پیپلز پارٹی کا پرانا سافٹ وئیر

PPP

PPP

تحریر : پروفیسر محمد حسین چوہان
لندن میں آزاد کشمیر سے تشریف لائے ہوئے دو وزرا کے اعزاز میں جیالوں نے استقبالیہ دیا۔ جس میں چوہدری محمد مطلوب انقلابی سابقہ وزیر تعلیم اور وزیر تعمیرات چوہدری محمد رشید صاحب مہمان خصوصی تھے۔لندن جیسے شہر میں اتنے ہجوم کا اکھٹا ہونا اور سیاستدانوں کو استقبالیہ دینا اجنبھے کی بات ہے۔ایسا شہر جہاں کسی کے پاس آنکھ جھپکنے کا بھی وقت نہیں ہے۔اور ایسا ملک جہاں کے ہر شہری کا ایک قدم حال اور دوسرا مستقبل میں ہوتا ہے ۔ماضی پرستی اور ہیرو پرستی ان کی نفسیات کا حصہ نہیں۔کبھی بھی کسی سیاسی و سماجی اور علمی نابغے کی برسی اور سالگرہ نہیں مناتے۔شیکسپئر،آئن اسٹائن کو پڑھایا جاتا ہے اور وہ بھی نئی دریافتوں وانکشافات کی روشنی میں۔چرچل جنگی ہیرو تھا، مگر عوام الناس کے ذہنوں سے مسخ ہو چکا ہے۔

کتنے نوبل پرائز یافتہ ہیں کسی کی نہ ہی ریلی نکالی گئی اور نہ ہی کسی کے گلے میں کسی نے ہار ڈالا۔ہر انسان کو اس کے نام سے نہیں کام سے پہچانا جاتا ہے،اور وہ بھی جب تک فعال رہے۔کارکردگی باعث فخرنہیں سمجھی جاتی،فرائض منصبی کا حصہ سمجھی جاتی ہے،عہدے اور کارنامے کا رعب دوسرے پر ڈالا نہیں جاتا۔اہل مغرب حال میں رہتے ہیں اور مسقبل ان کا استقبال کرتا رہتا ہے۔ماضی کی ہر شے مغربی فکر کے آگے ایک کباڑ خانے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی،مگر پا کستانی قوم کا مزاج ایسا ہے کہ اس کا فرد جہاں کہیں بھی چلا جائے،اس کے ذہنی افق پر ماضی کی گھٹاتوپ گھٹائیں ہمیشہ منڈلاتی رہتی ہیں۔وہ ماضی سے نکل کر کبھی حال کے آئینے میں جینا نہیں چاہتا۔ اس استقبالیے میں برطانوی نژاد پڑھے لکھے کشمیریوں کی خاصی تعداد تھی اور اکثریت قانون دان اور بیرسٹر تھے،اور جیالے ہونے پر انہیں فخر تھا۔ہر مقرر نے پیپلز پارٹی کی جمہوریت کے لئے دی جا نے والی قہربانیوں کا ذکر کیا،آپنے آپ کو شہیدوں اور غازیوں کی صف میں کھڑا کیا،جمہوریت،انصاف اور مساوات کو آپنی سیاست کا جوہر ثابت کیا۔

Pakistan Peoples Party

Pakistan Peoples Party

پاکستان کے لئے پیپلز پارٹی کے منشور کو ایک نجاہت دہندہ کے طور پر پیش کیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلز پارٹی ایک عہد میں پاکستان میں ایک انقلابی رجحان رکھنے والی جماعت تھی۔اس نے اسٹیٹس کو کو چیلنج کیا،نچلے طبقات کو نفسیاتی سہارا دیا،ایٹمی پلانٹ کی بنیاد رکھی،جمہوریت اور سیاست کی دیوی محلات سے نکل کر گلی کوچوں میں آنکھ مچولی کرنے لگی،سائنسی اور جدلیاتی انداز فکر نے تحریر و تقریر میں آپنی جگہ بنائی۔ترقی پسند اور نظریاتی رجحان رکھنے کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو قہربانیاں بھی دینی پڑیں،مگر ان قہربانیوں کا صلہ بھی عوام دیتی رہی،اور یہ سلسلہ بے نظیر کی شہادت تک چلتا رہا۔بے نظیر کی شہادت نے پیپلز پارٹی کو مزید پانچ سال تک بلا شرکت غیرے آکسیجن فراہم کر دی،اور یہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے لئے آخری موقع تھا کہ وہ عوام کے اعتماد کو مضبوط کرے اور بے نظیر کی شہادت کے بعد آپنی حسن کار کردگی کی مثال قائم کرے،کیونکہ اب بالائی سطح کے سیاسی جوڑ توڑ کی سیاست کا خاتمہ ہو چکا ہے اب سیاست عوام میں کرنی ہوتی ہے ،مگر پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت نے اقتدار کے ہر دن اور ہر لمحہ کو آخری لمحہ سمجھ کر ایسی بد انتظامی اور بدعنوانی کی داغ بیل ڈالی کہ دوبارہ عوام کی عدالت نے ایسا فیصلہ دیا کہ پیپلز پارٹی عوام میں مکمل طور پر اعتماد کھو بیٹھی ہے۔

اب پیپلز پارٹی کو عوام میں آپنا اعتماد بحال کرنے کے لئے پہلے سے بڑی قیادت کی قہربانی درکا ر ہے،موروثی سیاست ترقی پسند نظریات کے منافی ہے،موروثی سیاست کے خاتمے اور مرکزی قیادت کی قہربانی کے بغیر عوامی سیاست کی شروعات نہیں ہو سکتیں۔پیپلز پارٹی کے جیالے بھٹو ازم اور آپنی سیاسی قہربانیوں سے عوام میں کھویا ہوا اعتماد بحال نہیں کر سکتے،اور نہ آپنے سیاسی اسلاف کی ہڈیاں فروخت کر کے سیاسی دکان چمکا سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو اسلاف پرستی اور ماضی پرستی سے نکل کر آپنے سیاسی کیر ئیر کا آغاز نئی پالیسیوں اور انقلابی اصلاحات سے کرنا ہو گا،کیونکہ جب اقتدار میں ان کو موقع ملا تو عوام دوستی کا حق ادا نہیں کر سکے۔بے روزگاری ،بے گھری کے خاتیمے کے لئے کوئی اقدامات نہیں اٹھا سکے،اصلاحات کا ایک لفظ ان کی زبان سے نہیں نکلا۔بدعنوانی اور بد انتظامی کی ایسی تاریخ رقم کی جس کی صدائے باز گشت عوام الناس کو ابھی تک سنائی دے رہی ہے اب آپنے نحیف وجود کو بچانے کے لئے سیاسی مافیا کی چھتری میں پناہیں ڈھونڈ رہی ہے جس سے اس کا نہیں پاکستانی عوام کا مستقبل مزید تاریک ہونے کا امکان ہے،اب اصلاحات اور تبدیلی کا دور ہے۔

جھوٹے سیاسی گٹھ جوڑ نہیں چلیں گئے اور نہ پیپلز پارٹی ماضی کے ترانوں سے پاپ میوزک کے رسیاوں کو مطمئن کر سکے گی۔کامیاب اور ترقی یافتہ قومیں حال میں جیتی ہیں اور مستقبل ان کے پاوں کے نیچے ہوتا ہے۔اس لئے بالخصوص پاکستانی و کشمیری برطانویوں کو آپنی فکر کی تشکیل نو کرنی ہو گی ۔اب آزاد خیال جمہوریت کا دور ہے اور تم ایک آزاد معاشرے میں رہتے ہو،بھٹو ازم کا تعلق انقلاب اصلاحات اور ترقی پسندی سے تھا،موجودہ سیاسی مافیا کا تعلق بھٹو ازم سے نہیں۔آپ سب ماضی سے نکل کر حال میں جینے کی کوشش کریں۔

بھٹو ازم کے نعرے کی تضحیک و توہین جتنی پیپلز پارٹی کے حکمرانوں نے کی اتنی تو ضیا الحق نے بھی نہیں کی تھی۔ گزشتہ پاکستان اور کشمیر کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست کی ذمہ داری ان کی مرکزی قیادت کی سیاسی بصیرت و اعمال کا نتیجہ تھی۔کسی کی زلف میں ہوتی تو حسن کہلاتی ۔جو تیرگی میرے نامہء سیاہ میں ہے پیپلز پارٹی کو آپنے سافٹ وئیر کی تجدید کرنی ہو گی اور اس کے لئے ایک لمبا عرصہ درکار ہے،ٹوٹا ہوا اعتماد بحال نہیں ہوسکتا،اس سے بہتر ہے کہ وہ اسٹیٹس کو کاحصہ بن کر آپنے کردہ اور ناکردہ گناہوں کی معافی وتلافی کر الے۔اب ان کے پاس ایک رحیم و غفور قیادت تک تو رسائی ہے شائد کل یہ موقع بھی نہ ملے۔

Professor Mohammad Hussain Chohan

Professor Mohammad Hussain Chohan

تحریر : پروفیسر محمد حسین چوہان