دعا ہمارے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارے تعلق کی وضاحت کرتی ہے۔ ہم مانگتے ہیں اور وہ دیتا ہے. ہم میں سے بہت سے لوگ اس شک کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں کہ ان کی دعا ئیں خدا کی طرف سے قبول کی جا رہا ہیں یا نہیں، نعوذ باللہ (ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں) ایسا اس لئے ہے کیونکہ بسا اوقات ہمیں وہ چیزیں نہیں ملتی، جن کیلئے ہم دعا گوہوتے ہیں. اللہ “سب جاننے والا” ہے اس لئے یہ بھی جانتا ہے کہ ہمارے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا۔
یہی وجہ ہے کہ ہمیں مناسب وقت اور مناسب صورت میں وہ چیزیں عطا کی جاتی ہیں جو ہمارے لئے بہتر ہوں۔ لہٰذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم نماز پڑھتے رہیں اور رب العزت سے اس کی مہربانیوں کی درخواست کرتے رہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیں۔ حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں کہ” کسی بھی مومن کی دعا بیکار نہیں جاتی۔ اسے اس کا اجر یا تو اسی دنیا میں مل جاتا ہے یا آخرت میں بشرط یہ کہ وہ صابر ہو۔”حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کا مندرجہ بالا بیان ہمارے لئے ایک چشم کشا حقیقت ہونا چاہئے اور اسے فائدہ مند سمجھ کر ہمیں اس یقین کے ساتھ خود کو دعاؤں میں مشغول رکھنا چاہیے کہ اگر اس دنیا میں نہیں تو آخرت کی زندگی میں اس کا اجر ضرور ملے گا ( سبحان اللہ) جو اس زندگی سے زیادہ اہم اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔
دعا ہماری روزمرہ کی زندگی میں نہایت ہی اہم کردار ادا کرتی ہے. یہ ایک ایسا بندھن ہے جو خداکی ذات سے ہمارے ایمان کو مضبوطی کے ساتھ باندھے رکھتا ہے. ہم خدا کو سوتے،جاگتے، اٹھتے، بیٹھتے اور عبادت کرتے ہر وقت یاد کرتے ہیں کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ کہ صرف وہی ایک ایسی ذات ہے جو شر سے اور شرپسندوں سے ہماری حفاظت کر سکتا ہے۔
ہمارے مبلغین کو چاہیے کہ ہمیں دعا، کی اہمیت اور اس کے تکمیل کے متعلق کچھ بتائیں۔ مبلغین کو چاہئے کہ وہ ہماری حوصلہ افزائی کریں اور ہمیں یقین دلائیں کہ کوئی دعا بیکار نہیں جاتی اس لے ہمیں زیادہ سے زیادہ دعا مانگنی چاہے۔ کیوں کہ یہ کسی نہ کسی شکل میں ضرور قبول کر لی جاتی ہے۔ مبلغین کی طرف سے بار بار دعا کے لیے قائل کرنے کی کوشش امت کے لئے حیرت انگیز طور پر مفید ثابت ہوگی۔ مسلمانوں کو درپیش تمام مصائب کا خاتمہ کرنے کے لئے، دعا کے ذریعے خدا کا قرب حاصل کرنے کہ علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں ہے.
دعا امت میں ایک اچھی عادت یہ پیدا کر دے گی کہ ہر مسلمان پاکیزگی کے ساتھ رہنے پر مجبور ہو گا. تقوی ٰ ایمان کا ایک حصہ ہے لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اللہ کے بندے دنیاوی مفادات کے لیے خدا سے تعلقات زیادہ استوار کرتے ہیں. یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اسے قبول نہ کرے۔ دنیاوی آرام و آسائش کا مطالبہ کرنا بھی اچھی بات ہے یہ منع نہیں ہے اور یہ بھی اللہ کی بارگاہ میں قابل قبول ہے۔
Pray Worship
ہمیں ہمارے چھوٹے بڑے، جان بوجھ کر یا نادانستہ طور پر کیے گئے گناہوں کی بخشش طلب کرنے کی زیادہ کو شش کرنی چاہیے۔ اگر ہمارے گناہ معاف کر دیے گئے تو ہمارے روز مرہ کے مسائل یا تو حل ہو جائیں گے۔ یا بالکل واقع ہی نہیں ہونگے، انشاء اللہ، لہذا اگر دعا کی اہمیت پوچھی جائے۔ تو اللہ اپنے بندوں پر سب سے زیادہ مہربان اور نظر عنایت کرنے والا ہے اور ہمیشہ اپنے بندوں کو معاف کرنے کے لئے تیار ہے۔ اس لیے کہ اشرف المخلوقات ہونے کی بنا پر اللہ تمام مخلوقات سے زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے۔ ہم جہاں کہیں بھی ہوں یا کسی بھی حالت میں ہوں اسکی رحمت اور محبت ہمارے ساتھ ہوتی ہے۔
ہمیں یہ یقین ہونا چاہیے کہ ہماری فریادوں کی سنوائی ابھی نہیں تو بعد میں ورنہ آخرت میں تو ضرور ہو گی۔ اللہ ایک صورت حال پیدا فرماتا ہے اور شدید غیر متوقع صورت میں مدد بھیجتا ہے۔ یہ ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہمیں اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کس طرح ہمیشہ اس کی رحمت اسکی رحمت و شفقت نے ہمیں بے چینیوں سے نجات دلائی ہے۔ یہ طرزعمل ہمیں اسکا شکر گذار بنا دیگا۔ اسکے بدلے ہمیں مشروع طریقہ سے شکر گذاری اور احسان مندی کا اظہار کرنا چاہئے۔
ہم سب یہ بخوبی جانتے ہیں کہ اللہ ہمیں پکارتا ہے کہ (ہے کوئی مجھے پکارنے والا کہ میں اس کی درخواست قبول کروں ) ہماری خوا ہشیں پو ری کر نے کیلئے۔ خدا سب جانتا ہے کوئی بھی چیز اس سے چھپی نہیں ہے۔وہ آپ کی جائز ضروریات کو جانتا ہے۔ وہ آپ کی خاموشی کی آواز کو سنتا ہے اور آپ کے آنسو ؤ ںکی زبان کو سمجھتا ہے۔ اس سے مانگتے رہیں انشاء اللہ ہماری خواہشیں اور دعائیں ضرور پوری ہونگی۔ اسلام میں ‘مایوسی’ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اسلئے کہ ناامیدی کفر ہے اور جو نعمتیں تم کو میسر ہیں سب خدا کی طرف سے ہیں۔ پھر جب تم کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو (16:53)اسی کے آگے چلاتے ہو ہم انسانوں کو اللہ ہر طرح کا سکون، مہربانی، مدد اور رحمت عطا فرماتا ہے۔
ہم دنیاوی آرام حاصل کرنے کے لئے بہت کوشش کرتے ہیں لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے یہ تمام مہربانیاں اس دعا کی وجہ سے ہیں۔ جو ہم کرتے ہیں اور خدا اسے قبول کرتا ہے اور اگر کسی بھی قسم کی تکلیف، شر، یا بدقسمتی ہمیں پہنچتی ہے تو خدا سے مدد حاصل طلب کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ وہ خود ہمیں اس کی مدد چاہنے کی ترغیب دیتا ہے. ایسے حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے یقیناً ہمیں اس کے سامنے جھکنا چاہئے اور مدد طلب کرنی چاہئے۔ اس لئے کہ دعا ہر قسم کی مصیبت کے لئے امرت ہے۔ دعا کو مزید مؤثر بنانے کے لئے، ہمیں کبھی دعا نہیں چھوڑنی چاہئے اور اللہ کی ذات سے کبھی نا امید نہیں ہونا چاہئے اسلئے کہ اللہ کی رحمتیں اور عنایتیں لامحدود ہیں۔
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ”ضرورت کے دوران اللہ سے مدد طلب کرو اور ہر طرح کی تکلیف اور دکھ میں اس کی پناہ چاہو۔””عاجزی کا اظہار کرو اور اسے پکارو، یہی دعا کا منشاء اور لب لباب ہے۔ جب بھی کو ئی مومن دعا کرتا ہے تو مندرجہ بالا صورتوں میں اسکی د عا قبول کر لی جاتی ہے۔ یا تو اسکی دعااسی دنیا میں قبول کر لی جاتی ہے۔ یا پھر اسکا اجر اسے آخرت میں ملے گا۔یا پھر اسکے گناہوں کو اس طرح چھپا دیا جاتا ہے جیسا کہ اس نے ایک بھی گناہ کیا ہی نہیں۔
M A Tabassum
تحریر: ایم اے تبسم (لاہور) مرکزی صدر،کالمسٹ کونسل آف پاکستان CCP email: matabassum81@gmail.com,