تحریر: سید انور محمود دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے رمضان ایک مقدس مہینہ ہے، ویسے تو اس مقدس ماہ کا ہر دن اہم ہے لیکن دو دن اس ماہ میں بہت ہی اہم ہوتے ہیں، وہ 27 رمضان المبارک اور جمعہ الوداع کے دن ہیں، اسلامی یا ہجری کلینڈر کے حساب سے پاکستان کا وجود بھی 27 رمضان المبارک کے دن ہی ہوا تھا۔اتفاق سے اس سال27 رمضان المبارک اور جمعہ الوداع ایک ہی دن 23 جون 2017 کو تھے۔اس مقدس ماہ میں تمام مسلمانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس کی رحمتوں، برکتوں اور مغفرت سے بھرپور طریقے سے مستفید ہوسکیں۔ تاہم انہی مسلمانوں کے درمیان ایسے انسانیت کے دشمن موجود ہیں جو نہ تو خود خوشیاں اور رحمتیں سمیٹنا چاہتے ہیں، نہ ہی دوسروں کو خوشیاں مناتا دیکھ سکتے ہیں۔ پورا پاکستان خوش تھا ابھی پانچ دن پہلے ہی تو ہماری کرکٹ ٹیم نے چیمپئز ٹرافی کا فائنل جیتا اور چیمپئز ٹرافی پاکستان لے آئے ۔ ایک رات پہلے لوگوں نےختم قران کی خوشی منائی تھی اور پوری رات عبادت کی تھی۔ تھوڑئے سے آرام کے بعد جمعہ الوداع کی نماز ادا کرنی تھی اور تین دن بعد آنے والی عید کی تیاریاں مکمل کرنی تھیں اور اپنے خاندان اور دوست احباب کے ساتھ عید کی خوشیاں منانی تھیں۔
پاکستان میں ابھی صبح ہوئی تھی، ایک اکثریت سو رہی تھی ، ابھی لوگوں نے جمعہ الوداع کی تیاری بھی شروع نہیں کی تھی کہ یہ خبر آگئی کہ کوئٹہ کے علاقے گلستان روڈ پر واقعہ آئی جی پولیس آفس سے متصل چوک کے قریب دہشتگردوں نے بارودی موادسے بھری کارکو دھماکے سے اڑادیا۔ دھماکے کے نتیجے میں7پولیس اہلکاروں سمیت 14افراد جاں بحق اور21زخمی ہوگئے۔ اس خود کش حملے کی ذمہ داری عالمی دہشتگرد تنظیم داعش نے قبول کرلی ہے۔ پاکستان کے عوام کوئٹہ کے خود کش دھماکے کی پریشان کن خبر سے ابھی باہر نہ نکلے تھے کہ چند گھنٹوں بعد قبائلی علاقے پاراچنارکے طوری بازار میں تین منٹ کے وقفے سےیکے بعددیگرے دودھماکوں کی اطلاع ملی۔طوری بازار میں لوگ عید اور افطار کی خریداری میں مصروف تھے کہ پہلا دھماکا ہوا، جس کے بعد لوگوں کو ریسکیو کیا جارہا تھا کہ دوسرا دھماکا ہوگیا۔ ان دو بم دھماکوں میں 67افراد کےجاں بحق اور150 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ ابھی لوگ پورئے دن کی دہشتگردی کا سوچ کر پریشان ہورہےتھے کہ دہشتگردی کی تیسری خبر کراچی سے آگئی کہ کراچی کے علاقے سائٹ ایریا میں دو موٹر سائیکلوں پر سوار مسلح دہشتگردوں نے افطار کرنے والے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایک اے ایس آئی سمیت 4پولیس اہلکار جاں بحق ہوگئے، دہشتگرد جاتے ہوئے پولیس موبائل کے اندر کالعدم تنظیم کا خط بھی پھینک کر گئے جس میں واقعہ کی ذمے داری قبول کی گئی ہے ۔پولیس کا کہنا ہے کہ خط میں کالعدم تنظیم جماعت انصار الشریعہ کی جانب سے واقعے کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے جبکہ ترجمان کالعدم لشکر جھنگوی العالمی کے مطابق یہ درندگی اس کے عافیہ صدیقی بریگیڈ نے انجام دی ہے۔
پاکستان میں ایک بات ہمارئے تمام رہنماوں میں یکساں ہے کہ دہشتگردی کے ہر واقعے کے بعد وہ فوریٰ طور پر دہشتگردی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔23 جون کی دہشتگردی کی مذمت کرنے والوں میں ملک کے صدر، وزیراعظم، وزیراعلیٰ، گورنر بلوچستان، شہباز شریف،عمران خان، سراج الحق، فضل الرحمن، بلاول اور آصف علی زرداری سمیت سیاسی ومذہبی رہنما شامل ہیں، جنہوں نے کوئٹہ، پاراچناراورکراچی میں ہونے والی دہشتگردی کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے کوئٹہ اورپارا چنار میں دہشت گرد حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ دہشتگرد آسان اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں، یہ عناصرکسی رحم کے مستحق نہیں، جلد اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ وزیراعظم نے حملوں میں قیمتی جانوں کے نقصان پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سوگوار خاندانوں کے ساتھ اس ناقابل تلافی نقصان پر دلی ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ دشمنوں کو قوم کی خوشیاں چھیننے نہیں دیں گے، ملک بھر میں سیکورٹی مزید سخت کردی گئی ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے کوئٹہ دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے واقعہ کی رپورٹ طلب کرلی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا ہے دہشتگردوں کی کمرتوڑدی گئی ہے باقی رہ جانے والے دہشتگردوں کوبھی جلد کیفرکردار تک پہنچائیں گے ۔
اوپر بیان کیے گئے تمام بیانات صرف رسمی کارروائی ہے، ان میں سے کسی ایک کو بھی عوام سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ دہشتگردی کے واقعات کے وقت وزیراعظم نواز شریف سعودی عرب میں تھے، اب وہ لندن پہنچ چکے ہیں۔اگر ان کو واقعی عوام سے کوئی ہمدردی ہوتی تو وہ لندن جانے کے بجائے فوراًاسلام آباد پہنچتے، لندن وہ بعد میں بھی جاسکتے تھے ، لندن پہنچ کر بھی وہ گذشہ روز ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کی مذمت کرنے اور اپنی حکومت کی ناکامی کا اقرار کرنے کے بجائے اپنی تعریفیں بیان کر رہے تھے کہ 2014 میں میں آپریشن ضرب عضب انہوں نے شروع کیا جو سراسرجھوٹ ہے، 2014 میں دہشتگردوں کا راج تھا اور نواز حکومت مسلسل عوام کو طالبان سے مذاکرات کا جھانسا دے رہی تھی۔اتوار 15 جون کو افواج پاکستان نے طالبان دہشتگردوں کے خلاف ایک بھرپور آپریشن کا آغاز کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم ٹی وی پر آکر قوم کو مذاکرات کی ناکامی اور آپریشن شروع کرنے کا بتاتے لیکن قوم کو آئی ایس پی آر کے پريس ريليز کے زریعے آپریشن شروع ہونے کی اطلاع ملی اور آج وزیر اعظم اس آپریشن کواپنا کارنامہ بتارہے ہیں۔ انکے وزیر داخلہ چوہدری نثار بھی جائے وقوع پر جانے کے بجائے اسلام آباد میں بیٹھ کرہی دہشتگردی کی مذمت فرمارہے ہیں۔ جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ دہشتگردوں کی کمرتوڑدی گئی ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ جنوری 2016 میں نواز شریف نے بھی یہ ہی کہا تھا لیکن ٹو ٹی کمر والے مستقل پاکستان کے عوام کی کمر توڑ رہے ہیں۔
رمضان امن، رواداری، اور خوشیاں بانٹنے کا برکتوں والا مہینہ ہے،اس مہینے میں ایسی دہشتگرد کارروائیاں کرنے والوں کو سخت ترین سزا ملنی چاہیے۔ لیکن سزا تو وہاں دی جاتی ہے جہاں احتساب کا تصور پایا جائے۔ ہر دہشتگردانہ حملے کے بعدکوئی نہ کوئی دہشتگرد تنظیم ان واقعات کی ذمہ داری قبول کر لیتی ہے لیکن سزا اور جزاء کا دور دور پتہ نہیں ہوتا۔ متاثرین کے گھر ویران ہو جاتے ہیں اور ان کی آئندہ نسل تک ہمیشہ کے لیے غموں کے سمندر میں ڈوب جاتی ہے۔ باقی کاروبار زندگی پھر معمول پر آجاتا ہے۔ نہ حکومت، نہ ہی زمہ دار ادارے یہ ذمہ داری لیتے ہیں کہ دہشتگردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور کالعدم جماعت الاحرار کا سابق ترجمان احسان اللہ احسان اور بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو اپنی اپنی دہشتگردی کی پوری داستان اعترافی ویڈیو میں سناچکے ہیں ، کلبھوشن یادیو کو تو موت کی سزا بھی دی جاچکی ہےلیکن دونوں ہماری سرکار کے مہمان ہیں جبکہ ان کو کافی عرصے پہلے پھانسی کے پھندے پر جھول جانا چاہیے تھا۔8000 سے زیادہ لوگ جیلوں میں پھانسی کے منتظر ہیں جن میں کافی تعداد دہشتگردوں کی ہےلیکن وہ جیلوں میں آرام سے زندگی گذار رہے ہیں۔
تئیس جون 2017بمطابق 27 رمضان المبارک، جمعہ الوداع کو کوئٹہ، پاراچنار، اور کراچی میں ہونے والی دہشتگرد کارروائیوں کی وجہ سے اب تک 85 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں گیارہ پولیس اہلکار بھی شامل ہیں، تقریباً تمام جاں بحق ہونے والوں کی نماز جناز ادا کی جاچکی ہے۔ شاید یہ نواز شریف حکومت کی دہشتگردوں کے خلاف کمزور پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ جاں بحق ہونے والوں کے ورثا اور عزیز و اقارب کو نماز عید سے پہلے ان کی نماز جنازہ پڑھنا پڑی جن کے ساتھ انہوں نے نماز عید پڑھنی تھی۔