تحریر: نجیم شاہ کراچی آپریشن، جس کا دائرہ کار اب سندھ بھر میں پھیل چکا ہے ایک اہم رائونڈ میں داخل ہو چکا ہے۔ اس مرحلے میں نہ صرف دہشت گردوں بلکہ ان کے سہولت کاروں پر بھی ہاتھ ڈالا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی سندھ بھر میں کرپشن کے خلاف نیب اور رینجرز کا کریک ڈائون بھی جاری ہے اور روزانہ کی بنیاد پر گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ کراچی آپریشن کے دوران کشتیوں میں سونے اور اربوں کی سمگلنگ، بیرون ملک اثاثے بنانے کی سنسنی خیز خبروں کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ سندھ میں خوف و دہشت کے پروانوں کے پَر اب کٹنے کو ہیں یا پھر دہشت گردوں اور کرپشن کے متوالوں کے قصے اب پٹنے کو ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جیسے ہی دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف گھیرا تنک کیا تو سابق صدرآصف علی زرداری نے اعلیٰ فوجی قیادت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دے ڈالی اور پھر افطار ڈپلومیسی کا سہارا لے کر سیاسی رائے عامہ اپنے حق میں کرنے کی ناکام کوشش بھی کی گئی۔ پاک فوج کے خلاف بیان دینے کے بعد انہیں سیاسی اور عسکری حلقوں میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
اس بیان کی سیاہی بھی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ پارٹی کے مختلف رہنماء زرداری کے بیان سے جان چھڑاتے ہوئے نظرآئے۔ اب خبریں آرہی ہیں کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت خاندان اور پارٹی سے وابستہ بعض اہم شخصیات بیرون ملک سدھار گئی ہیں۔فوج کی اعلیٰ قیادت پر برسنے والے ا صف زرداری اپنی صاحبزادی آصفہ بھٹو کے ہمراہ بدھ کی صبح دبئی جا چکے ہیں، ان کے ہمراہ ان کے دست راست رحمان ملک بھی تھے۔
اسی روز رات کو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی اپنی ہمشیرہ بختاور کے ہمراہ معروف شخصیت کے ذاتی طیارے میں دبئی پہنچ چکے ہیں۔ قبل ازیںآصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور، بہنوئی منور تالپور، منہ بولے بھائی اویس مظفر ٹپی اور صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال بھی پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ سندھ کے طاقتور ترین خاندان کا اکٹھ امریکا میں ہو گا جہاں ان کا پڑائو حالات مواقف ہونے تک طویل ہو سکتا ہے۔ سندھ میں کرپشن کے الزامات پر اہم سیاسی رہنمائوں کے فرنٹ مینوں کی گرفتاری کے بعد کئی اہم سرکاری افسران اور سیاسی شخصیات منظرعام سے غائب ہونا شروع ہو گئی ہیں اور بعض شخصیات اب بھی فرار ہونے کے خفیہ راستے تلاش کر رہی ہیں، جن میں سے بعض نے گرفتاریوں کے خوف سے عدالتوں سے حفاظتی ضمانتیں تک منظور کروا لی ہیں۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پر چھاپے اور فشرمینز کوآپریٹو سوسائٹی کے کرتا دھرتائوں کی گرفتاری کے بعد سب سے پہلے آصف زرداری کے منہ بولے بھائی اویس مظفر ٹپی نے اُڑان بھری اور براستہ متحدہ عرب امارات لندن جا پہنچے۔
اگلے ہی روز سندھ کی بااثر ترین خاتون فریال تالپور ، شوہر منور تالپور اور وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال کی چھترچھایہ میں خاموشی سے پہلے دبئی اور پھر وہاں سے لندن پرواز کر گئیں۔ اویس مظفر ٹپی کو ایئر پورٹ پر کچھ دیر تفتیش کیلئے روکا بھی گیا تاہم حکام کو بتایا گیا کہ اویس مظفر ٹپی کے بھائی کا لندن میں انتقال ہو گیا ہے اور وہ میت وصول کرنے جا رہے ہیں۔ اویس مظفر ٹپی کے ساتھ سندھ کے سیکرٹری تعلیم اورآصف زرداری کے بہنوئی فضل اللہ پیچوہو کو بھی کراچی ایئر پورٹ پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پوچھ گچھ بھگتنا پڑی۔ ایک گھنٹے تک کی جانے والی پوچھ گچھ کے بعد فضل اللہ پیچوہو کو بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا جبکہ اویس مظفر ٹپی کو میت کے ہمراہ واپس آنے کی شرط پر جانے کی اجازت دی گئی۔
PPP
حیرت انگیز طور پر اویس مظفر کے بھائی کے انتقال کی خبر بھی میڈیا کو تب ملی جب انہیں ایئرپورٹ پر روکا گیا اور ابھی تک اویس مظفر لندن سے واپس نہیں لوٹے، نہ ہی ابھی تک کوئی فاتحہ خوانی ہوئی۔ اس سے بھی بڑھ کر حیرت کی بات یہ ہے کہ زرداری سمیت پیپلز پارٹی کے کسی رہنماء نے اویس مظفر سے تعزیت کے دو لفظ تک نہ کہے۔ معلوم ہوا ہے کہ آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کی اربوں روپے کی کرپشن کے شواہد سامنے آچکے ہیں اور رینجرز نے کرپٹ سیاست دانوں کی جو لسٹ تیار کی ہے اس میں فریال تالپور اور ان کے شوہر کا نام ٹاپ پر ہے۔ فریال تالپور سندھ حکومت چلانے میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں، تبادلوں سے لے کر زمینوں کی فائلوں تک سب کچھ انہی کے اشاروں پر ہوتا رہا۔ کرپشن اور کالے دھن کی کہانیاں منظرعام پرآنے کے بعد وہ بھی بیرون ملک فرار کا راستہ ڈھونڈ رہی تھیںاور ایک ہفتہ قبل ہی بیرون ملک جانے کی تیاریاں مکمل کر لی تھیں تاہم اس روانگی کو خفیہ رکھا گیا تاکہ انہیں ایئرپورٹ پر روکا نہ جا سکے۔
ایک طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ وفاقی وزارت داخلہ نے سندھ کے صوبائی وزراء اور اعلیٰ افسران سمیت چھبیس افراد کے نام ای سی ایل میں ڈال دیئے ہیں جن میںآٹھ صوبائی وزراء بھی شامل ہیں۔ ان چھبیس افراد کے علاوہ دیگر افراد کے نام بظاہر ای سی ایل میں شامل نہیں ہیں لیکن ایسے افراد کو غیر اعلانیہ طور پر ای سی ایل میں تصور کیا جاتا ہے اور یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کئی ایسے افراد ملک کے سرحدی راستوں سے بیرون ملک فرار ہو سکتے ہیں۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے منظور کاکا بھی ایسے ایسے افراد میں شامل ہیں جنہیں ادارے پر چھاپہ پڑنے کا شاید پہلے ہی ادراک ہو گیا تھا اور وہ چھاپے سے اڑتالیس گھنٹے قبل ہی کراچی سے اسلامآباد روانہ ہوئے جہاں سے کرائے کی کار لے کر وہ گلگت پہنچے۔
بلیو پاسپورٹ ہولڈر ہونے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ گلگت سے چین کے شہر کاشغر پہنچے اور اب خبریں ہیں کہ چین میں مختصر قیام کے بعد وہ بیجنگ ایئرپورٹ سے کینیڈا کے شہر ٹورنٹو پہنچ چکے ہیں۔ اسی طرح ایڈمنسٹریٹر کراچی ثاقب سومرو بھی رخصت لے کر ملک سے باہر چلے گئے ہیں اور یہ بھی اطلاعات ہیں کہ کئی اعلیٰ افسران نے باقاعدہ چھٹی کی درخواستیں بھی دے رکھی ہیں۔ کراچی میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف جاری آپریشن کے دوران سندھ کے سب سے بڑے سیاسی خاندان کے کرتا دھرتائوں سمیت دیگر اہم سیاسی رہنمائوں اور افسران کا خاموشی سے بیرون ملک چلے جانا جہاں وفاقی حکومت کی آپریشن میں سنجیدگی اور قومی اداروں کی واچ لسٹ پر کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے وہیں پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کے ملک سے باہر ہونے پر اب پارٹی کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اگر خدانخواستہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین نآصف علی زرداری میں سے کوئی بھی جلد واپس نہ آیا اور بیرون ملک قیام طویل ہو گیا تو پھر قومی پارٹی سے سکڑ کر صرف سندھ تک محدود ہونے والی پیپلز پارٹی کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ جائیگا۔