تحریر : قادر خان افغان 27دسمبر پاکستانی سیاست کا ایک ایسا سیاہ دن ہے ، جس میں دو مرتبہ وزیر اعظم رہنے والی بے نظیر بھٹو کو ایک ایسی منظم سازش کے تحت نشانہ بنایا گیا ، جس کے تانے بانے ابھی تک نہیں سلجھ سکے۔پی پی پی اپنے 5 برسوں کے اقتدار کے باوجود بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کے ساتھ ساتھ ، سازش کے محرکات کو سامنے لانے میں ناکام رہی ، اقوام متحدہ کی جانب سے بھی ایک کمیشن نے تفتیش کی ، لیکن شواہد کو اس صفائی کے ساتھ دھو دیا گیا کہ صرف الزامات کی سیاست ہی رہ گئی اور سب کچھ بہہ گیا ۔ مفاہمت کے نام پر سیاست میں آصف علی زرداری نے نئے پیچ خم اور نئے قوانین کو اس طرح متعارف کرایا کہ سیاسی پنڈت آج تک ان کی سیاسی حربوں کو سمجھنے میں قاصر ہیں ۔جس طرح آصف علی زرداری ، پاکستان کے ایک با اختیار صدر منتخب ہوئے اور پھر پارلیمنٹ کو ویٹو پاور کے اختیارات دے کر ایوان صدر کو عبرت ناک علامتی نشان بنایا کہ گڑھی خدا بخش کے جلسے میں، انھوں نے صدر پاکستان کی حیثیت پر ہی سوال اٹھا دیا کہ آخر صدر پاکستان کا عہدہ کیوں ہے؟۔نہ جانے آئین بنانے والوں نے ایسا قانون بناتے وقت کیا سوچا ہوگا کہ کسی عہدے کے لئے منتخب تو سیاسی جماعت کے ووٹ کریں ، لیکن اس کا غیر سیاسی ہونا ضروری ہے۔ جب ووٹ ہی سیاسی جماعتیں دے رہی ہیں تو وہ غیر سیاسی کیسے ہوسکتا ہے؟۔
حسب توقع سابق صدر زرداری کے آنے کا مقصد واضح ہوگیا کہ انھوں نے اپنی اگلی باری لینے کیلئے عوامی انتخابات کی تیاری شروع کردی ہے۔پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ایک جانب حکومت کو چیلنج کرنے نکلے ہیں تو دوسری جانب ان کی جانب سے چار مطالبات کو نواز حکومت نے اہمیت نہ دے کر ، پی پی پی کی سیاسی رٹ کو چیلنج کردیا ہے۔نواز حکومت نے لانگ مارچ ، دھرنوں اور مظاہروں کو نمٹنے کا وسیع تجربہ حاصل کرلیا ہے ، مخالفین نواز شریف کی جانب سے انتہائی حد تک جانے کے باوجود حسب خواہش کامیابی حاصل نہیں کرسکے ، لیکن میاں صاحب کو وسیع تجربہ ضرور دے کر دیگر سیاسی جماعتوں کے لانگ مارچ کے غباروں سے ہوا نکالنے کی راہ ضرور ہموار کردی ہے ، اگر پی پی پی کے اپوزیشن لیڈر کی بات دوہرائی جائے کہ پاکستان تحریک انصاف نے سولو فلائٹ کرکے نواز شریف کو مضبوط کیا تو غلط نہیں ہوگا ، کیونکہ عمران خان کی سیاسی ناپختگی ہی تھی ، جس کی وجہ سے اپوزیشن کی دیگر جماعتیں تحریک انصاف کی مخالف بن گئیں ۔باپ ، بیٹے دونوں سندھ کی مورثی سیاست سے منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں جانے کی تیاری کر رہے ہیں اور نتیجہ سب جانتے ہیں کہ فیوڈل ازم کی سندھ سیاست میں ان کی کامیابی یقینی ہے۔
خورشید شاہ کی جگہ آصف زرداری آجاتے ہیں تو آنے والے انتخابات کی تیاری میں حسب سابق وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پس پردہ اتحادی کی صورت میں ایک نکاتی ایجنڈے پر غیر اعلانیہ اتحاد ضرور کریں گے کہ کچھ بھی ہوجائے ، پاکستان تحریک انصاف کو کہیں سے بھی واضح کامیاب نہ ہونے دیا جائے۔ عمران خان کے مطالبات درست رہے ہیں لیکن ان کے منوانے کا طریقہ کار مملکت اور اداروں کیلئے بڑا خطر ناک رہا ہے۔پاکستان مسلم لیگ ن کی طرح پی پی پی بھی یہی سمجھتی ہے کہ تحریک انصاف نے ان کی صفوں میں دراڑ پیدا کرکے سیاسی ہل چل ضرور پیدا کی ہے ، اس لئے دونوں جماعتوں کا متفقہ ایجنڈا یہی ہوگا کہ عمران خان کامیابی کا منہ نہ دیکھ سکیں ۔چونکہ انتخابات کیلئے نگران سیٹ اپ اپوزیشن اور حکمران جماعت منتخب کرتی ہے ، اس لئے اس موقع پر آصف زرداری کی سیاسی چالوں کا مقابلہ میاں نواز شریف کیلئے مشکل ہوگا ۔ عمران خان کی ایوان سے غیر حاضریوں کا فائدہ اٹھا کر پی پی پی کا ہلا گلا جہاں پارلیمنٹ میں ہوگا ، وہاںبلاول زرداری عوامی رابطہ مہم میں پی پی پی کا مورال دوبارہ اٹھانے کی کوشش کریں گے ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ان کے پرانے اتحادیوں کا الائنس دوبارہ بنتا نظر آرہا ہے ، سندھ میں دیہی آبادیوں میں حسب سابق فیوڈل ازم کی موجودگی کے سبب کسی بڑے اپ سیت کی توقع نہیں رکھنی چاہیے ، پاکستان مسلم لیگ فنکشنل ، ایم کیو ایم کا گر اتحاد ہوتا بھی ہے تو پی پی پی کو کمزور کرتا نظر نہیں آتا۔
Politics
خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اے این پی ، جمعیت علما ء اسلام ف ، پی پی پی کے ساتھ سیاسی اتحاد کا حصہ بنے گی اور پاکستان کے طول و عرض میں اگر دیکھا جائے تو بادی النظرعمران خان ، سیاسی تنہائی کا شکار نظر آتے ہیں۔آصف علی زرداری ،سابق صدر پاکستان ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے سینے پر وزیر اعظم پاکستان کا تغمہ بھی لگانا چاہتے ہیں اور پی پی پی کے تمام سیاسی حلقوں کو واضح پیغام بھی دے دیا ہے کہ وزارت اعظمی کے عہدے کیلئے جگہ خالی نہیں ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی یا راجہ پرویز اشرف کی طرح کوئی امیدیں وابستہ کرلے۔سب سے اہم نقطہ مردم شماری کے بعد انتخابی حلقوں کی دوبارہ حد بندیاں ہیں ، جس کیلئے تمام سیاسی جماعتوں نے ابھی سے کمر کس لی ہے ۔پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ ن کا غیر اعلانیہ مفاہمتی اتحاد ناگزیر ہے جس کی تجدید بھی غیر اعلانیہ ہوگی۔سابق صدر آصف زرداری نے جس طرح اپنی سیاسی چالوں سے کنگ میکر پارٹی متحدہ قومی موومنٹ کو کمزور کرکے پاکستان مسلم لیگ ق کو اپنے ساتھ ملالیا تھا ، اور اب سیاسی طور پر ایم کیو ایم کا جو حال ہے ، اس کا سہرا بھی پی پی پی کو ہی جاتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی تبدیلی کیلئے طرز حکمرانی کو تبدیل کرنا ہوگا ، پاکستانی سیاست میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی ہے ، بلکہ سیاسی تشدد اور عدم برداشت میں اضافہ دیکھنے کے ساتھ ساتھ سیاسی وفا داریوں کو ضمیر کے نام پر بدلنے کے رجحان میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
جمہوری نظام کا اہم جُز شفاف انتخابات کا انعقاد ہے ، جو پاکستان میں ممکن نظر نہیں آتا ۔ سیاسی کلچر تو فیوڈل ازم، سرمایہ داروں ، خوانین ، سرداروں اور وڈیروں کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے نقشے ہیں کہ جس طرح بھی ہو اس میں لکیریں ڈال کر من پسند کمالات دیکھا سکتے ہیں۔پی پی پی کی سیاست سے بھی پاکستانی عوام بخوبی آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ پی پی پی ان سے کئے گئے کتنے وعدے پورے کئے اور کتنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے کردار سے بھی عوام ناواقف نہیں ہیں ، لیکن المیہ یہی ہے کہ عوام میں سیاسی شعور اور بلوغت پیدا کرنے کی حقیقی کوشش کوئی کرنا ہی نہیں چاہتا ۔ عوام کے سامنے اصل حقیقت سامنے آنے کے باوجود ، پاکستانی عوام میں سیاسی شعور انتخابات میں ختم ہوجاتا ہے ۔سالوں سال ، وہ سیاسی جماعتوں کی ناقص کارکردگی کے خلاف بولتی رہیں گی ، لیکن جب پانچ سال بعد انھیں خود اپنے ہاتھوں اپنی قسمت کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے تو ان کی ذات برادری ، نسل ، قوم ، زبان، مسلک، مذہب پہاڑ کی طرح ان کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے اور عوام اس پہاڑ کو سر کرنے کی ہمت نہیں جتا پاتے اور ہمت ہار جاتے ہیں ۔پاکستان کو درپیش مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ خود عوام ہیں کہ وہ اپنے راستے میں کوئی ہی کانٹے بوتے ہیں اور پھر ان ہی کانٹوں پر چل کر خود کو زخمی کرکے الزام کسی اور کے سر دھر دیتے ہیں۔سیاسی اصلاحات کی ضرورت ہے ، انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے۔تعلیمی اصلاحات کی ضرورت ہے، غرض پورے پاکستان میں ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے ، جس کے لئے عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔ سیاسی مداخلت سے تمام اداروں کا توازن بگڑ چکا ہے۔
موجودہ سیاسی نظام پاکستانی مزاج کے مطابق نہیں ہے ۔ موجودہ سیاسی نظام کو تبدیل کئے بغیر ہیجانی سیاسی کیفیت سے نکلنا ممکن نہیں ہے۔دو ایوانی نظام اور وزارتوں کی مناسبت سے اہل وزیروں کے ساتھ ساتھ احتساب کرنے والے اداروں میں کام کیلئے” فرشتوں” کی ضرورت ہے۔عوام اپنے اندر سے کوئی ایسا انقلابی نہیں پیدا کرسکی ہے جو انھیں دنیا میں عزت مندانہ مقام دلا سکے ۔ پاکستانی موجودہ نظام کے تحت عوام کو باوقار زندگی گذارنے کے مواقع مہیا نہیں آسکتے ، کہ جہاں وہ میرٹ پر اپنے جائز حقوق حاصل کرسکیں ، قانون کی یہاں تشریح دو طبقات میں تقسیم ہے ، جہاںسینکڑوں انسانوں کی جان لینے والے آزادی سے ضمانت حاصل کرلیتے ہوں اور دوسری جانب غریب ملزم کا جوڈیشنل ریمانڈ ہی کئی برسوں پر محیط ہو کہ ایسے مہنگا انصاف بھی اس طرح ملے کہ اس کی انمول زندگی کے کئی عشرے رائیگاں چلے جائیں تو ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جہاں ظلم کا نظام کامیاب ہو اور انصاف کمیاب ہو تو اس معاشرے میں حقیقی تبدیلی کیلئے عوام کی مردہ روح میں جان ڈالنے کیلئے چہروں کے ساتھ نظام کی تبدیلی ضروری ہے۔ چہرے ہی نہیں نظام بھی بدلو۔ یا پھر پی پی پی اور ن لیگ کی طرح غیر اعلانیہ اتحاد تلے خود کو مزید پستیوں میں گراتے چلے جائیں۔