تحریر: حاجی زاہد حسین خان بارہ ربیع الاول کی شام ہے ہمارے آقا ۖ بستر علالت میں پڑے ہیں سر مبارک اماں عائشہ کی گود میں ہے بخار کی شدت ہے اماں عائشہ پانی میں کپڑا بھگو بھگو کر ماتھے پر رکھ رہی ہیں۔ غشی طاری ہے جب تھوڑی راحت ملتی ہے تو پوچھتے ہیں نماز ہو گئی۔ نہیں یا رسول اللہ آپ کا انتظار ہے فرماتے ہیں ابو بکر کو کہیں نماز پڑھائیں خود بھی صحابہ سہارا دیکر مسجد لے جاتے ہیں۔ ابو بکر کی امامت میں نماز عشاء ادا کرتے ہیں۔ واپس بستر پر لائے جاتے ہیں۔ بخارکی شدت بڑھتی جا رہی ہے۔ رات کا پچھلا پہر ہے۔ اسلام علیک یا رسول اللہ جبرائیل آمین حاضر ہوتے ہیں۔ اللہ میاں آپ کو اپنے پاس بلانا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو اے جبرائیل اللہ سے پوچھو میری امت کا کیا بنے گا۔ جبرائیل دوبارہ حاضر ہوئے یا رسول اللہ ۔ اللہ فرماتے ہیں میرے محبو ب غم نہ کرو تیری امت کو آخر کار سب کو جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ سابقہ امتوں کے برعکس اس کی پردہ داری کی جائے گی۔ یہ جتنا بھی گناہ کریں ان کی شکلیں مسخ نہیں کی جائیں گیں۔ ان پر پانی ہوا زمین اور آسمان کا عذا ب مسلط نہ ہو گا۔
یہ میرا وعدہ ہے۔ جلدی کرو میرے محبوب کو اب لائو تمہارا مشن اب ختم ہو چکا ہے ۔ تب حضور مسکرائے لبیک یا اللہ جبرائیل مجھے اب لے چلو تب آواز آئی اسلام علیک یا رسول اللہ آپ پہلی شخصیت ہیں جسے میں سلام دے رہا ہوں یہ عزرائیل تھے۔ الودع یا میری امت الودع یا میرے جانثاران صحابہ الودع یا میری ازواج مطہرات الودع یا عائشہ الودع یا میری فاطمہ الزہرہ اور پھر ہمارے آقا ختم الرسل خاتم النبین محمد مصطفےٰ ۖ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اوجھل ہو گئے۔ حجروں کے اندر کہرام مچ گیا۔ مسجد نبوی میں کہرام مچ گیا۔ حضور اب ہم میں نہیں رہے۔ خبر دار جو کسی نے ایسا کہا عمر فاروق نے تلوار نکال لی تب ابو بکر باہر آئے انا لا اللہ وانا الیہ راجعون موت برحق ہے سوائے اللہ کے کسی نے نہیں یہاں باقی رہنا اس سے قبل کے انبیاء بھی نہیں رہے ۔ ہمارے آقا ۖ بھی اب ہم میں نہیں رہے۔ صحابہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے ۔ ہر مردوزن اشکبار ہے۔ مدینہ منورہ ویران ہے۔ سارا عالم سوگوار ہے۔ آج بلال آذان دینے کے قابل نہیں تمام صحابہ لاوارث ہو گئے۔ ارض وسماء کی تمام مخلوق رنجیدہ ہے۔ مگر قدرت کا نظام ہے۔ اسلام میں شخصیت پرستی نہیں خدا پرستی کا حکم ہے۔ ہمارے آقا کے آخری جملے یہ تھے۔ خبر دار سابقہ امتوں کی طرح مجھے خدا کے مقام تک نہ پہنچا دینا ۔ میری قبر کو سجدہ گاہ نہ بنا لینا ۔ اور پھر خلفائے راشدین نے اس پر عمل کر کے دیکھایا ۔ عاشقی اور جانثاری کا حق بھی ادا کیا۔ اسی بارہ ربیع الاول کو جب ہمارے آقا ۖ دنیا میں تشریف لائے تھے ۔ تب حوروغلماں جن و ملائکہ شادو خرماں تھے۔
Jashn e Amad e Rasool PBUH
بنی ہاشم کے گھرانوں میں خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ رب ذولجلال کا شکر ادا کیا جا رہا ہے۔ دادا عبدالمطلب خوش تھے تو چچا ابو طالب بھی خوش تھے۔ ہوائیں جھوم رہی ہیں تو فضائیں بھی رنگ و نور نچھاور رکر رہی ہیں۔ دادا عبدالمطلب چچا ابو طالب اور ہاشمی گھرانوں کے ہر فرد کے چہرے پر خوشی اور آنکھوں میں آنسو ہیں عبداللہ کی کمی اس کے یتیم بیٹے محمد ۖ نے پوری کر دی ۔ عقیقے کے اونٹ اور دنبے ذبح ہو رہے ہیں۔ اماں آمنہ کو چاند سے بیٹے کی خوشی ہے تو کڑیل جوان شوہر عبداللہ کی موت کا غم بھی ۔ آگے چل کر قدرت کو کیا منظور تھا کسی کو کچھ پتہ نہ تھا۔ ساری امت کو خوشیاں دینے والے محمد ۖ کی ساری زندگی دکھوں غموں تکلیفوں سے عبارت تھی۔ چھ سال کی عمر میں باپ کی قبر کی زیارت کو جاتے ہوئے مدینہ کے سنگلاخ کالے پہاڑوں کے درمیان اپنی ماں کو بھی کھو دیا ۔ نہ باپ رہا اور نہ اب ماں ۔ مائی حلیمہ نے دودھ پلایا ۔ دادا نے پرورش کی چچا نے رکھوالی کی کھیل نہ کود ہنسی نہ مذاق اپنوں کی بکریاں چرائیں اور جوانی میں خدیجة الکبریٰ کا کاروبار سنبھالا اور پھر ان سے شادی ہوئی دیانت امانت صداقت عجزو انکساری عبادت گزاری نے جبل نور کی گھاٹی میں اللہ نے انہیں امت کا آخری نبی اور رسل کا عہدہ سونپ دیا۔ سب جہان والوں کے لئے رحمت العالمین بنا دیا۔ خڈیجہ نے ساتھ دیا۔ ابو بکر و علی نے ساتھ دیا قافلے آتے رہے کاروان بنتا گیا۔
مگر قریش والوں نے مکہ بدر کر دیا۔ طائف والوں نے خون سے نہلا دیا۔ مدینہ کو ہجرت کی مگر قریش والے لائو لشکر لے کر وہاں پہنچ گئے۔ بدر کا معرکہ ہے۔ ایک طرف بہتر 72جانثار ان رسول اور دوسری طرف دس ہزار کا لشکر آقا سجدے میں رو رہے ہیں۔ اپنی اور اپنے دین کی بقا کا واسطہ دے رہے ہیں۔ تب قدرت کا معجزہ رونما ہوا فرشتے قطار در قطار اترنے لگے فتح مبین کے نوید آئی مگر اپنے جانثار شہید وں کا غم ہے۔ خندق کا معرکہ ہے کھانے کو کچھ نہیں پیٹ پر پتھر باندھے خندق میں کدال چلا رہے ہیں فتخ اور شکست کا غم قدرت نے فتح نصیب فرمائی مگر منافقین اور مشرکین پیچھا کرتے کرتے احد پہاڑی کا محاصرہ کر رہے ہیں معرکہ لڑا گیا۔ فتح ہوئی پھر شکست سخت آزمائش تھی کفار سرکو آن پہنچے دندان مبارک شہیدہوگئے ماتھا مبارک زخمی ہے۔ جان بچنے کی کوئی امید نہیں مگر جانثار صحابہ عاشق صحابہ گھیرا ڈالے کھڑے ہیں۔ اپنے جسموں پر تیر اور پتھر لے رہے ہیں۔ مگر حضور کا حصار نہیں توڑنے دیتے ۔ کوہ احد رو رہا ہے۔ صحابہ رو رہے ہیں۔ فرشتے آنسو بہا رہے ہیں۔ چچا امیر حمزہ کی شہادت کا غم ان کی لعش کی بے حرمتی کا غم وہ کونسا غم تھا جو ہمارے آقا نے برداشت نہ کیا ہو اپنے لخت جگر ابراہیم اور قاسم اور طاہر کا غم اپنی پیاری ازدواج کے حجرے نان شبینہ سے محروم خالی ہیں۔ بھوکی فاطمہ اور عائشہ کا غم ۔ دن کو روزے رات کو عبادت مگر اپنی امت کا غم ہمارے آقا ۖ کی ساری زندگی تکلیفوں غموں سے عبارت ہے۔ اور پھر بارہ ربیع الاول کی شب امت کے غم کو گلے لگائے اپنے رب سے بریت کا وعدہ وعید لے کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
Illumination
اوجھل ہو گئے۔ مگر ہائے یہ امت آج اسی دن خوشیوں کے شادیانے بجا رہی ہے۔ جشن بہاراں ہے راتوں کا چراغاں ہے جلسے جلوس ناچ گانے ہیں شیرنیاں بریانیاں پکائے اور کھائے جا رہے ہیں یہ کیسی عاشقی ہے یارو یہ کیسی خوشیاں ہیں ہمارے آقا و مولا نے تو ساری زندگی پیٹ بھر کا نہیں کھایا ان کے صحابہ کا تو دو سالہ دور ابو بکر اور گیارہ سالہ دور عمر فاروق دس سالہ دور عثمان غنی اور چھ سالہ دور علی ابن طالب کے ادوار اور خلافت میں اور تیرا سالہ امیر معاویہ کے دور خلافت میں بھی ایسے جشن بہاراں نہ منائے گئے ابو بکر یار غار نے بھی یہ جشن نہ منایا اور فاروق اعظم نے بھی نہیں داماد عثمان نے بھی نہیں اور داماد علی ابن طالب نے بھی نہیں وہ جب تک زندہ رہے خوب بھی ہجر رسول میں روتے رہے اور اوروں کو رولاتے رہے حضرت بلال حبشی نے مدینہ النبی چھوڑ کر شام جا آباد ہوئے عمر فاروق کے دور میں جب بیت المقدس آزاد ہوا امیر المومنین کو وہاں آکر خطبہ کی دعوت دی گئی تب جاتے ہوئے راستے میں انہوں نے بلال حبشی کو بھی ساتھ بٹھا لیا قبلہ اول کے منبر پر عمر فاروق تشریف فرما ہیں۔ جمعہ کی نماز ہے دیگر صحابہ اجمعین جمع ہیں۔ اہل فلسطین اور مقامی عیسائی بھی موجود ہیں۔ سب کا اسرار ہے کے امیر المومنین آج آذان حضرت بلال دیں گے وہ اٹھے آذان شروع ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر جب اشہد وان محمد الرسول اللہ پر پہنچے تو بے ہوش ہو کر گر پڑے عمر فاروق اور دیگر صحابہ گر پڑے حاضرین کی آہوں سے مسجد اقصیٰ گونج اٹھی۔ اللہ اللہ یہ تھی عاشقی یہ تھے سچے عاشق رسول آج وہاں اس مجلس مبارکہ کا چاند نہ وہاں تھا محو ر نہ تھا۔
ساری زندگی ان عاشقان رسول ۖ کو اپنے آقا ء کی جدائی کا غم تھا۔ ملال تھا۔ آنکھوں میں آنسو تھے۔ دل میں ان کا نام تھا۔ عمل میں کردار میں ان کی صورت مبارکہ سنت اور سیرت تھی۔ ہمارے آقا ساری زندگی ہمارے لئے اپنی امت کے لئے روتے رہے۔ آج ہم کیسے خوشیوں کے شادیانے بجائیں۔ آج کے دن ان کی آمد بھی ہے اور جدائی بھی۔ہم کیسے جشن بہاراں منائیں۔ آنے کی خوشی ہے مگر جانے بچھڑنے کا غم ہزار درجے بڑا ہے۔ آئو ہم بھی ان کے دکھوں غموں کو گلے لگا کر ان کی رخصتی کا تصور کر کے ان کے صحابہ کی غمناک صورتوں کا تصور کر کے چار چار آنسو بہالیں شائد ان کی نسبت سے یہ غم اور آنسو ہماری آخرت کی نجات کا سبب بن جائیں ان کی صورت سیرت اور عمل پر عمل پیرا ہو کر ان کے عاشقوں کی صف میں شامل ہو جائیں۔ بھوکے بے کس بے بس مخلوق کی مدد نصرت کر کے بیوائوں اور یتیموں کی پرورش کر کے اللہ اور اللہ کے رسول کو راضی کر لیں۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ الودع الودع یا خاتم النبیّن۔
Haji Zahid Hussain Khan
تحریر: حاجی زاہد حسین خان پلندری سدہنوتی آزاد کشمیر hajizahiz.palandri@gmail.com