اسلام آباد (جیوڈیسک) وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کے لوگ قوم میں مایوسی پھیلا رہے ہیں اور وہ جو پیغام دے رہے ہیں اس سے دہشت گردوں کے ایجنڈے کو تقویت مل رہی ہے۔
اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے اور اس میں سب سے اہم پہلو نفسیاتی ہے لیکن پیپلزپارٹی کے چند مخصوص لوگ جو پیغام دے رہے ہیں وہ دہشت گردوں کے ایجنڈے کو تقویت دے رہے ہیں، حالت جنگ میں دونوں طرف سے وار ہوتے ہیں، اگر ہم دہشت گردوں پر کاری ضرب لگاتے ہیں تو وہ بھی پلٹ کر کارروائی کرتے ہیں لیکن دہشت گردی کا ایک واقعہ ہوجائے تو طوفان برپا کردیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنہوں نے نیشنل ایکشن پلان پڑھا ہی نہیں وہ اس پرتبصرے کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنی 5 سالہ حکومت سو کر گزاری، آپریشن ضرب عضب کو نیشنل ایکشن پلان کا حصہ قراردیا جارہا ہے لیکن نیشنل ایکشن پلان میں فوج کا کردارمحدود ہے، ماضی کی حکومت میں ایک سال کے دوران ڈھائی ہزارسے زائد شہادتیں ہوئیں جو سال 2014 میں کم ہوکرسات سو تک آئیں اورگزشتہ سال 400 سے بھی نیچے آئی ہیں، صرف 2014 میں 2 بڑے واقعات ہوئے اور گزشتہ سال صرف ایک بڑا واقعہ ہوا جس سے پتہ چلتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے بعد سیکیورٹی صورتحال میں کافی حد تک بہتری آئی ہے، دہشت گردوں کے نیٹ ورک توڑ دیئے گئے ہیں اس لئے وہ آسان ہدف کو نشانہ بناتے ہیں۔
وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو میری شکل پسند نہیں، ڈاکٹرعاصم کے حوالے سے بات کرنی ہے، اگر کرپشن کیسز کے حوالے سے تکلیف ہے تو وہ اس حوالے سے بات کرے اس کا جواب دینے کو تیار ہوں، اگرمیں تنقید کرنا چاہوں تو ہماری مخالف جماعتیں بھی حکومت میں ہیں، میں نے کبھی ان پرتنقید نہیں کی، میں نے اشارہ تک نہیں دیا، وقت آگیا ہے کہ ان لوگوں کو قوم کے سامنے لایا جائے جو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک خاندان کے سب چھوٹے بڑے مجھ پرتنقید کر رہے ہیں، جن سیاستدانوں نے اپنے دور حکومت میں خود کچھ نہیں کیا ان کے دور میں کئی دھماکے ہوتے تھے لیکن ان کا جواب ہوتا تھا کہ ہم 5 سال پورے کریں گے اوراینٹ سے اینٹ بجانے والے مجھے کنکریاں ماررہے ہیں۔
چوہدری نثارعلی خان کا کہنا تھا کہ مجھے بیماری میں ڈاکٹروں اور وزیراعظم کی جانب سے آرام کا کہا گیا لیکن میں کام کرتا رہا، میری طبیعت خراب ہونے پرکہا گیا کہ وزیرداخلہ کہاں غائب ہیں، بیمارتوکوئی بھی ہوسکتا ہے اورمیری بیماری پر مذاق اڑاتے ہوئے طرح طرح کی باتیں کی گئیں، ایک سید کی جانب سے غلط بیانی پرافسوس ہوا، اپوزیشن لیڈر نے اپنے اہم ترین عہدے کا کس طرح فائدہ اٹھایا اس کی ایک الگ کہانی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میری غیرموجودگی میں سینیٹ میں تحریک استحقاق لائی گئی تاہم چیئرمین سینیٹ کا مشکور ہوں جنہوں نے اس کی اجازت نہیں دی۔
وفاقی وزیرداخلہ نے دہشت گردی کے خوف سے اسکولوں کی بندش کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ قوم کو متحرک کرنا ہوگا، یہ سرحد کی نہیں بلکہ اندرکی جنگ ہے، چھوٹی موٹی دھمکیوں پرصوبوں کو دہشت گردی کے خوف سے اسکول بند نہیں کرنے چاہیئے، خیبرپختونخوا حکومت نے اسکول بند نہ کرکے اچھی مثال قائم کی، دہشت گرد چاہتے ہیں کہ ہم اسکول بند کردیں اوردبک کربیٹھ جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیئے کہ قانون نافذ کرنے کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہوتی ہے لیکن آج تک کسی صوبے پرتنقید نہیں کی اور میرا ایمان ہے کہ اگر یہ جنگ جیتنی ہے تو آپس میں نہیں بلکہ دشمن سے لڑنا ہے، جب حالت جنگ میں ہوں تو اپنی قوم کو مایوسی اور ہیجان انگیزی میں نہیں دکھیلا جاتا،اگرمایوسی پھیلائیں گے تو وہ دشمنوں کے حوصلے بڑھانے کے مترادف ہے، یہ مشکل جنگ ہے اس لئے التجا ہے کہ قومی سلامتی پر سمجھوتہ نہ کیا جائے۔