تحریر : واٹسن سلیم گل آج کل پیپلزپارٹی ہر اُس بات کا کریڈ ٹ لینے کا شور مچا رہی ہے جو کام اس نے کبھی کیا ہی نہی۔ سندھ میں ترقیاتی منصوبے، کراچی کا امن و امان اور اقلیتوں کے حقوق اور ان کو انصاف کی فراہمی کا شور مچایا جارہا ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ برابری کے سلوک کے حوالے سے پنجاب میں پی ایم ایل نون کی کارکردگی تو بحرحال صفر ہے ہی مگر سندھ میں پیپلزپارٹی نے بھی اقلیتوں کے ساتھ انصاف کے حوالے سے کوئ جھنڈے نہی گاڑے۔ سندھ میں بھی اقلیتوں کا وہی حال ہے جو پنجاب میں ہے۔
خصوصی طور پر اندرون سندھ میں ہندو اور مسیحی کمیونٹی کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس میں کوئ شک نہی کہ پیپلزپارٹی کے ابتدائ دور میں اقلیتوں کو زوالفقار علی بھٹو میں ایک ایسا لیڈر نظر آیا کہ انہیں لگتا تھا کہ بس اب پیپلزپارٹی اقلیتوں کو برابری کے حقوق دلانے میں کامیاب ہو گی ۔ کیونکہ ابتدائ دور میں بھٹو کے نعرے ایسے ہی تھے۔ کہ زمیدار، اور کسان، امیر اور غریب، صنعتکار اور مزدور اقلیت اور اکثریت میں تقسیم ختم ہو جائے گی۔ مگر حکومت بناتے ہی بھٹو صاحب نے تمام مسیحی مشنری ادارے بشمول اسکول اور ہسپتال سب قومیاں لئے۔ دلیل یہ دی کہ حکومت کی تحویل میں یہ ادارے مضید بہتر طور پر کام کریں گے۔ مگر وہ ادارے ایسے تباہ ہوئے کہ آج 45 سال بعد بھی وہ اپنی اُس حثیت میں واپس نہی آ سکے جس میں کہ وہ قومیائے جانے سے قبل تھے۔
ہم سنتے تھے کہ پاکستانی کی بڑی بڑی شخصیات انہی مشنری اسکولوں سے پڑھ لکھ کر نہ صرف اعلی عہدوں تک پہنچی بلکہ وہ اکثر اس بات پر فخر کرتے نظر آتے تھے کہ وہ فلاں کرسچن اسکول سے پڑھے ہیں۔ اس میں کوئ شک نہی کہ بھٹو صاحب ایک قابل لیڈر تھے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ قائداعظم کے بعد اگر پاکستانی قوم کو کوئ لیڈر ملا تو وہ بھٹو صاحب تھے۔ پاکستان کے لئے ان کی خدمات پر شاید ان کا مخالف بھی انکار نہی کر سکتا۔ ایک مکمل آئین بنایا اور پاکستان کی تمام سیاسی اور مزہبی جماعتوں کو ایک ساتھ ملا کر متفقہ طور پر یہ کام کرنا کسی کارنامے سے کم نہی تھا۔ جبکہ بہت سی مزہبی جماعتیں ان کے ساتھ بیٹھنا پسند نہی کرتی تھیں۔ دوسرا کارنامہ پاکستان کے جوہری پروگرام کا آغاز تھا۔ اگر یہ آغاز نہ ہوتا تو آج ہم بھارت کی چمچہ گیری کرنے پر مجبور ہوتے۔ دنیا ہمیں نیوکلر پلانٹ تک لگانے کی اجازت نہی دے رہی تھی۔ بلکہ فرانس نے اس حوالے سے ایک مہادہ کر کے توڑ دیا تھا۔ مگر بھٹو صاحب ، ڈاکٹر عبدل قدیر اور دیگر سائینسدانوں نے نیوکلر پلانٹ تو کیا بلکہ نیوکلر انرچمنٹ پلانٹ لگا کر دنیا کو حیران کر دیا۔
بھٹو صاحب گفتار اور افکار کے حوالے سے دبنگ قسم کے لیڈر تھے۔ جلدی دنیا سے رخصت ہو گئے مگر بعد میں یہ پیپلزپارٹی چوں چوں کا مربہ بنتی گئ۔ لوگ کہتے ہیں کہ بے نظیر کے زمانے تک پیپلزپارٹی ٹھیک ہاتھوں میں تھی مگر میں اس تاثر کو غلط قرار دیتا ہوں حالات بتاتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو دو بار وزیراعظم ضرور رہیں مگر اصل وزیراعظم وہ نہی تھیں۔ یہ وہی دور تھا جب مسٹر 10 پرسنٹ جیسی اصتلاح کا وجود ہوا۔ چونکہ میرا اس وقت یہ موضع نہی ہے اس لئے تفصیل میں نہی جاؤنگا۔ بے نظیر کا دور حکومت بھی اقلیتوں کے حوالے سے شرمناک رہا۔ وہ خود خاتون تھیں مگر ان کے دور میں ہزاروں ہندو خواتین جبری زیادتی اور تبدیلی مزہب کا شکار رہیں۔ وہ بے نظیر ہی کا دور تھا جب اندرون سندھ سے ہندو کمیونٹی بلخصوص خواتین بھارت جا کر پناہ تلاش کرتی رہیں۔ پیپلزپارٹی کے دور میں ادرون سندھ جہاں ہندو کمیونٹی کی تعداد لاکھوں میں ہے وہاں وہ جن حالات میں رہ رہے ہیں اسکا اظہار لفظوں میں کرنا مشکل ہے۔ چند ماہ قبل بلاول زرداری نے ایک موقع پر ایک بار پھر مسیحیوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جب انہوں نے یہ بیان دیا کہ میں پاکستان میں ایک مسیحی وزیراعظم دیکھنا چاہتا ہوں۔
اگر نیت واقئ یہ ہو تو اپنے طور پر اسکا آغاز کریں۔ ارے بھائ بلاول صاحب کو کوئ سمجھائے کہ پاکستان میں ایک مسیحی وزیراعظم کے لئے تو آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے مگر ایک کام تو بلاول صاحب کے ہاتھ میں ہے وہ یہ کہ وہ پیپلز پارٹی سے یہ نام نہاد اقلیلتی وینگ ختم کرایں اور اقلیتوں کو قومی سیاست کا حصہ بنایں۔ اور کسی مسیحی کو لاڑکانہ سے ٹکٹ دلوا کر جتوایں اور پھر اسے پیپلزپارٹی کی جانب سے وزیراعظم نامزد کریں۔ چاہے اسے شکست ہی کیوں نہ ہو کم از کم آغاز تو کر سکتے ہیں۔ مگر جو جماعت اقلیتوں کے تحفظ کا بل اپنے صوبے میں جہاں ان کی اپنی حکومت ہے پاس نہی کروا سکی وہ اقلیتی وزیراعظم کہاں سے لائے گی۔ اب لالی پاپ کا وقت نہی ہے ۔ عملی طور پر اقلیتوں کے لئے کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔یہ پیپلزپارٹی کا دور ہی تھا جب توہین رسالت کے قوانین میں ترمیم کے لئے ایک کمیٹی کی تشکیل کا شوشہ چھوڑا گیا جسے بین الاقوامی طور پر پزریائ حاصل ہوئ۔ اس کمیٹی کا بوجھ شہباز بھٹی کے کاندھوں پر رکھ دیا گیا جس کمیٹی کا کوئ وجود ہی نہی تھا۔ پیپلزپارٹی بھی جانتی تھی کے شہباز بھٹی کی جان کو خطرہ ہے اور شہباز بھٹی نے خود بھی اپنی حفاظت کے لئے اپنے تحفظات کا زکر کیا مگر کوئ توجہ نہ دی گئ۔ اور پھر شہیدوں کی جماعت کا کریڈٹ لینے والی جماعت میں ایک اور شہید کا اضافہ ہوگیا۔
بشپ جان جوزف کے بعد شہباز بھٹی مسیحیوں کی اکلوتی آواز تھی جسے پیپلز پارٹی نے اپنی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا۔ جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں تو دو مختلف مقامات پر دو مسیحیوں کو پنجاب میں قتل کر دیا گیا ہے ایک تو سیالکوٹ میں 45 سالہ امین مسیح کو وقت پر ادھار واپس نہ کرنے پر عثمان، محمد علی، یاثر باجوا نے کمرے میں بند کر کے آگ لگا دی جس سے امین مسیح جل کر جاں بحق ہوگیا پولیس نے اس کی لاش پوسٹمارٹم کے لئے علامہ اقبال میمورئیل ہسپتال سیالکوٹ پہنچا دی۔ دوسرے واقعہ میں ایک مسیحی گاسپل سنگر گلشن شہباز کو قتل کر دیا گیا ہے۔ قتل تو ہوا ہے تصاویر بھی دیکھی ہیں مگر اس کی تفصیل میرے پاس موجود نہی ہے۔ خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔