چند ٹکڑوں کے عوض!!

Pray

Pray

تحریر : انیلہ حمید راٹھور، پیرس

“ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں۔اکثر ہم اسی ادھیڑبن میں ہوتے ہیں۔ کیا ہم مال حرام کما رہے ہیں۔کیاہم کسی کا حق غضب کر رہے ہیں۔ کیا ہم دین کے راستوں سے بھٹک چکے ہیں۔۔؟؟ وغیرہ وغیرہ “ابھی چند دن ہوئے ایک محفل میلاد میں جانے کا اتفاق ہوا۔ گھر کی آرائش وزیبائش گھر والوں کے ذوق کی ترجمان تھی۔۔کچھ دیر بعد خواتین آنا شروع ہو گئیں۔ پہلے پہل آپ صعلم کی خدمت میں ہدیہ درود شریف پیش کیا گیا۔ساتھ ہی ساتھ دوسری خواتین نے قرآن پاک پڑھنا شروع کردیا۔ “دعا کروانے کیلئے کسی خاتون کا بندوبست کیا گیا تھا۔جو ابھی تک نہیں آئی تھیں۔ انکے آنے تک مکمل قرآن پاک پڑھ کے سب نے نعتیں پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔جسے بےچون و چراں مان لیا گیا۔۔

بس تو۔۔پھر کیا تھا۔ سب نے باری باری لہک لہک کے نعتیں پڑھنا شروع کردیں۔۔۔ابھی پڑھ ہی رہی تھیں کہ وہ خاتون چند آفتاب۔چند ماہتاب اپنے بھاری بھرکم وجود کو گھسیٹتی ہوئیں اندر داخل ہوئیں۔۔بیٹھنے کیلئےانھیں کم ازکم دو نشستیں درکار تھیں۔ آتے ہی انھوں نے پرس میں سے عمرو عیار کا ایک خالی تھیلا نکالا اور گھر والوں کو پکڑا دیا۔۔جوبعد میں انواع واقسام سے بھرنا بھی تھا۔۔۔۔ انکی آمد کیساتھ ہی خواتین اور جھوم جھوم کے نعتیں پڑھ کے ایکدوسرے سے سبقت لیجانے کی کوشش میں مصروف ہو گیئں۔

دس بارہ نعتوں کے بعدآخر دعا کی باری آہی گئی۔جونہی ان خاتون نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے۔سب شاگردوں کی طرح تعظیم” آمین۔آمین کہنے لگیں۔۔کوئی شک نہیں دعا بہت اچھی کروائی گئی۔۔دعا کے اختتام پہ کھانے کا بہترین انتظام کیا گیاتھا ۔۔کھانے کے دوران باتوں کا دور چل پڑا۔ ہمیں بہت خواہش ہوئی۔کہ بھاری بھرکم دعا کرنے والی سے بات کریں۔تاکہ کچھ اس آستانے سے ہم بھی علم کے موتی چن سکیں۔ ابھی پیش قدمی کرنے کے خواہاں ہی تھے کہ انکی بات سنکے رک سے گئے۔۔ وہ جو چند منٹ پہلے دعا کرواتے ہوئے بارگاہ ایزدی میں تمام بیٹھی خواتین کیلئے درازی عمر۔ان کی بیٹیوں کےاچھے رشتوں کی متمنی تھی۔گھر والوں کیلئے رو رو کے دعا میں انکی مشکلات آسان ہو جایئں۔۔۔ کا رٹا لگا رہی تھی۔اب ادھر ادھر کے محلے کی ساری رپورٹیں من وعن چسکے لیکر ایسےسنا رہی تھی۔۔۔جیسے اسکا اولین فرض ہے۔۔کون کہاں رہتا ہے۔۔

محلے میں کس کی شوہر سے لڑائی ہوئی۔۔کس کی بیٹی کا کس کے ساتھ معاشقہ چل رہا ہے۔ کون سی بہو ناشتے میں روزانہ ساس کو گالیاں دیتی ہے۔کس کا لڑکا چوریاں کرتا گھر سے آئے روز بھاگ جاتا ہے۔۔ کون دوکاندار ٹیکس چور ہے۔۔۔تمام خواتین منہ کے ڈھکن کھولے اسکی ہاں میں ہاں ملا رہی تھیں۔یہ جانے بغیر۔کہ بی ملانی کونسی پاکدامن ہے۔جو عورت گھر گھر جانے والی ہو۔اور ہر گھر کی ذاتی باتیں مزے لیکر یہاں بتا رہی ہے۔وہ کسی کی بھی خیرخواہ نہیں ہو سکتی۔ ہم حیران سے سمندر کی جھاگ کیطرح جہاں بیٹھے تھے۔ وہی بیٹھے رہ گئے۔۔

ہم اکثر سوچتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔۔کیوں۔۔؟ یہ کبھی نہیں سوچا۔۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہماری دعائیں عرش تک پہنچ ہی نہیں پاتیں۔۔درمیاں میں کیوں معلق ہو کےرہ جاتی ہیں۔۔کیا ہم دل سے نہیں مانگتے۔۔یا ہمارا طریقہ غلط ہے۔ یا پھر خدا ہم سے ناراض ہے۔۔

“اصل میں ہم نے دعاوں کو بھی دوسروں کا محتاج بنا دیا۔خود کرنے کی بجائے انھیں ایسے ہاتھوں میں سونپ دیا جو روٹی کے چند ٹکڑوں کی عوض اپنا ایمان داو پہ لگا دیتے ہیں۔۔رٹے رٹائے جملے بول کے۔۔چالیس حدیثیں سنا کر۔۔ مگرمچھ کے آنسو بہا کےاپنے گھر کے راشن پانی کامکمل بندوبست تو کر لیتے ہیں۔ ساتھ ساتھ دوسرے گھروں کی عزتیں اچھالنے کا رزیل کام بھی انتہائی مکاری سے کررہےہوتے ہیں۔۔۔یہ دنیا کی واحد ویلی غیرت مند خواتین ہیں جو میلاد کے نام پہ میلے سجا کر لوگوں کی غیرت کا فیصلہ کرتی ہیں۔ ۔نجانے ایسے لوگ خود کو انسان نہیں فرشتے کیوں سمجھتے ہیں جو دوسروں کی برائیوں اور گناہوں کا احتساب اپنے ہاتھ میں لیکر انکی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔۔۔۔

“کیا ایسی پھپھے کٹنی۔ماسی مصیبتے۔چغل خور۔منافق خاتون کی دعاعرش تک پہنچ پاتی ہے۔۔؟؟ ۔۔ جو صرف اپنے دل کی تسکین اور ناآسودہ خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے چند بےوقوف عورتوں کو دین کی آڑ لیکر گمراہ کر رہی ہوتی ہیں۔۔ جو بغیر دیکھے۔بغیر جانے اسکی ہاں میں ہاں ملا کر شیطان کی پیروکار بن رہی ہیں۔

ایسی گمراہ کن عورت کو گھر میں تو کیا اپنی خواتین سے بھی دور رکھنا چاہیئے۔ جو دین کو آڑ بنا کر آخر کس مذہب کی تبلیغ کر رہی ہوتی ہیں۔۔یہ ہم نے کبھی جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔ہم وہ قوم ہیں جو اندھوں سے کہتی ہے راستہ تلاش کریں۔اور منافقوں سے کہتے ہیں ہمیں علم سیکھایئں۔۔ایسی خواتین خدا سے ڈریں اور خدا کی دی ہوئی مہلت کو اپنی طاقت نہ سمجھیں۔۔۔اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین

تحریر : انیلہ حمید راٹھور، پیرس