تحریر : محمد اشفاق راجا سیاست کے اپنے رنگ نرالے ہیں اور جب بھی اعتدال کی بات ہو، حالات میں تبدیلی آتی ہے۔ جمعرات کو قومی اسمبلی میں حالات اس وقت معمول پر آگئے جب وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے شاہ محمود قریشی کی تقریر کے جواب میں پارلیمانی روایات کی روشنی میں اپنے الفاظ کی وصاحت کرتے ہوئے کہ انہوں نے کسی فاضل رکن کو غنڈہ نہیں کہا اور جو ہنگامہ ہوا، اسے غنڈہ گردی سے تعبیر کیا تھا۔ اس کے باوجود اگر ان کے الفاظ سے کسی فاضل رکن کی دل آزادی ہوئی تو وہ معذرت کرتے ہیں۔ یوں شاہ محمود قریشی نے بھی مسکراتے ہوئے کہا کہ وہ خواجہ سعد رفیق کی تعریف کرتے ہیں۔ البتہ ساتھ ہی دوسرے مطالبے کا ذکر کیا کہ وزیر اعظم خود بھی ایوان میں آکر اپنی تقریر کے حوالے سے وضاحت کر دیں، اس سے پہلے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ بھی یہی مطالبہ کرچکے تھے۔ یوں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اس مسئلہ پر ایک صفحہ پر ہیں اور سید خورشید شاہ سے شاہ محمود قریشی کی ملاقات میں بھی مل کر چلنے کا فیصلہ ہوچکا ہوا تھا۔
ایک طرف یہ صورت حال ہے کہ قومی اسمبلی میں جھگڑا فساد تحمل کی وجہ سے ختم ہوتا نظر آیا اور ایوان کی کارروائی آگے بڑھنے لگی لیکن دوسری طرف سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چودھری اعتزاز احسن اور مسلم لیگ (ن) کے مشاہد اللہ خان کے درمیان جھڑپ ہوگئی۔ مشاہد اللہ خان نے پھر سے وہی پرانا الزام دہرایا کہ بھارت کو سکھوں کی فہرستیں دی گئیں اور راجیو گاندھی کے آنے پر کشمیر ہاؤس کے بورڈ اتارے گئے۔
اعتزاز احسن کا جواب بھی پرانا ہی تھا کہ مقدمہ چلاؤ، جواب دوں گا، اب تک ایسا کیوں نہیں کیا۔ مشاہد اللہ خان شاید اعتزاز احسن ہی کے لئے تیار رہتے ہیں، اب یہ بات اتنی دفعہ کہی جاچکی کہ اس کا مزہ بھی جاتا رہا ہے۔ مشاہد اللہ خان اور مسلم لیگ (ن) والوں کو یا تو چودھری اعتزاز احسن کی بات مان کر ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانا چاہئے یا پھر اس بات کو ترک کر دینا چاہئے کہ موجودہ حالات میں بھارتی متعصب حکومت کو شہ دینے والی بات ہے۔
Chaudhry Aitzaz Ahsan
سینیٹ میں حکومت کو حزب اختلاف کے احتساب بل کے حوالے سے شکست ہو گئی اور یہ 15 کے مقابلے میں 35 ووٹوں سے منظور کرلیا گیا۔ اب یہ قومی اسمبلی میں پیش ہوگا اگر اس پر وہاں افہام و تفہیم نہ ہوئی تو منظور نہ ہوسکے گا اور پھر اس کے لئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا انتظار کرنا ہوگا۔ بہتر عمل تو یہی ہوگا کہ قومی اسمبلی میں قائمہ کمیٹی میں افہام و تفہیم ہو اور یہ مسودہ قانون بھی متفقہ طور پر منظور کرکے پارلیمانی پختگی کا ثبوت دیا جائے۔ اس کے لئے فریقین کو لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور دونوں اطراف کے نقطہ نظر کو سمونا ہوگا، صرف پیپلز پارٹی ہی نہیں، تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کو بھی فراخدلی سے کام لینا ہوگا۔
اب یہ بھی ممکن ہے کہ قومی اسمبلی میں زیر التوا دیرینہ احتساب بل اور یہ بل ملا کر ایک قانون کی صورت میں مرتب کرکے متفقہ طور پر منظور کرلیا جائے تاکہ مستقبل کے لئے احتساب کا معاملہ حل ہو جائے اور اس پر اختلاف ختم ہو۔ اب یہاں ایک اور معاملے کی نشاندہی مطلوب ہے کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چودھری اعتزاز احسن کے درمیان بعض امور پر ہم آہنگی پائی جاتی ہے لیکن پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے طرز عمل سے محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے حوالے سے اتفاق نہیں کرتے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے خورشید شاہ اور چودھری اعتزاز احسن کے درمیان بھی نقطہ نظر کا اختلاف ہے جبکہ اوپر کی سطح پر بلاول بھٹو زرداری اور چودھری اعتزاز احسن متفق ہیں اور یہ احساس ہوتا ہے کہ سید خورشید شاہ کو آصف علی زرداری کی حمایت حاصل ہے۔
بہرحال جو بھی ہے یہ ان کی جماعت کا مسئلہ ہے جب بھی بڑی میٹنگ ہوتی ہے چیئرمین اور شریک چیئرمین کی بات مان لی جاتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور پھوپھو فریال تالپور دوبئی میں ہیں، پیپلز پارٹی کے دوسرے رہنماؤں اور سندھ کے وزیراعلیٰ کو بھی بلایا گیا ہے۔ اس غیر رسمی میٹنگ میں نہ صرف سندھ کابینہ میں مزید رد و بدل ہوگا بلکہ بلاول کے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کا بھی فیصلہ ہوگا اور طے ہوگا کہ پھوپھو نشست خالی کرتی ہیں یا ایاز سومرو کے نام قرعہ نکلتا ہے۔ اعلان تو 27 دسمبر ہی کو ہو گا۔