تحریر : مزمل احمد فیروزی کراچی والوں کیلئے سب بڑی خبر خوف و دہشت کی علامت کالعدم پیپلز امن کمیٹی اور لیاری گینگ وار کا سرغنہ 55 سنگین مقدمات میں مطلوب جس کے زندہ یا مردہ گرفتاری پر 50 لاکھ روپے انعام تھا ایک ڈرامائی انداز میں گرفتار ہو گیا، ٹرانسپورٹر فیض محمد عرف فیضو کا بیٹا عذیر بلوچ ہے جو 2003 میں ارشد پپو کے ہاتھوں اپنے والد کے اغوا اور بیہمانہ قتل کا بدلہ لینے کیلئے قانون شکن بنا اور جرائم کی دنیا میں قدم رکھا تا کہ اپنے والد کے قتل کا بدلہ لے سکیں ارشد پپو، عذیر بلوچ کے کزن عبدالرحمان ڈکیت کا حریف سمجھا جاتا تھا عبدالرحمان اور ارشد پپو گینگ کے درمیان لیاری میں منشیات اور زمین پر ایک طویل عرصے گینگ وار جاری رہی عدالت میں والد کے مقدمے کی پیروی کے دوران عذیر بلوچ کو ارشد پپو سے دھمکیاں موصول ہوئیں جس پر عبدالرحمان ڈکیت نے عذیر کو اپنے گینگ میں شامل کر لیا۔
اگست 2009 میں پولیس افسر چوہدری اسلم کے انکائونٹر میں رحمان ڈکیت کی موت کے بعد عذیر بلوچ گینگ کا مرکزی کردار کے طور پر ابھر کر سامنے آیااور باقاعدہ دستار بندی کے ذریعے ڈنڈے کے زور پرگینگ کا نیا سربراہ بن گیا اور پھر والد کے قتل کی آگ بجھانے کیلئے مارچ 2103 میں ارشد پپو کو اس کے بھائی اور ساتھی کو ڈیفنس سے اغوا کر کے انتہائی سفاکانہ طریقے سے قتل کردیا عذیر جان بلوچ نے لیاری کا ڈان بن کر زندگی گزارنے کے بجائے ایک دبنگ اور بے خوف رہنما کی طرح زندگی گزارنا چاہی وہ بیک وقت کئی محازوں پر نظر آیا اپنے دشمن کو قتل کرنے کے بعد اس کے سر کو قلم کر کے اس سے ساتھ فٹبال کھیلی تو اس کی دہشت پورے کراچی میں پھیل گئی دوسری طرف وہ ایم کیو ایم سے بھی لڑتا رہا۔
Lyari Gang War
نبیل گبول اور رحمان ملک کے بھی مخالف رہا،محبت سند ھ ریلی میں ایاز لطیف پلیجو کے ہمراہ نظر آیا اور ذوالفقار مرزا کا دست شفقت ہمیشہ اس کے سر پر رہا اور اس نے عذیر بلوچ اور پیپلز امن کمیٹی کو سہارا دیا اب جبکہ وہ گرفتار ہو چکا ہے اوروہ سب جنہوں نے اس کا استعمال کیا وہ سب اُس سے لاتعلق نظر آتے ہیں مگر اس وقت بھی ذوالفقار مرزا اُس کو اپنا چھوٹا بھائی مانتے ہیںاس دوران عذیر بلوچ ایران کے راستے دبئی اور مسقط بھی جاکراپنے کاروبار کی نگرانی کرتا رہا ، یہ سب کے علم میں ہیکہ عذیر بلوچ 29 دسمبر 2014 کو دبئی میں گرفتار ہواتھا اور سب سے پہلے ویڈیو بیان دبئی پولیس کو ریکارڈ کرایا تھا اور پھر اسے جب اپریل 2105میں پاکستانی قانون نافذکرنے والے اداروں کے حوالے کیا گیا تھا تو انہوں نے دوسرا بیان ریکارڈ کرایا۔
ذرائع کا کہنا ہیکہ اگر پیپلز پارٹی نے اپنی روش نہیں بدلی تو ویڈیو منظر عام پرلائی جائے گی عذیر بلوچ نے شرجیل میمن کے خلاف بھی بیانات ریکارڈ کرادئے ہیں بقول نبیل گبول ، عذیر بلوچ کو چھ ماہ قبل گرفتار کر لیا گیا تھا جسے اب منظر عام پر لایا گیا اب وہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے ساتھ ساتھ اہم پردہ نشینوں کے نام سامنے لائے گااگر یہ ویڈیو سامنے آئی تو پی پی کیلئے ایسے ہی انکشافات ہونگے جیسے ماضی میں صولت مرزا نے ایم کیو ایم کے بارے میں کئے تھے۔
عذیر بلوچ نے 18اکتوبر کو بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر بم دھماکوں اور فائرنگ کی کہانی اور 27دسمبر 2007کے سانحہ کا مشکوک کردار خالد شہنشاہ کو رحمان ڈکیت کے ساتھ مل کر مارنے کی تفصیل بھی بتائی ہے پیپلز پارٹی نے کراچی پر قبضے کیلئے لیاری امن کمیٹی بنوائی اور جدید اسلحہ فراہم کیا گیا جبکہ پولیس افسران کے تقرر اور تبادلے بھی اسی کے ایماء پر کئے گئے لیاری کے 700لڑکوں میں سے 550لڑکوں کو پولیس میں بھرتی کیا گیا اور کئی ہزار ممنوعہ اسلحہ لائسنس بھی فراہم کئے گئے ۔ الیکشن میںاویس ٹپی کا کہنا نہ ماننے پر انکے اختلافات آصف زرداری سے پیدا ہوئے۔
کراچی سے یومیہ سوا کروڑ سے زائد بھتہ وصول ہوتا تھا جو اوپر سے لیکر نیچے تک افسران کو پہنچایا جاتا تھا پولیس موبائلز بھی ان کے زیر استعمال ہوا کرتی تھی لیاری گینگ وار کے 40 سے زائد ٹارچر سیل موجود تھے مخالفین کو قتل کرنے کے بعد کیمیکل سے بھرے ڈرموں میں ڈال دیا جاتا تھا یا پھر لیاری کے مختلف علاقوں میں دفن کردیا جاتا تھا انہوں نے جب متحدہ کے علاقوں پر قبضہ کیا تو ایک وزیر نے فون کر کے شاباش دی سندھ حکومت کے 7وزراء کے نام بتائے ہیں جو لیاری گینگ وار کی سرپرستی کرتے تھے ان کے تعلقات انتظامی افسران کے ساتھ ساتھ سیاسی لوگوں سے بھی مراسم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہے ذوالفقار مرزا اور لطیف پلیجو کے ساتھ تو انہوں نے متعدد جلسے کئے ہیں جبکہ کراچی اتحاد کے نام سے شاہی سید ،پنچابی پختون اتحاد،ڈاکٹر پرویز محمود ،مہاجر قومی موومنٹ کے ساتھ ملکر2013میں انتخابی اتحاد کیا اور پی پی کے تمام امیدواروں کو لیاری سے کامیاب بھی کرایا جس کی خوشی میں انہوں نے گھر پر دعوت کی جس میں وزیراعلی سندھ قائم علی شاہ، فریال تالپور، شرمیلا فاروقی، قادر پٹیل اور دیگر پی پی رہنمائوں نے شرکت کی۔
Uzair Baloch
آج وہ ہی پیپلز پارٹی جو 2012 تک عزیر بلوچ کو تحفظ فراہم کرتی آئی آج اسی کو ماننے سے انکاری ہے اور ٹی وی شوز میں پی پی کے رہنماء ایم کیو ایم کی روش پر چلتے ہوئے اپنے ہی لوگوں سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ الیکٹرانک میڈیا تواتر کے ساتھ پی پی رہنمائوں کے ساتھ عذیر بلوچ کی تصویریں دکھا رہا اور سوشل میڈیا پر بھی یہ تصاویر خوب چرچا میں ہے جبکہ وزیراعلی سندھ قائم علی شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ہم پر جب کوئی بات آئے گی تو دیکھیں گے فی الحال تو عذیر بلوچ پر 55 سنگین مقدمات درج ہیں اور امید ظاہر کی ہیکہ شفاف تحقیقات ہوں گی۔
دوسری طرف یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ عذیر بلوچ پانچ شرائط پر وعدہ معاف گواہ بننے کوبھی تیار ہے جس میں سے ایک شرط لیاری میں مقیم ان کے اہل خانہ کو مکمل تحفظ فراہم کرنا اور ان کا باحفاظت پاکستان سے باہر بھجوانے کا انتظامات کرنا ہے۔اب دیکھنا یہ ہیکہ کیا واقعی عزیر بلوچ پیپلز پارٹی کا صولت مرزا ثابت ہوتے ہیں یا پھر سیاست کا ایک پیادہ ہے جو سیاست کی پیالی میں طوفان بر پا کر کے دوسرے سیاستدانوں کی طرح خاموشی سے اسکرین سے غائب کر دئے جاتے ہیں فیصلہ آنے ولا وقت ہی کرے گا۔۔۔۔۔۔