تحریر : صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی ًآج ہم اپنے قارئین کو ایک ایسی شخصیت سے متعارف کرانا چاہ رہے ہیں جنہوں نے عام فہم، سادہ اور سُچی حکایات کے ذریعے انسانیت کو اُس کی ”گُم کردہ ” راہ دکھانے کی کوشش کی ہے جن کا اسمِ گرامی شرف الدین لقب مصلح الدین تخلص سعدی، والد ماجد کا نام سید عبداللہ شیرازی ہے آپ 589 ہجری میں پیدا ہوئے، آپ کے جدِ امجد عرب سے ہجرت کر کے ایران کے صوبہ شیراز میں آ بسے تھے، اپنے علم و فضل کے باعث سید عبداللہ شیرازی حکومت کے کئی اہم عہدوں اور مناصب پربھی فائز رہے۔
حضرت شیخ سعدی شیرازی نے ابتدائی تعلیم گھر پر اور ثانوی تعلیم مختلف مکتبوں اور مدرسوں میں حاصل کی، بغداد میں مدرسہ نظامیہ میں بھی اکتسابِ علم کرتے رہے جہاں جید العصر عالم علامہ ابو الفرج عبدالرحمن ابن جوزی رحمة اللہ علیہ کے منظورِ نظر تلامذہ میں سرفہرست رہے تعلیم سے فارغ ہو کر کچھ عرصہ مدرسہ نظامیہ میں مدرس رہے، طالبانِ علم کے لیے درس و تدریس میں مشغول رہے، اس کے بعد سیر و سیاحت سے رغبت ہوئی تو ایسی کہ عمر کا بیشتر حصہ کرہ ارض کی سیاحت میں گزار دیا، جہاں بھی گئے علم و فضل کے بوستان بسائے ،تجربات و مشاہدات کا گنجینہ اور شہنشاہوں کے درباروں کی زینت بنے، عمر کے آخری حصے میں وطن واپس آئے اور خلوت نشینی میں گلستان و بوستان جیسے علمی شاہکار تصنیف کیے۔ 691 ہجری میں ایک سو بیس برس کی عمر میں آپ کا انتقال ہوا، آپ کا مزار پُر انوار ایران کے صوبہ شیراز میں ہے۔۔۔۔۔۔آپ نے اپنی مشہور ِ زمانہ کتاب ”بوستانِ سعدی ”میں ایک واقعہ لکھا ہے جو آج ہم اپنے قارئین سے بھی شیئر کرنا چاہ رہے ہیں آپ لکھتے ہیں کہ حرم شریف میں ایک مجذوب کی والہانہ دعا مجھے اب بھی یاد آتی ہے تو میرا جسم لرز جاتا ہے وہ انتہائی زاری اور درد کے ساتھ خدا سے کہہ رہا تھا کہ مجھے نہ گرا کیونکہ پھر میری کوئی بھی دستگیری نہیں کرے گا، تو مہربانی سے مجھے بلالے یا ناراضی سے دھتکار دے پر میرا سرکسی اور آستاں سے آشنا نہیں ہوگا یہ کسی اور جگہ نہیں جھکے گا، تجھے معلوم ہی ہے کہ ہم مسکین ہیں بے چارے ہیں ،نفسِ امارہ ہمیں خراب کرتا ہے یہ نفس اتنا سرکش ہے کہ عقل اسے قابونہیں رکھ سکتی۔
نفس ِامارہ کی مثال تو چیتے جیسی ہے اور بے چاری عقل چیونٹی کی طرح چیتے سے کیسے جنگ کرسکتی ہے، راہ خدا کے مَردوں کا واسطہ مجھے بھی اپنی راہ دکھلادے اور نفس و شیطان کے دشمنوں سے مجھے پناہ دے خداوند! میں تجھے تیری خدائی کا واسطہ دیتا ہوں اور تیری بے مثل و بے مثال صفتوں کا واسطہ دیتا ہوں، بیت الحرام کے حاجیوں کا واسطہ دیتا ہوں، مدینہ منورہ میں آرام فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ دیتا ہوں، مجاہدین فی سبیل اللہ کے نعروں کا واسطہ دیتا ہوں، پیرانِ کرام کی عبادتوں کا واسطہ دیتا ہوں ، نوخیز جوانوں کی سچائی کا واسطہ دیتا ہوں کہ چندسانس کی اس فانی دنیا میں ہمیں اپنی ذات کے ساتھ شرک کی ذلت سے بچا لے کیونکہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے اور تیرے ہاں ناقابل معافی ہے ہمیں اہل ِعبادت سے توقع ہے کہ وہ ہم جیسے بے عبادتوں کی سفارش کریں گے، پاکبازوں کی پاکیزگی کا واسطہ مجھے ہر طرح کی گندگی سے بچالے اور جو خطائیں ہوگئی ہیں ان میں مجھے معذور قرار دے۔
میں ان بزرگوں کا واسطہ دیتا ہوں جن کی کمریں کثرت عبادت سے دوہری ہوگئی ہیں، جن کی نگاہیں گناہوں کے شرم سے قدموں پر لگی ہوئی ہیں کہ نیک بختی اور خوش نصیبی کا چہرہ مجھے ضرور دکھلا دے اور بوقت ِنزع کلمہ شہادت میری زبان پر جاری فرمادے،میرے راستے میں یقین کا چراغ روشن کر دے اور میرے ہاتھوں کو بدفعلی اور بدکاری کی توفیق نہ دے، جن چیزوں کا دیکھنا مناسب نہیں ان سے میری آنکھوں کو پھیر دے، جو کام ناپسندیدہ ہیں مجھے ان کی توفیق نہ دے، تیری ذات الوجود کے سامنے میرا ہونا نہ ہونا برابر ہے، اپنی مہربانی کی کرنیں میرے اوپر ڈال تاکہ میری شخصیت نمایاں ہو سکے ورنہ تیری روشنی کے بغیر مجھے کوئی جان بھی نہیں سکتا کہ میں کون ہوں اگر تو نے عدل و انصاف سے میرا فیصلہ کیا تو مارا جائوں گا، مجھے تو تیری رحمت اور غفور الرحیمی درکار ہے جس کی مجھے آس ہے، مجھے اپنے دروازے سے ذلیل کر کے نہ نکال کیونکہ میں نے آج تک کوئی اوردروازہ نہیں دیکھا۔ پھر میں کہاں جائوں، اگر نادانی سے میں کچھ دن نافرمانی میں مبتلا رہا تو کیا ہوا، اب تو فرمانبردار بن کر آگیا ہوں لہٰذا اپنا دروازہ میرے اوپر بند نہ فرما۔ میں اپنے گناہوں کا کوئی عذر پیش نہیں کرسکتا سوائے اس کے کہ میں فقیر ہوں اورتوغنی، غنی ذات جب فقیر کو دیکھتی ہے تو اسے بے اختیار رحم آ جاتا ہے۔ لہٰذا تو بھی میرے اوپر رحم فرما مجھے اپنی حالت کی کمزوری پررو نے کی ضرورت نہیں کیونکہ میں کمزور سہی پر میری پناہ کمزورنہیں بلکہ نہایت مضبوط ہے۔ ۔۔۔۔خداوند!میں نے غفلت کی وجہ سی عہد شکنی کی اور بات یہ ہے کہ میری تقدیر میں یہی لکھا ہوا تھا تو میری کوشش تقدیر کا مقابلہ کیسے کرسکتی تھی۔۔۔۔۔؟ تقدیر کے سامنے ہماری تدبیریں نہیں چل سکتیں، بس اپنی گناہ گاریوں کا میرے پاس سب سے بڑا عذر یہی ہے، تقدیر کے سامنے ہمارے تمام منصوبے ناکام ہو جاتے ہیں، انسانی طاقتیں خدائی کا مقابلہ کیسے کرسکتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟ میں اگر نافرمانی کرتا ہوں تو وہ بھی تیری بنائی تقدیر کے اشارے سے ہوتی ہے۔ میں وہ کرتا ہوں جو تیری بنائی ہوئی تقدیر نے پہلے سے لکھ دیا ہوتا ہے۔
شیخ سعدی فرما نا یہ چاہ رہے ہیں کہ نیکی کی توفیق خدا کے ہاتھ میں ہے کسی کی بدی کو دیکھ کر اپنی نیکی پر مغرور نہیں ہوناچاہیے کیونکہ یہ جو تکبر اور غرور کی عینک انسان نے اپنی آنکھوں پر لگا رکھی ہے اِسی عینک نے انسان کو اندھا کر دیا ہے ایک نطفہ سے پیدا ہونے والے انسان کے قدم اب زمین پر لگتے ہی نہیں ہیں اس نے اپنی گردن میں ”مغل ” کا سریا ڈال رکھا ہے چند ٹکے کیا اس کی تجوری میں آگئے ہیں کسی انسان کو وہ انسان ہی نہیں سمجھتا ہے ہمارے ہاں کلچر یہ ڈویلپ ہو چکا ہے کہاگر کسی انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے حضور جھکنے کی توفیق عطا فر ما دی ہے اور دو چار نمازیں وہ دن میں ادا کر لیتا ہے تو وہ دوسرے انسانوں کو بہت زیادہ گناہگار اور اپنے آپ کو بہت ہی زیادہ نیکو کار اور ماورائی مخلوق سمجھنے لگ جاتا ہے اگر کسی کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں سخاوت کی توفیق عطا ہو جاتی ہے تو وہ بھی کسی دوسرے انسان کو ”شوم ” سمجھنے لگ جاتا ہے حالانکہ اُس نے بھی اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے رزق میں سے چند ٹکے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیے ہوتے ہیں (وَ مِمَا رَزَقنَھُم ےُنفِقُون) اسی طرح ہمارے ”راہنمایانِ قوم ” کا بھی یہی حال ہوتا ہے جو عوام کے ووٹوں سے پارلیمنٹ کی راہداریوں تک پہنچتے ہیں ایوان کی غلام گردشوں اور دولت کی چکا چوند میں ایسے مبتلا ہوتے ہیں کہ پھر یہی غریب ووٹرز اِن کو ”کمی کمین ” نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں الیکشن کے دنوں میں یہی وڈیرے ، لٹیرے اور موسمی بٹیرے اِن ”کمی کمین ” کی کمزور جھو نپڑیوں اورککھوں کانوں سے بنی عارضی جھُگیوں کا طواف کرتے نظر آتے ہیں مگر جونہی اقتدار کا ”ہُما ” اِ ن کے سروں پر بیٹھتا ہے پھر یہ اپنی ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھنے دیتے مگر قتیل شفائی کہہ گیا ہے کہ
تم سے پہلے بھی یہاں کوئی تخت نشین تھا اُس کو بھی خدا ہونے کا اتنا ہی یقین تھا