تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر بچپن میں ہم اپنی دادی جان سے سُنا کرتے تھے کہ بیٹا کبھی رات کے وقت کسی درخت پر کنکر نہ مارنا کیونکہ رات کو آرام کرتے ہوئے پرندے اگر ڈر کر اُڑ جائیں تو پھر واپس نہیں آتے وہ رات کو خوف کے عالم میں اپنے گھونسلے کا پتہ بھول جاتے ہیں۔آج میں اسی سوچ میں غلطاں تھا کہ رات کو درخت پ رپتھر مارنے سے پرندے اپنے گھونسلوں کا پتہ بھول جاتے ہیں اور اگر “مجھے کیوں نکالا کا راگ الاپنے کے لیے بیسیوں درخت ہی کاٹ دیئے جائیں تو کیا بے گھر ہونے والے پرندے اپنے خالق اکبر سے سوال نہیں کریں گے کہ پروردگار ہمارا تو کسی پانامہ میں نام بھی نہیں تھا۔
ہم نے تو کوئی عدالت کی توہین بھی نہیں کی، ہم نے تو کبھی اپنے تنکوں کے گھونسلوں کے علاوہ کوئی ناجائزاثاثے بھی نہیں بنائے ۔ ہمارے کسی بینک میں تو کیا اپنے خس و خاشاک کے گھروں میں دوسرے وقت کا اضافی دانہ دُنکا بھی ذخیرہ نہیں کیاتو پھر ہمیں کس جرم میں اپنے گھروںسے بے گھر کرنے کے لئیے اُن اشجار کو ہی کاٹ دیا گیا آخر ہمیں کیوں نکالاگیا۔ قا رئین کرام! دوسری بات یہ کہ ایک درخت کو جوان ہونے میں30 سال کا عرصہ لگتا ہے جسے کاٹنے میں 30 منٹ لگائے گئے۔تاریخی شہر شیخوپورہ کا کمپنی باغ جسے باغ جناح بھی کہا جاتا ہے اب وہ میاں نواز شریف پارک کے نام سے منسوب ہو چکا ہے۔
مسلم لیگ(ن)نے نواز شریف کی آمد سے قبل جو حال اِس تاریخی پارک کا کیا وہ نظرِقارئین کر رہا ہوں ضلع کونسل شیخوپورہ کے مین گیٹ کے ساتھ ایک طرف پارکنگ ایریااور دوسری طرف پختہ دیوار تھی جسے 8فروری کو گرادیا گیا اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے چئیرمین بلدیہ کے نام 10فروری کو ایک درخواست گزاری گئی کہ 18فروری کو میاں نواز شریف جلسہ عام سے خطاب کرنے کے لئیے شیخوپورہ آرہے ہیں جس میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت متوقع ہے گیٹ کے ساتھ والی دیوار خستہ حال لوگوں کی بڑی تعداد میں آنے کی وجہ سے یہ دیوار کسی حادثے کا سبب بن سکتی ہے لہٰذاگزارش ہے کہ اِس دیوار کو گرانے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے جلسہ کے فوراً بعد مسلم لیگ (ن) اسے پارٹی فنڈسے دوبارہ تعمیر کر دے گی جس کی چئیر مین بلدیہ جوکہ ایم این اے سٹی کے برادر حقیقی ہیں نے فوراًاجازت دے دی قابل غور بات یہ ہے کہ دیوار تو آٹھ فروری کومسمار کر دی گئی تھی پھر دس فروری کو کس دیوار کو گرانے کی اجازت طلب کی جا رہی تھی اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ چھتری چوک سے ریلوے روڈ پر جو کمپنی باغ کی دیوار تھی اُسے بھی چار جگہوںسے دس دس فُٹ زمین بوس کر دیا گیا اور راستے بنالئے گئے کیا یہ دیوار بھی خستہ حال تھی اِس کو گرانے کا تو اس درخواست میں کہیں ذکر نہیں تھا۔
چلیں یہ بھی مان لیا جائے کہ بعد میں پارٹی فنڈ سے تعمیر ہو جائیں گی مگر جو تناور اشجار کا ٹ لئیے گئے کیاا نہیں بھی پارٹی فنڈ سے چھو منتر کر کے دوبارہ سے اسی قداور اُسی قدرگھنی چھائوں کے ساتھ استوار کر کے اُن پر لبنے والے پرندوںکو پارٹی فنڈ سے دوبارہ گھر بنا کر دے دیں گے آپ؟ آخروہ وقت بھی ہو کر گزر گیاجب سابق وزیراعظم اپنی تسلسل سے کی گئی یک نکاتی تقریر فرما کر چلے گئے اُن کی پھر وہی باتیں تھیںکہ “مجھے کیوں نکالا” نوٹ لہرا لہرا کر کہہ رہے تھے کہ میں نے دس روپے بھی کسی سے رشوت لی ہو سیاست سے ہمیشہ کے لیے ریٹائرڈ ہو جائوں گاوہی پرانا ایجنڈا عوام کو عدلیہ کے خلاف اکسانے کا بھا شن دینا وہی پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کوتضحیک کا نشانہ بنانانئی بات کیا کی انہوں نے وہی رٹی رٹائی تقریر وہی روائتی خطاب۔ ہاں یہ بات بجا ہے کہ وہ ایک بڑی پارٹی کے سربراہ ہیں جو اس وقت اقتدار میں بھی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک پارٹی کا سربراہ اپنے غیر سرکاری جلسے کے لیئے کلی طور پرسرکاری وسائل اور مشینری کا بے دریغ استعمال کریں جیسا کہ شیخوپورہ میں بلدیہ کے خا کروب گھر گھر جلسے کے پمفلٹ تقسیم کرنے کی ڈیوٹی پر مامور رہے۔
بلدیہ کی گاڑیاں فلیکس لٹکانے کی ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے بجائے اس کے کہ وہ اپنے محکمانہ فرائض انجام دیتے جلسے کے لیئے منگوائے گئے جنریٹر کو بندرکھ کر کنڈے ڈال کر سرکاری بجلی کی چوری بزور طاقت دھڑلے سے کرنا کیا یہ سب کچھ کرپشن کے زمرے میں نہیں آتا ایک وہ دِن تھا جب اسی شہر شیخوپورہ میں عمران خان نے آنا تھا 10دسمبر کو ادھر پی ٹی آئی والے فلیکس آویزاں کرتے جاتے تھے پیچھے پیچھے بلدیہ والے کھمبوں پر سے ان کے فلیکس اُتارتے جاتے تھے اور لگنے بھی نہیں چاہئیںتھے مگر اسکے برعکس نواز شریف کے جلسے کی تشہیر کے لئے ڈی ایچ کیو اسپتال کی پوری بلڈنگ کو دیو قامت فلیکسز سے ڈھانپ دیا گیا تھا آخر اتنا بڑا تضاد کیوں یہ بھی ایک طرح کر پشن ہے۔
بہر حال میرا آج کا مو ضوع قطعی طور پر بھی یہ نہیں کہ نواز شریف صاحب کی پارٹی جوخود کو کرے وہ جائز اور اگر کوئی دوسرا کرے تو قابل تعزیر موصوف اسی بات کے لئے پاکستان بھر میں پھر رہے ہیں ناکہ قانون سب کے لئے ایک جیسا ہو عدل کا نظام شفاف ہو تو خود ہی عدل کر دیں کہ سرکاری وسائل کا استعمال درست ہے کیا ؟ بجلی چوری کا عمل جائزہے کیا؟جو دیواریں کمپنی باغ کی مسمار کی گئی ہیں کیا وہ واقعی پارٹی فنڈ سے ہی تعمیر کی جائیں گی یا بلدیہ کو پہلے ہی ڈیفالٹر ہے اسی کے نا تواں کندھوں پر یہ بوجھ ڈالا جائے گا؟ یا پھر یہ دیواریں جن میں سے رستے بنائے گئے تعمیر ہوں گی بھی یا نہیں؟ میرا تو فقط ایک سادہ سا اور سیدھا سا سوال ہے کہ جو تناور درخت کاٹ کر معصوم پرندوں کو بے گھر کیا گیا انکی آباد کاری کس پارٹی فنڈ سے ہوگی؟ ان معصوم پرندوں کو کس پانامہ یا ڈان لیکس میںبے گھر کیا گیا ان معصوموں نے کونسی کرپشن کی تھی کہ انکو جلا وطن کر دیا گیا مانا کہ پیسہ ہمارے سیاستدانوں کے پاس وافر ہے وہ کروڑوں روپیہ ایک جلسے اور اسکی تشہیر پر بلا چون و چراں لگا سکتے ہیں جہازوں کے ذریعے اپنے محبوب قائد کی خوشنودی کے لئے پمفلٹ اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کر سکتے ہیں مریم نواز کو قیمتی تاج جیسا زیور پیش کر سکتے ہیں اور یقین مانیں مجھے انجمن تاجران کا یہ فعل بہت اچھا لگا کہ شیخوپورہ وہ ضلع ہے جو اپنے گھر آئی بیٹی کو زیور سے نوازتے ہیں اس بات پر میں دادِ تحسین بھی پیش کرتا ہوں مگر ساتھ ساتھ یہ بھی کہوں گا کہ دھرتی ماں بھی ہوتی ہے اوردرخت اِس ماں کا زیور ایک طرف اپنے لیڈر کی بیٹی کو زیور دے رہے ہو اور دوسری طرف ماں کے وجود سے اسکا زیور کیوں نوچ ڈالا قارئین کرام ذرا غورفرمائیے گا کہ کیا بے گھر ہونے والے معصوم پرندے اِن متوالوں اور انکے لیڈر کو دعائیںدے رہے ہونگے یا پھر ؟؟؟؟؟