تحریر: اختر سردار چودھری کسووال اللہ دعا مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہے۔ یہ اللہ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہو رہیں تو شکوہ کرنے لگتے ہیں اس لیے بھی کہ انسان جلد باز ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ۔دعا کرنے کے بھی آ داب ہیں اور کچھ شرائط ہیں میں ان باتوں کی تفصیل میں نہیں جائوں گا صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں یہ کہ حرام رزق کمانے ،کھانے والے کی اللہ دعا قبول نہیں کرتا اب ہم اپنے رزق کو دیکھیں کہ کیسے کما رے ہیں اس میں کتنا حلال ہے اور کتنا حرام۔ اسی طرح بے یقینی سے کی جانے والی دعا بھی قبول نہیں ہوتی ہماری دعائوں میں یقین کتنا ہوتا ہے اس پر آگے ذکر کرتا ہوں۔ اسی طرح اخلاص سے کی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے اخلاص ریا کے الٹ کو کہتے ہیں صر ف اللہ سے مانگنا اللہ کو واحد خیال کرنا وغیرہ دعا کی قبولیت کے لیے گناہوں سے بچنا ضروری ہے یہ نہیں کہ دعا بھی کرتا رہے اور ساتھ ساتھ گناہ بھی کرتا رہے خاص کر کبیرہ گناہوں سے خود کو بچانا ضروری ہے مثلا شرک ، وا لدین کی نافرمانی ،زنا،حرام کمائی،اور جھوٹ وغیرہ دعا ایسی چیزوں کی کرنی چاہیے جو فطرت کے خلاف نہ ہوں قابل عمل ہوں حرام نہ ہوں مثلا کسی کے لیے موت کی دعا وغیرہ۔ اللہ کسی غافل اور لاپرواہ کی دعا قبل نہیں فرماتے اس لیے دعا پوری توجہ سے ،دھیان سے، لگن سے، مانگنی چاہیے۔
دعا مانگنے سے پہلے پاکیزہ ہوں ،وضو کر لیں اللہ کی حمد کریں رسول اکرم ۖ پر درود پڑھیں اللہ کی طرف پوری طرح متوجہ ہوں ،اللہ سن رہا ہے یہ یقین کریں اور عاجزی کے ساتھ دل لگا کر دعا کریں ان شا ء اللہ دعا قبول ہو گی ۔دعا درا صل ندا ہے ،فریاد ہے ، مالک کے سامنے التجا ہے اپنی فانی اور محدود زندگی کی الجھن سے نکلنے کے لئے۔
فریاد کا سلسلہ پیدائش ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔معصوم اور بے شعور بچہ فریا د اور پکار سے زندگی کے سفرکا آغاز کرتا ہے اور اس کے عمل کے بعد یہ عمل جاری رہتا ہے۔انسان فریاد کرتا ہی رہتا ہے کسی نہ کسی مشکل سے نجات کے لئے۔
بیمار آدمی جب اللہ کو پکار تا ہے تو وہ اپنی بیماری سے نجات چاہتاہے ۔وہ صرف علاج چاہتا ہے شفا چاہتا ہے غریب کی دعا غریبی سے نجات کے لئے ہے ۔محبت کرنے والے اللہ سے محبوب کا قرب مانگتے ہیں۔غرضیکہ ہر انسان ایک الگ خواہش لے کر اللہ کو پکارتا ہے ۔اگر گوش باطن سے سنا جائے تو یہ کائنات ایک مجسم فریاد کی صورت میں نظر آئے گی۔دعا کا شعور فطری طور پربخشاکیا گیا ہے یہ شعور زندگی میں موجود ہے۔
Allah
بچہ بیمار ہو جائے تو ماں کو آداب دعا خود بخود آجاتے ہیں۔ مثلا دوران سفر کار،بس،جہاز وغیرہ خطرے میں ہو تو مسافروں کو دعا سکھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔دعا ان کے دل سے نکلتی ہے بلکہ ان کی ا نکھوں سے آنسو بن کر ٹپکتی ہے۔دعا کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جہاں دعا مانگنے والا ہے وہیں دعا منظور کرنے والا بھی ہے ۔اگر آپ باآواز دعا مانگیں تو وہ دور سے سنتا ہے ۔ اگر آپ دل میں دعا مانگیں تو وہ وہیں موجود ہوتا ہے ۔دعا الفاظ کی محتاج بھی ہے اور الفاظ سے بے نیاز بھی ۔ہاتھ اٹھانابھی دعا ہے ۔ملتجی نگاہ کا اٹھنا بھی دعا ہے ۔اللہ کریم کے پاس مکمل اختیا ر ہے چاہے تو گناہ گار کی دعا منظور فرما لے نہ چاہے تو پیغمبر کی دعا بھی منظور نہ فرمائے ۔دعا آخر سوال ہی تو ہے۔ماننے والا مانے یا نا مانے اس پر زور نہیں ہے۔اللہ کو کوئی مجبور نہیں کر سکتا کہ اس کی دعا لازمی قبول ہو۔
مالی دا کم پانی لونا بھر بھر مشکا ں پاوے مالک دا کم پھل پھل لاوے یا نہ لاوے
اللہ سبحان و تعالی کے علاوہ کسی مخلوق سے دعا کرنا شرک کے مترادف ہے ۔اللہ نے خود فرمایا ہے کہ وہ دعائیں سنتا ہے ،قبول کرتا ،اس لیے اپنی ہر مشکل میں اللہ سے دعا کرنی چاہیے ،اللہ تعالی بہتر جانتا ہے کہ کون سی دعا قبول کرنی ہے اور کون سی نہیں اسی طرح اللہ دکھ رنج،تکلیف دے کر انسان کو آزماتا بھی ہے یہ آزمائش ہی زندگی ہے اللہ کسی کو خوشحالی دے کر اور کسی کو مفلسی دے کر آزماتا ہے اورکسی کو صحت دے کر اور کسی کو بیماری دے کر وغیرہ اس لیے اللہ سے دعا ضرور کرنی چاہیے جو دعا نہیں کرتا اللہ اس کی پرواہ نہیں کرتا (الفرقان آیت 77 )اسی طرح (سورة الاعراف 55 )میں ہے کہ اللہ کو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے دعا کیا کرو۔
پر امید ہو کر پورے یقین سے دعا کرنی چاہیے ، یقین کے بارے میں معروف روحانی اسکالر خواجہ شمش الدین عظمی نے فرمایا کہ یقین وہ عقیدہ ہے جس میں شک نہ ہو۔ شک شیطان کا ہتھیار ہے جس کے دل میں شک ہو اس کا دعا پر کیسے یقین ہو گا اور جب یقین نہ ہو تو وہ قبول کیسے ہو سکتی ہے۔اللہ سبحان و تعالی خلوص نیت سے دعا مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہے۔