ہمارا قیمتی سرمایہ

Pakistan Students

Pakistan Students

تحریر : رضوان اللہ پشاوری
کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں نوجوانوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ماضی میں وہ اقوام سرفراز رہی ہیں، جنہوں نے اپنے نوجوانوں سے فائدہ اٹھایا، ان کے کردار کو منفی راستوں سے روکے رکھا ۔ زیادہ دور نہیں تحریک پاکستان ہی کو لے لیں کہ نوجوانوں نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ان کے مثبت کردار نے تحریک پاکستان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا، ابتدائے اسلام میں آپ ۖکا ساتھ نوجوانوں نے دیا۔ نوجوان ہمارا قیمتی سرمایہ ہے اس کی حفاظت کرنا ضروری ہے اور اس کو مثبت راستوں پر لگا کر اس کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہماری ذمہ داری ہے، اگر خدانخواستہ ہم نے اپنے نوجوانوں کو نظر انداز کیا ،یا ان کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا، ان کو مایوس کیا، ان کی فطری صلاحیتوں اور ٹیلنٹ سے ہم محروم ہو گئے ان کی حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی کی ،ملک کی تعمیر وترقی میں ان کو موقع دینے کی بجائے رکاوٹ بن گئے۔

تو پھر ہمارا یہ سرمایہ صرف ضائع ہو کر برباد نہیں ہوگا بلکہ ہمارا درد سر بنے گا، یہی نوجوان ہی ہماری ترقی کے راستوں میں رکاوٹ بن کر تعمیر و ترقی کے راستوں کو مسدود کرکے رکھ دے گا،نفع کی بجائے نقصان اور تکلیف کا باعث بنے گا، تعمیر کی بجائے تخریب کا سبب بنے گا، امن کی بجائے بدامنی پھیلائے گا حتی کہ جہاں کہیں گڑ بڑ ہوگی ہمارا مایوس کردہ اور حوصلہ شکن نوجوان اس میں پیش پیش ہوگا ۔ایسے حالات پید اکرنے اور بنانے کا مباشرةً ذمہ دار تو نوجوان ہوگا لیکن تسبب کے لحاظ سے وہی شخص ذمہ دار ہوگا جس نے ان نوجوانوں کی حفاظت اور اس قیمتی سرمایہ کو درست جگہ صرف کرنے میں کوتاہی سے کام لیتے ہوئے نظر اندا زکیا، اس کی صلاحیتوں سے کنارہ کشی اختیار کی اور پہلو تہی کرتے ہوئے ان کی صلاحیتوں کو تباہ کیا، اس قیمتی سرمایہ کو واقعی سرمایہ بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ان نوجوانوں کی تربیت اعلیٰ پیمانے پر ہو اور اعلیٰ سطح کی تربیت دینے کے لئے حکومت بھی اقدامات کرے لیکن حکومت سے زیادہ باپ ہی اس کا بہتر بندوبست کر سکتا ہے، ہر شخص اپنی اولاد کی بہترین تربیت پر خصوصی توجہ دے اور حکومت تربیت کے سلسلے میں منصوبہ بندی سے کام لیتے ہوئے سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائے

تاکہ ہمارا نوجوان محفوظ ہو اور اس کی صلاحیتیں ضائع ہونے سے بچیں، تربیت کے حوالے سے سب سے اہم چیز مناسب تعلیم کی فراہمی ہے لیکن تعلیم صرف دنیوی بنیادوں پر نہ ہو کیونکہ محض دنیوی تعلیم تربیت کے کمال میں کمال کی تکمیل نہیں کر سکتی بلکہ ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی ضروری ہے ۔ تالی بجانے کے لئے ایک ہاتھ کافی نہیں، اسی طرح محض دنیوی تعلیم پر اکتفاء کرنے سے تربیت مکمل نہیں ہوتی جب تک دینی تعلیم ساتھ نہ ہو۔ ہاں دینی و دنیوی تعلیم کا حسین امتزاج ہی حسن تربیت کا ضامن ہے، یہ وہ تعلیم ہے جو کسی نوجوان میں واقعی شعور پیدا کرتی ہے اور اس کی قدرتی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہوئے ملک و ملت کی تعمیر میں مثبت کردار ادا کرنے کی ترغیب دیتی ہے ۔دینی و دنیوی تعلیم کا امتزاج نوجوانوں کو حقوق والدین ، حقوق انسانیت ، حقوق العباد ، اور حقوق اللہ کا تعارف کراتا ہے، پھر ان کی ادائیگی پر اکساتا ہے ۔جو والدین بچوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دیتے،نتیجةً ایسے بچے بڑے ہو کر والدین کے دکھ درد کا باعث بنتے ہیں بلکہ معاشرے کے بگاڑ کا سبب بھی بنتے ہیں۔

Education

Education

آخر والدین مجبو رہوکر اولاد دشمنی مول لیتے ہیں ۔اگر شروع ہی سے ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے ۔جس بچے کو گھر والوں کی طرف سے توجہ نہیں ملتی یا کم ملتی ہے وہ نفسیاتی طور پر احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ والدین کی عدم توجہ اور بچے کو آزاد چھوڑنا اس کو ایسے کاموں پر اکساتا ہے جو کرنے کے نہیں ہوتے۔ اسی عدم التفات کیوجہ سے بچے لوفر اور آوارہ بن جاتے ہیں ۔جوا ، شراب اور تخریبی کاروائیوں کے شکار ہو جاتے ہیں ۔چرس ، افیون حتی کہ ہیروئن کے عادی بن کر تباہ ہو جاتے ہیں۔بنیادی وجہ عدم تربیت ہوتی ہے اور عدم تربیت کی وجہ والدین کی عدم فراغت ہے، والدین کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ بچوں کو اعلی تربیت دے کر قوم کے صف اول کے نوجوانوں میں ان کو شامل کر دیں تاکہ ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں، تعلیم و تربیت دینے سے دنیوی ،اخروی ہر قسم کے فوائد سب سے پہلے والدین کو ملیں گے پھر ملک و قوم کو ملیں گے۔ دنیا میں فائدہ یہ ہوگا کہ نوجوان تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے بعد والدین کی خدمت کرے گا،ان کے ساتھ مالی تعاون کرے گا، پرامن زندگی گزارتے ہوئے والدین کی راحت و سکون کا سبب بنے گا، اس کے علاوہ بھی لاکھوں فوائد اور لاکھوں نفعوں کا باعث بنے گا۔ دنیوی نفع کے ساتھ ساتھ والدین کی اخروی نجات کا بھی سبب بنے گا۔ ایک تربیت یافتہ نوجوان ہی والدین کی قبر پر کھڑا ہو کر ان کی مغفرت کیلئے دعائیں مانگے گا،

اللہ سے رو رو کر سوال کرے گا کہ اے اللہ! میرے والدین کو جنت الفردوس عطا فرما، لیکن اس کے برعکس وہ نوجوان جب بچپن میں والدین کی تربیت حاصل نہ کر سکا،نماز کو نہیں سیکھ سکا، اللہ کو نہیں پہچان سکا، وہ والدین کا آخرت میں درد سر بنے گا جس طرح کہ دنیا میں ان کو دکھ درد میں مبتلا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے،ا سمیں کوئی برائی نہیں کہ بچہ بڑا ہو کر دنیوی شعبے کو سنبھالتے ہوئے حلال روزی کما کر کھائے اور والدین کی بھی اعانت کرتا رہے بشرطیکہ دیندار بھی ہو،برائی تو اسمیں ہے کہ صرف دنیا کمائے اور آخرت کی فکر سے غافل رہے۔اگر بچے کا ذہن والدین نے آخرت والا نہیں بنایا تو یہ اس لاڈلے کے ساتھ بے انتہاء درجے کا ظلم ہے، ایسے بچے بڑے ہو کر سب سے پہلے والدین کو دنیا ہی میں اس کی سزا دیتے ہیں،اس طرح کے سینکڑوں واقعات جو ہم اخبارات میں پڑھتے ہیں یا کسی سے سنتے ہیں کہ فلاں جگہ پر بیٹے نے باپ کے ساتھ بدتمیزی کی ،بیٹے نے باپ کو کلہاڑی ماری ،بیٹوں اور بیٹیوں نے مل کر باپ کو مارا ۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ جیسے واقعات اسی بات کا پیش خیمہ ہوتے ہیں کہ ہم لوگ بچوں کی بروقت تربیت سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ ہمارے پاس دوستوں کے لئے تو وقت ہوتا ہے لیکن بچوں کی تربیت کیلئے وقت نہیں ہوتا، بعض والدین کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خود دینی لحاظ سے غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔

ایسے والدین تربیت دینا بھی چاہیں گے تو نہیں دے سکیں گے کیونکہ مربی کا خود تربیت یافتہ ہوناضروری ہے اس لئے تو کہا جاتا ہے کہ علماء کی مجالس میں بیٹھنا ضروری ہے تبلیغی مراکز سے تعلق ضروری ہے شب جمعہ کی پابندی ہو ،تاکہ باپ کی تربیت ہو جائے پھر اپنی اولاد کی تربیت پر بھرپور توجہ دے ۔بہرحال یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جو کہ ہر گھر کو درپیش ہے اور ہر فرد کو،کیونکہ ہر گھر میں کچھ نہ کچھ بچے تو ہوتے ہیں،ان کی تربیت اور مکمل تربیت کا مسئلہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے ،ہمارے نوجوان ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں،ہمیں کبھی بھی ان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ورنہ اس کا نتیجہ بڑا ہولناک ہوگا۔والدین او ر اولاد دونوں کا انجام خطرناک ہوگا۔اللہ پاک ہمارے اس سرمایہ کو قیمتی بنائے اور صحیح معنوں میں ہمیں ان کی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Rizwan Ullah Peshawari

Rizwan Ullah Peshawari

تحریر : رضوان اللہ پشاوری
rizwan.peshawarii@gmail.com
رابطہ نمبر: 0333-9036560/0313-5920580