر کہلاتے تھے۔ لیکن آج کے لیڈر غریبوں کو پاس بٹھانے سے کتراتے ہیں وہ غریبوں کے پاس کیا خاک جائیں گے۔