آجکل پیپلز پارٹی کے حالات دیکھ کر مجھے اپنے بچپن کا زمانہ یاد آگیاجب میں پکی میں پڑھتا تھا پکی کا مطلب شاید کچھ دوستوں کو معلوم نہیں جیسے آج کل نرسری پریپ اور ون ٹو تھری ہے اس وقت میرے بوری سکول میں کچی پکی پہلی دوجی تیجی کلاسیں ہوا کرتی تھی نئی نسل کو اب بوری سکول کا مطلب بھی بتانا ہی پڑے گا جو آپ سوچ رہے ہیں وہ نہیں بلکہ ہر گز نہیں اس سکول میں انسانوں کو بوریوں میں بند کرنا نہیں سکھایا جاتا تھا اور نہ ہی علم بوریوں میں بھر بھر کے دیا جاتا تھی ایسا کچھ نہیں اصل میں یہ سکول ٹاٹ سکول سے نچلے درجے کے سکول ہوتے تھے جنہیں بوری سکول کہا جاتا تھا اور ان سکولوں میں پڑھنے کیلیے گھر سے لائی ہوئی بوریوں کے اوپر بیٹھ کر علم کی دولت کو سمیٹا جاتا تھا پیپلز پارٹی نے وہ بوری سکول کیوں یاد کروایا اسکی وجہ ایک نظم ہے جب میں پکی کلاس میں ہوا کرتا تھا اس وقت ہماری اردو کی کتاب میں ایک نظم تھی بلبل کا بچہ جسے ہم مزے لے لے کر پڑھا کرتے تھے بلکہ بعض اوقات تو اس میں کچھ ترمیم بھی ہو جاتی تھی مجھے وہ نظم بلبل کا بچہ… کھاتا تھا کھچڑی… گاتا تھا گانے…. میرے سرھانے…… اک گیا تو واپس نہ آیا…ہر انسان کو اپنی زندگی میں انسانوں کے روپ میں بہت سے بلبل کے بچے ملتے ہونگے مگر جتنے بلبل کے بچے پیپلز پارٹی نے پیدا کیے شائد کسی اور جماعت نے پیدا نہیں کیے ہونگے جنہوں نے دانہ تو پیپلز پارٹی کے چھابے سے کھایا موج مستی کی نام بنایا اور پھر آڑ گئے پیپلز پارٹی کے تربیت یافتہ لوگ آج آپ کو ہر جماعت میں نمایاں نظر آئیں گے۔
پیپلز پارٹی نے جن کو شناخت دی،جنہیں اڑنا سکھایا،جنہیں بولنا سکھایا وہ اپنے مفادات کے لیے کسی اور کی چھتری پر بیٹھ گئے پہلے ایک گیا پھر دوسرا گیا اور پھر لائن لگ گئی جو بچ گئے انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچنے کی سیاست شروع کردی انہی لڑائیوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے پنجاب نکل گیا پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت گئی پھر بندے گئے پھر سیٹیں گئی اور اب عہدیدار بھی نہیں بچے میں سمجھتا ہوں کہ سندھ میں برسراقتدار ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کی تاریخ کے اتنے برے دن کبھی بھی نہیں تھے جتنے آج ہیں پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اپنے جیالوں کو نوازا اعلی سے اعلی نوکریاں دی کمزور اور عام ورکر کو پارلیمنٹ کے ایوانوں تک پہنچایا گمناموں کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا بیوروکریسی کو لگام ڈال کر ایک عام جیالے کے ہاتھ میں دیدی اور تو اور آج ملک بھر میں بھٹو کالونیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پیپلز پارٹی نے ہی اس ملک کے غریب عوام کو چھت دی پیپلز پارٹی ہی وہ واحد جماعت ہے جسکے عام عہدیدار سے لیکر وزیروں تک کے دروازوں کو پارٹی کے جیالے اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے کھولتے تھے اور بلا جھجک اپنا کام کرواتے تھے بینظیر بھٹو کا دور حکومت ہو یا آصف علی زرداری کا جتنی عزت پارٹی کارکنوں کو انہوں نے دی شائد ہی آج تک پاکستان کی تاریخ میں کسی اور جماعت نے دی ہو مگر بات پھر وہیں بلبل کے بچے پر آکر ختم ہوجاتی ہے۔
پیپلز پارٹی کو اتنا نقصان چھوڑ جانے والوں نے نہیں پہنچایا جتنا اس پارٹی کے اندر رہتے ہوئے افراد نے پہنچایا یہی وجہ ہے کہ آج پنجاب میں پارٹی قیادت کیلیے کوئی ایسا موزوں نام سامنے نہیں آرہا جسکی عوام کے اندر جڑیں موجود ہوں آصف ہاشمی پیپلز پارٹی کے حوالہ سے ایسا معتبر نام ہے جنہیں ہر دور میں نظر انداز کیا جاتا رہا حافظ غلام محی الدین پارٹی کا خوبصورت اثاثہ ہے،شاہدہ جبین پیپلز پارٹی کی تاریخ اور اسکے ماتھے جھومر ہے اسی طرح اور بہت سے پیپلز پارٹی کے جیالے ہیں جن کی رگوں میں بھٹو ازم اب بھی دوڑ رہا ہے جنکے اندر کچھ کرنے کی صلاحیت اور اہلیت بھی ایسے لوگوں کو اگر پنجاب میں پارٹی کی تنظیم سازی کے حوالہ سے کوئی ذمہ داری دی جائے تو پیپلز پارٹی پنجاب کے مردہ گھوڑے میں جان پڑ سکتی ہے۔
آزمائے ہوؤں کو بار بار آزمانا کسی طور بھی بہتر نہیں ہے ابھی الیکشن میں تقریبا 2سال پڑے ہیں اور یہ دو سال تیاری کے ہیں اگر ایسے افراد کو پنجاب میں ذمہ داری دی گئی جو گروپ بندیوں کے ماہر ہوں اور جیالوں کو سخت ناپسند کرتے ہوں تو پھر اس وقت پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے جو 7اراکین ہیں وہ بھی دوبارہ منتخب نہیں ہونگے بلاول بھٹو زرداری اس وقت پارٹی کی تنظیم نو میں خود دلچسپی لے رہے ہیں تو انہیں پرانے جیالوں کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے اسکے ساتھ ساتھ نجوان نسل کو بھی پارٹی میں اہم ذمہ داریاں دیں کیونکہ آنے والے دور میں یہی نجوان آپکے بازو بنیں گے پیپلز پارٹی کو اس وقت پنجاب سے نئے خون کی بھی ضرورت ہے جو بھاگ دوڑ میں آپ کا ساتھ دیں پنجاب میں بلخصوص جو کبھی پیپلز پارٹی کا واقعی قلعہ ہوا کرتا تھا جس شہر سے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی آج بھر اسی شہر میں اس کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے اعتزاز احسن جیسے افراد کی مشاور کو شامل کیا جائے اور جن لوگوں پر آپ نے نوازشات کی ہوئی تھی انکا بھی زرا حساب کتاب کرلیں کہ انہوں نے پارٹی کو کیا فائدہ پہنچایا اور پارٹی سے انہوں نے کیا کیا فوائد حاصل کیے وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے اور ان سخت حالات میں بلاول بھٹو کو سخت فیصلوں کی ضرورت ہے تاکہ پنجاب میں پیپلز پارٹی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے۔