تحریر : شیخ خالد زاہد یوں تو کائنات کا ذرہ ذرہ ، چرند پرند ، حشرات العرض ، سمندروں کی مخلوق اور ہماری آنکھوں سے پوشیدہ تخلیقات خدائے بزرگ و برتر کی تعریف میں مصروف و مشغول رہتیں ہیں اور الحمدوللہ رب العالمین کا ورد کرتی رہتی ہیں، یہ اللہ سبحانہ تعالی کی وہ تخلیقات ہیں جن کیلئے جوکچھ ہے مخصوص ہے یا محدود ہے۔ پھر ان سب سے بڑھ کر اشرف المخلوقات کی تخلیق اور اسکے لئے لامتناہی نعمتوں کا خزانہ ۔ یعنی خدا نے اپنی تخلیقات کا عجوبہ اور کوئی بہت ہی محبوب تخلیق جسے انسان کہا بات یہیں ختم نہیں ہوگئی اپنا خلیفہ قرار دے دیا۔ علم کی روشنی سے نوازا ، کھانے پینے کا مزاعطاء فرمایا، ایک دوسرے کی قربت کا احساس پیدا کیا اور خوب سے خوب تر کی جستجو پیدا کر دی۔
الحمدو للہ رب العالمین کہنے کیلئے کسی کو کسی جواز کی ضرورت نہیں ہے، دنیا کے ہر مذہب میں خدا کی تعریف کی جاتی ہے اور جہاں کہیں بھی تعریف کی جاتی ہے، جب وہ تعریفیں آسمانوں کی طرف اٹھتی ہونگی تو الحمدوللہ رب العالمین میں تبدیل ہوکر پہنچتی ہونگی کیونکہ خدا نے یہی طریقہ اپنی تعریف کا بتایا ہے۔ جس طرح ہم اپنی ماں کا احسان اپنی زندگی اس پر قربان کر کے بھی نہیں اتار سکتے تو پھر اپنے خالق کا احسان تو ہم انگنت زندگیاں نچھاور کر کے بھی نہیں اتار سکتے ۔کیا خالق ہے اپنا احسان بھی نہیں جتاتا۔ آنکھوں کو بصارت ہی نہیں دی ، بصارت کے توسط سے رنگوں کی تقسیم بھی کافی نہیں تو مختلف رنگوں کی ملاوٹ سے نئے رنگوں کی شناخت کرنے کی اہلیت کا ملنا اور رب کائنات کی اس دین پرنم آلود آنکھوں سے الحمدوللہ رب العالمین کہنا اپنے خلق کرنے والے سے محبت کا ایک حسین ترین انداز ہے۔ کرہ عرض پر جہاں تک نظر جاتی ہے اور جہاں تک اس نظر کو لے جاتے ہیں تو ایک ایسے مصور کے شاہکار بنے دیکھائی دیتے ہیں جو کسی بھی غلطی سے ماوراء ہے ، آنکھیں ہیں کہ دیکھتی جاتی ہیں اور اپنے رقبے پر پھیلتی ہی چلی جاتی ہیں۔
ابھی کچھ دن پہلے ہم نے سوشل میڈیا پر الحمدوللہ رب العالمین لکھ دیا۔ عربی زبان میں کہے گئے یہ وہ تعریفی کلمات ہیں جو اللہ تعالی نے بذریعہ قران کے اپنے محبوب نبی ﷺ کے توسط سے ہم مسلمانوں کو سیکھائے ہیں۔ الحمدوللہ ہی کہہ دینا کافی تھا مگر اللہ نے اپنی بڑائی کی بھی سمجھ عطاء فرمائی اور جہاں تعریفوں کی کوئی حد نہیں بتائی، دوسری طرف جہانوں کو بھی لاتعداد بتا دیا۔ کیا یہ اللہ کریم کا ہم پر احسان عظیم نہیں کہ ہمیں نعمتوں رحمتوں کی سمجھ سے قبل ہی اپنی تعریف کا پابند بنادیا یعنی ابھی قران پڑھنا ہے اسے سمجھنا ہے اس میں پوشیدہ رازوں پر سے پردہ اٹھنا ہے ہمیں اپنے شکر کا طریقہ بتا دیا اور سمجھنے کیلئے ہم پر چھوڑدیا، بندگی سے قبل بندگی کے آداب بھی سیکھادئیے۔ جیسے ان تعریفی کلمات کیساتھ اللہ رب العزت نے ہمیں یہ بتایاہے کہ وہ صرف اس بہت بڑے جہان کا رب نہیں ہے جہاں ہم رہتے ہیں بلکہ وہ تو تمام جہانوں کا رب ہے جس کا ہمیں علم بھی نہیں ہے اور وہ جہان کتنے کتنے بڑے ہونگے اور وہاں کا کیسا نظم و نسق ہوگا۔
دنیا میں رہنے والے کسی انسان کی آپ تعریف کرنا شروع کردیں جو معلوم نہیں تعریف کے لائق ہے بھی یا نہیں پھر دیکھئے آپ کے وارے نیارے ۔ اب آپ اس رب کی تعریف کیجئے جو آپ کے خلق سے لیکر دنیاکو آپکے رہنے کیلئے ہر آسائش سے مزین کرے گا۔ یہاں آسائشوں کی بھی وضاحت ضروری ہے ۔اگر آپ کو الحمدو للہ رب العالمین کا مطلب سمجھ آچکا ہے تو پھر کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر کسی قسم کے تذبذب کی حالت میں گرفتار ہیں تو پھر سمجھیے کہ آپ کے جسمانی اعضاء مکمل ہیں آپ کسی جسمانی معذوری میں مبتلا ء نہیں ہیں، آپکی بینائی درست ہے جوکچھ دکھ رہا ہے آپ دیکھ رہے ہیں ، جہاں جانا چاہا رہے ہیں جارہے ہیں دوڑتے پھررہے ہیں اپنے ہاتھوں سے کھارہے ہیں اپنے دانتوں سے چبا رہے ہیں اپنے حلق سے معدے میں اتار رہے ہیں اور نظام ہاضمہ اس عمل کو پایہ تکمیل پر پہنچاکر خارج بھی کر رہے ہیں ، آپ سانس لے رہیں بد اور خوش بو میں فرق کر رہے ہیں ۔ کسی بات کو سمجھ کر عمل کرنا ایک بات اور کسی بات کو حکم سمجھتے ہوئے اس کی تعمیل کرنا دوسری بات ، عمل کرنے کیلئے دونوں صورتیں قابل قبول ہیں۔
آج کا انسان دوسرے انسان کا معترف نہیں رہا آپ اگر کسی کے کام آتے ہیں تو وہ یہ سمجھتا ہے یہ آپ کی ذمہ داری تھی کے آپ اسکے کام آئیں، ہم جس دور میں زندہ ہیں اس دور میں ہماری اولاد بھی ہمیں یہ کہہ سکتی ہے کہ دنیا کی ساری آسائیشیں ہمیں فراہم کرنا آپکی ذمہ داری ہے کیونکہ ہمیں دنیا میں آپ ہی لائے ہیں۔
اب کیا تھا کہ سوشل میڈیا پر ہم سے منسلک افراد نے گاہے بگاہے یہ سوال کرنا شروع کیا کہ سب خیریت ہے نا ۔ عمومی طور پر تو یہ سوال بنتا ہے کیونکہ خصوصی طور پر لکھا گیا تھا کہ تمام تعریفیں تمام جہانوں کے رب کیلئے ہیں ۔ اب ہم نے ایسا کیوں لکھا ، دراصل زندگی قدم قدم پر کچھ نا کچھ سبق دیتی رہتی ہے ، کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ استاد سبق پڑھا کر امتحان لیتا ہے مگر زندگی امتحان لے کر سبق دیتی ہے۔
موت ایک ایسا کائناتی سچ ہے جس سے کوئی انکار توکیا انحراف کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتاکیونکہ موت وہ حتمی مقام ہے جہاں زندگی کی گاڑی کا آخرکار رکنا ہی ہوتا ہے ۔اس کے رکنے کا علم سوائے خدائے بزرگ وبرتر کے اور کوئی نہیں جانتا اور ناہی کسی بھی قسم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ایک مرتبہ ایک دوست سے حال احوال دریافت کیا توجناب نے حسب توقع الحمدوللہ کہہ دیا جس پر ہم نے کہ سب ہی زبان سے الحمدوللہ کہہ دیتے ہیں مگر دل میں تو کچھ اور ہوتا ہے جس پر ہم تاحیات کیلئے لاجواب کئے گئے کہ چلوزبان سے ہی سہی اپنے رب کی تعریف توکی ہے ۔ بے شک اس بات کی ہمیں کیا خبر کہ کون دل سے کہہ رہا ہے یا زبان سے ، کیفیت کو تو وہی سمجھ سکتا ہے جس پر گزرتی ہے ۔ بے شک جب آپ اس بات کو سمجھ جائینگے اور من کی گہرائیوں تک اتار لینگے آپ جب بھی الحمدوللہ رب العالمین کہینگے ایک لمحے کیلئے سرشاری سے ضرور گزرینگے اور اس لمحے میں ان ساری انگنت نعمتوں اور رحمتوں کا خیال دل سے ہو کر گزر جائے گا۔ یہ ایک بہت ہی چھوٹا سا مضمون مجھ پر اس سمجھ کا قرض تھا جو مجھ پر الحمدوللہ رب العالمین لکھنے میں سمجھا تھاشائد اس ایک لمحے میں ایک زندگی جی گیا ہونگا۔ جہاں دنیا گناہوں ، کوتاہیوں اور نافرمانیوں کی دلدل ہے تو اس دنیا کا چلانے والا ایسا رحیم ہے کہ اسی سے رحم شروع ہوتا ہے اور اسی پر ختم ہوتا ہے ، اس سوچ میں الجھنا ہی نہیں چاہئے کہ مجھ سے تو یہ ہوگیا مجھ سے تو وہ ہوگیاجو کچھ بھی ہوگیا ہے وہ جو مالک عرض و سماء ہے سب جانتا ہے وہ صرف ہماری تسلیم کا منتظر ہوتا ہے اور پلک جھپکنے میں اپنی رحمت کی چادر تان دیتا ہے پھروہ سارے دلدل میں دھنستے جانے کے احساس ہواؤں میں معلق ہونے سے تبدیل ہوجاتے ہیں اور پھر دل الحمدوللہ رب العالمین کہنا شروع کردیتا ہے پھر زبان پر جاری ہوتا ہے اور پھر عملی طور پر زندگی اپنے رب کی بندگی میں مصروف ہوتی چلی جاتی ہے۔
کائنات میں انسان کی تخلیق کو اللہ رب العزت نے اشرف المخلوقات قرار دیا ہے ، آسان لفظوں میں سمجھنا ہو تو قدرت کی تخلیق کی گئی تمام چیزوں میں سب سے اہم ترین شے ہے ۔یہ انسان ہی ہے جو دو ٹانگوں پر اپنے توازن کی فکر کئے بغیر بھاگ دوڑ کرتا نظر آتا ہے ۔ سوئی سے لے کر ایٹم بم جیسی چیزوں کو بنا بیٹھاہے ۔ زندگی کی ٹوٹتی ہوئی ڈور کو پکڑلیتا ہے ۔ ابھی تلاطم ہے ابھی توازن بھی آجائے گا۔
مجھے معلوم ہے کہ میں آپکے ذہن کی وسعطوں کو سمیٹ کر ایک جگہ نہیں کرسکتا ، یہ ہماری ناقص ا لعقلی سے تشکیل پانے والی تحریر ہے جس میں اپنے خالق و مالک کی تعریف کی توثیق کرنے کی جسارت کی ہے ۔ ایک تو دعا ہے کہ اللہ تعالی جو لفظوں سے کہیں آگے سوچوں کی گہرائیوں سے کہیں پہلے تشکیل پانے کے عمل سے قبل ہونے والے عمل سے پہلے سمجھ جانے والا ہے میرے اس انداز سے اپنی تعریف کو قبول کرے اور ہم سب کی زندگیاں الحمدوللہ رب العالمین کو سمجھنے میں وقف ہوجائیں تو ذرا سوچئیے کہ پھر کیا مقام ملنے والا ہے۔ میں نا عالم ہوں، نامفتی ہوں، نا محدث ہوں ، نا ڈاکٹر ہوں اور نا ہی کوئی مذہبی اسکالر ہوں میں تو ایک ادنا سا طالب علم ہوں اور الحمدوللہ رب العالمین کہتے کہتے اس دارِ فانی سے کوچ کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ یہی وہ وقت ہوگا جب یقین اپنی معراج پر پہنچ چکا ہوگا اور وہ رب کائنات جو مجھے میرے علم کے بغیر دنیا میں تو بھیج دیتا ہے مگر مجھے علم کے سمندر میں ڈبودیتا ہے اور پھر اپنے پاس واپس بلاتا ہے جو اس علم کے سمندر میں جتنا ڈوبتا ہے جتنا تر ہوتا ہے شائد وہ ہی قربت کیلئے معتبر ہوتا ہے۔